ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
تحریر:محمدجان رحمت جان
مرزا سد اللہ خان غالبؔ نے نہ جانے کیوں یہ مصرہ کہا ہوگا اِس کی تاویل وتعبیرہرزمانے کے شعراء مختلف انداز میں کرتے رہے ہیں۔ ہم بچپن سے اس عادت کے پجاری ہیں کہ جس کتاب میں جیسی تعبیر پڑھی وہی سمجھ بیٹھے۔ ہو سکتا ہے اس کی ایک وجہ ہماری ابتدائی تربیت ہے کہ اساتذہ کرام نے ہمیں ’’حل‘‘ اور ٹیسٹ پیپرز میں دیئے گئے ترجمے کو یاد کرادیئے۔ اِس کی تشریح نہ ہم اور نہ ہی ہمارے استاد بلکہ مطلوبہ کتب میں جو بھی ہوتا ہم اُن کو حرف آخر مانتے ۔آخری دنوں میں جب اردو میں نمبر کم آتے تو ہم یہ کہہ کر اطمینان سے بیٹھ جاتے تھے کہ’’اردو ہماری زبان نہیں یہ تو پاکستان کی قومی زبان ہونے کی وجہ سے ہم پر مسلط ہے‘‘۔ اردو کے بعد انگریزی کا نمبر آتا ہے جس کی کمزوری کیلئے ہم ماحول کو ذمہ دار ٹھہراتے رہے ہیں۔ محض ٹسٹ انٹرویو زاور بڑے سرکاری نوکریوں کے حصول کی خاطر کچھ لوگ پڑھاکرتے ہیں۔ ہمارے استاد محترم بھی کیا خوب کہا کرتے تھے کہ انگریزی اسان ہے’ بس جملے کے آخر میں ’تے رہے ہیں‘ ’تی رہی ہیں‘ ’تا رہا ہے‘ آئے تو سمجھو کہ یہ جملہ جاریہ ہے اس کی نشانی یہ ہے کہ آخر میںINGآتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ دیگر کتابوں کے بارے میں کیا کہے وہ تو ازبر کی چیزیں تھی جو کرسکیں ٹھیک جو نہ کرسکیں کم عقلی پرالزام دیکر راہ فرار لی۔
سکول کی زندگی گزر گئی۔ کالج میں داخل ہوئے تو وہاں کے لکچرر(ٹیچر)نے پچپن کے سینکڑوں الفاظ کو ’’غلط‘‘ قرار دیکر اُن کا نیا تلفظ بتایا اور’’ مطلب ‘‘بھی ’نیا ‘سمجھایا۔ ہم نے گزرے زمانے کو وقت کا ضیائع سمجھ کر دوبارہ محنت جاری رکھا۔ ہر کتاب کے استاد نے پچھلے اسباق کو غلط قرار دیکر ہمیں دوبارہ اُن کا مطلب سمجھایا اور روزانہ وہ’ املاع‘ لکھواتے رہے۔ مختلف مضامین کے اساتذہ ہمیں’’ نوٹس‘‘ دیتے اور کہا کرتے تھے کہ ’یہ نوٹس ہم نے خاص کر آپ لوگوں کے لئے تیار کی ہیں جو سکولوں سے پڑھے بغیر آتے ہیں‘۔ ہم نے بھی اُن کی بات مان لی اور اُن کے دیئے ہوئے نوٹس ازبر کر لیا۔ اشعار‘ نثر اور دیگر اصناف ادب اور نصاب کی تیاری یوں مکمل کردی۔ اس دوران نہ تو استاد نے ہمیں خود کوئی کام کرنے کو کہا اور نہ ہی ہم نے اُن سے تقاضا کیا۔ دو چار سال میں گریجویشن کرلی۔ گاؤں یا دیہات میں پہنچنے پر لوگ بہت عزت کرنے لگے کہ ’ہمارا گریجوئٹ بٹیا آیا ہے‘۔ عملی زندگی میں جانے سے قبل ہی ہمیں اپنے آپ پر اعتماد کا پتہ چل گیا گاؤں میں لوگ کبھی کبھی ہمارے پاس آتے تھے کہ فلاں کے لئے درخواست لکھنا ہے اور کوئی کہتا ‘ خط لکھنا ہے وغیرہ ۔ ہوتا یوں تھا کہ ہم بہانے بناتے رہے کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے یا کہتے کہ ہماری اردو ٹھیک نہیں ہے یا ہم وہی لکھتے تھے جو ہم نے سکول یا کالج میں پڑھا تھا۔ ہفتوں کے بعد وہ لوگ کہتے کہ آپ نے تو وہ چیز صحیح نہیں لکھا تھا وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے سمجھا کہ شاید سکول اور کالج کی تعلیم ناکافی ہوتی ہے یونیورسٹی جانا چائیے تاکہ کوئی کام خود بھی کر سکیں۔ بڑی محنت اور منّت سماجت کے بعد والدین یونیورسٹی جانے دیتے ہیں۔ یونیورسٹی پہنچنے پر کلاس میں پروفیسرز آتے ہیں اور مطلوبہ مضامین پڑھانے لگ جاتے ہیں۔ اس دوران بھی وہی واقعہ رونما ہوتا ہے کہ اساتذہ پچھلے زمانے کے تعلیم کو’ مسترد‘ کرتے ہوئے سکول اور کالج کے اساتذہ پر برستے ہیں اور کہنے لگتے ہیں کہ ان الفاظ کا تلفظ یہ نہیں بلکہ یہ ہے۔ معنی و مطلب میں اسمان زمین کا فرق وغیرہ وغیرہ۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہم طالب علم محنت نہیں کرتے ہیں یا ہمارے نظام تعلیم میں مسائل ہیں۔
یونیورسٹی کی زندگی میں بھی ہم نے دیکھا کہ اساتذہ کرام اپنے اپنے مضامین کے نوٹس دیتے ہیں اور انہی کو یاد کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ کسی اور کی مثال دئیے بغیر پتا چلا کہ پاکستان میں زیادہ تر تعلیمی اداروں میں جہاں سکول کے ٹیچر ’’حل‘‘ اور ٹسٹ پیپرز سے پڑھاتے تھے۔ اسی طرح کالج میں لکچرر کئی سال پرانے نوٹس دیتے رہے بعد میں پتہ چلا کہ وہ تو فلاں مرحوم استاد کے نوٹس تھے جو اُس نے کئی سال پہلے اپنے زمانے کے طالب علموں کو لکھاتھا یا جمع کیا تھا۔ یونیورسٹی میں بھی جب نوٹس کا سین دیکھا اور اُن نوٹس کو جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ وہ تو تیس سال پرانے کسی پروفیسر صاحب کے ہیں جو کاپی در کاپی ہوکر چلتے آہے ہیں۔ ہمارے تعلیمی نصاب میں تسلسل بھی نہیں۔ ہم نویں جماعت میں سائنس کے مضامین پڑھتے ہیں۔ باریویں جماعت میں آرٹس میں جاتے ہیں اور ماسٹر معاشیات یا قانون یا کسی اور میں کرتے ہیں۔ بے ربط مضامین کی وجہ سے کسی بھی مضمون میں تلخیص نہیں کر پاتے ہیں۔عملی میدان میں جب آتے ہیں تو مشکلات آتی ہیں ۔ ہم اُن مشکلات کے حل کو بھی ’’نوٹس‘‘ یا ’’حل‘‘ میں ڈھوندتے ہیں کیونکہ ہمارے اساتذہ نے کبھی ہمیں ہمارے عقل و خرد کی استعمال کی بات نہیں کی۔ ہر کام خود کرنے کی بات نہیں کی ہر عمل کے لئے پہلے سے مو جود چیزوں کا ہی سہارا لیا جاتا رہا جس کی وجہ سے نئی علم معاشرے میں نہیں آئی۔
ہم تو اسلاف کے معترف لوگ ہیں۔ اُن کی عظمت کے گیت گاتے گاتے جب خود میدان میں آتے ہیں تو صدیوں پرانے نسخے ازمانے لگ جاتے ہیں جو نہ وقت سے مربوط ہے اور نہی سیاق سے۔ کسی زمانے کسی ایک عالم نے ایک بات کی ہے ہم اُس بات کو رٹتے رٹتے رہ گئے جبکہ یورپ والوں نے نت نئے انکشافات کے ساتھ علم کے کئی دریچے کھول دیئے۔ اس لئے کہ وہ ’’حل‘‘ نہیں بلکہ عقل سے کام کرتے ہیں مختلف طریقوں سے سوچتے ہیں۔ ایک ہی چیز کے کئی پہلو نکالتے ہیں۔ ایک ہی عنوان کے لئے سینکڑوں ماہرین کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ کتاب کا انتخاب اپنے مسلک یا گروہ کی نہیں بلکہ تخصص کار کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ ہم اپنے شیخ اورمکتب سے باہر جاتے ہی نہیں جس کی وجہ سے صدیوں بعد بھی وہی سوچ وہی عمل اور وہی رویہ۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں کتابیں اور تعلیمی مواد سب یورپ کا پڑھائے جاتے ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اوپر سے مخالفت بھی سب سے زیادہ یورپ ہی کا کرتے جارہے ہیں۔ کونسا شعبہ ہے کہ جس کو ہم یورپ کی مثال یا ریفرنس دیئے بغیر پڑھا سکتے ہیں۔ سقراط سے لیکرموجودہ زمانے کے فلاسفروں تک نظام تعلیم میں روم ‘ یونان اور یورپ کا بڑا کردار ہے۔ ہماری قوم بھی کیا عجیب ہے جس قوم کو وہ اپنا دشمن سمجھتے ہیں سکولوں‘ کالجوں اور جامعات میں نصاب تعلیم میں زیادہ تر مواد اُن کا ہے۔ ہم ماضی کے چند عالموں پر ناز کرتے ہوئے کوئی نیا کام کرتے نہیں۔
ہمارے نصاب کے کتابیں اتنے پرانے ہیں کہ بعض اعدادوشمار پڑھتے ہوئے شرم آتی ہے مثلاََ دنیا کی آبادی آج کل چار ارب ہے؟(جبکہ وہ سات سے بھی آگے نکل گئی ہے)۔ دنیا میں کل ایک سو چالیس ممالک ہیں؟ مشرقی پاکستان‘ مغربی پاکستان‘ متحدہ روس‘ NWFPکا وزیر اعلیٰ کون ہے؟ شمالی علاقہ جات کے چار ضلعے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ دنیا میں اتنی تبدیلی آئی ہے کہ بچے بچے کو علم ہے لیکن نصاب میں تبدیلی نہیں۔ المیہ یہ ہی کہ اساتذہ کار‘ موبائل‘لیب ٹاپ‘ ملٹی میڈیاپروجیکٹر‘ یو۔ایس۔بی‘ نٹ‘ الیکٹرنک کتابیں سب سے استفادہ کرتے ہیں لیکن پھر بھی کہتے ہیں کہ ’’ہمارے آباؤ اجداد کی کتابیں لیکر یورپ والوں نے یہ چیزیں بنائی ہے در اصل یہ ہمارے ایجادات ہیں‘‘!۔اگر ہم اپنی کالج یا یونیورسٹی میں ایک اسائمنٹ بھی اپنی عقل سے نہیں کرسکتے ہیں تو اور کیا کرسکیں گے؟
کوئی کچھ بھی کہے (اس کالم سے آپ کا اختلاف ممکن ہے)ہمارے نظام تعلیم میں عملی کام کرنے کی بہت کمی ہے۔ امتحان کا طریقہ صدیوں پرانا ہے۔ امتحان میں سولات ایسے بنائے جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مثلاََ مرزا غالبؒ نے فلاں شعر کب لکھا تھا؟ علامہ اقبال ؒ فلاں شعر کا پہلا مصرہ کیا ہے؟ محمود غزنوی نے ہندوستا ن پر کتنے حملے کئے؟ میر انیس کے دوست کا کیا نام تھا؟ حضرت فلاں کے کتنے بیویاں تھی؟صبح سے بارش ہوتی رہی ہے کا انگریزی ترجمہ کریں۔قرآن پاک میں کل کتنے حروف ہیں؟ محمدبن قاسم کے تلوار کا رنگ کیسا تھا؟ پاکستان کے جھنڈے کی سلائی سب سے پہلے کس نے کی تھی؟فلاں کی کتاب فلاں کب شائع ہوئی؟ اس قسم کے سوالات کے جوابات دینے والا افیسر اور نہ دینے والا فیل ۔ ۔ ۔ سی ایس ایس کا امتحان ہو یا کوئی اور ہم ’’ٹسٹ پیپرز‘‘ اور مخصوص کتابوں کے مخصوص اسباق یاد کرکے اس ملک کا افیسر بن جاتے ہیں۔ اپنی عقل اور دماغ سے سوچنا ہمارا شیوہ نہیں۔ اس کی ایک وجہ یہی نظام امتحان ہے۔ معروضی سوالات میں تخلیقیت ہونی چائیے۔ یونیورسٹیز میں تحقیق اور ریسریچ کا بھی یہی حال ہے۔ ’’گوگل‘‘ کٹ پیسٹ یا کاپی کرکے ’حق‘ ادا کرتے ہیں۔ کاپی رائٹ کے لئے ایسے حربے نکالے گئے ہیں کہ تحقیقاتی سوفٹ ویئر بھی عاجز آگئے ہیں۔ یورپ کی بات ہی کچھ اور ہے۔ ہر کام عملی اور جائے وقوعہ پر ہوتی ہے۔ بنیادی مواد خود جمع کرتے ہیں اور اس کا جائزہ اورنتائج بھی خود سامنے لاتے ہیں جس کی وجہ سے عملی معاشرے کو اُن کا حصہ((Contribution مل جاتا ہے۔
تعلیم وتربیت کا یہ سلسلہ جاری رہا تو ہماری قوم کا جدید معاشرے میں بقا مشکل ہوجائے گی۔اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ کالج اور ہونیورسٹیز میں عملی تحقیق کیا جانا چائیے۔ زبانی کلامی چیزوں کی بجائے تخصیص کار کی طرف توجہ دینا چائیے۔ زمانہ اور وقت کو مدنظررکھ کر مضامین کا انتخاب ہونا چائیے ۔ تعلیم میں تسلسل اور واضح اہداف ہونا چائیے۔ مقصد اور اہداف کے حصول میں محنت اور لگن سے کام کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ سے مخلص بھی ہونا ضروری ہے۔ ہماری قوم اُس وقت تک آگے نہیں آسکیں گی جب ہم تخصیص کار (specialization) پر توجہ نہیں دیں گے۔ نوٹس اور حل کی بجائے عقل اور دماغ کا ستعمال بھی ہونا چائیے کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ’’اور بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور دن رات کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کیلئے نشانیاں ہیں ‘‘(سورۃ آل عمران:۱۹۰)۔ سورۃ ھود کی آیت ۲۴ اور سورۃ المومنین۸۵ میں اللہ فرماتے ہیں’’ اور تم سوچتے کیوں نہیں‘‘ ایک اور آیت میں اللہ سبحان وتعالیٰ فرماتے ہیں’’اور ہم نے اس کو ایک عبرت بناچھوڑاتو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟‘‘(۱۵:۵۴)۔’’اور اسی کے نشانات میں سے اسمانوں اور زمین کا پیدا کرنااور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا جدا جدا ہونا اہل دانش کیلئے ان باتوں میں بہت ساری نشانیاں ہیں‘‘(سورۃ الروم:۲۲) اور فرمایا؛’ہم عنقریب ان کو اطراف عالم میں اور خود ان کی ذات میں نشانیاں دیکھائیں گے یہاں تک تک کہ حق اُن پر ظاہر ہوجائے‘ (۵۳:۴۱)۔ ان تمام تعلیمات کے باوجود ہمارے اکثر کالجوں اور یونیورسٹیز میں پرانے نوٹس اور نقل کا رجحان جاری ہے جو کہ ہماری اگلی نسل کے لئے با لکل بھی مناسب نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقل و خرد کے استعمال کی توفیق دیں۔ جستجو اور تحقیق کے بارے میںآپ کا کیا خیال ہے؟ کیا ہمارے نظام تعلیم کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی اپنا حق ادا کرتے ہیں؟
JANAB, ACHA COLM LIKHA H. NIC YAR, JITY RAHO BHAE. MANZAR ACHA KHINCHA H