تخت نشینی امامت مبارک
رب کر یم کی کر م نو ازش سے آ ج عالمی سطح پر اسماعیلی مسلم بر ادری اپنے عظیم پیارے رو حانی پیشوا آ ل اولاد اہلبیت حضر ت اما م شاہ کریم الحسینی حاضر امام کا 56واں جشن یو م امامت نہایت عقیدت اور مذہبی جو ش و خروش سے منا ر ہے ہیں ۔ اسماعیلوں کے مو روثی امام کی حیثیت سے ان کی شخصیت کے اندر جو خصوصیات مو جو د ہیں وہ خو بیاں ان کے مقتدر خاند ان کی طرف سے وراثتاً حاصل ہو ئی ہیں ۔ چو نکہ ہز ہا ئنس کا یہ بزرگ خاندان صدیو ں سے اسلام اور مسلمانوں کی بے لو ث خدمت کا فریضہ مسلسل انجام دے رہا ہے اور اس کی بہترین مثال آج بھی جامعہ الازہر اور دیگر علمی شاہکاروں کی صورت میں موجود ہے ۔یہ آ پ کے خا ندان کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ اسلامی اقتدار کے امین رہے ہو ں یا فقیرانہ و درویشانہ زند گی گزار رہے ہوں دو نوں صورتوں میں اس خاندان کی شخصیات نے دنیا ئے اسلام کے لیے گراں قدر خدمات پیش کی ہیں ۔ جیسا کہ آ پ کے داد ا جان امام سلطان محمد شاہ آ غا خان سوئم نے علی گڑ ھ تعلیمی تحریک میں نئی روح پھو نکی جس کے نتیجے میں تحریک پاکستان کی بنیا د پڑی ، بحیثیت آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کے تحریک پاکستان کو منطقی نتیجے تک پہنچایا، پاکستان کے مسلم دنیا کے ساتھ مضبو ط بنیادوں پر تعلقات استوار کر نے کے لیے عر بی کو قومی زبان کے طور پر اپنانے پر زور دیا اور قیام پاکستان کے وقت امور مملکت چلانے کے لیے خزانے میں خطیر رقم پیش کی ۔
آ ج سے تقریباًپچپن سال قبل بیس سالہ نو جوان جو یو نیورسٹی ایجو کیشن سے ابھی فارغ نہیں ہو ا تھا اس کے کا ندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری ڈالی جا تی ہے ۔ایک ایسے وقت میں جب دنیا میں انقلابات رو نما ہو رہے تھے ۔ سلطنتیں لڑکھڑا رہی تھیں ،سیاسی افق پر نئی ریاستیں معرض وجود میں آ رہی تھیں ،اہل زمین کے جنگ کی تباہ کا ریوں سے لگے زخم مند مل ہو رہے تھے،قریب ترین سیارے پر جانے کی تیاریاں آخر مراحل میں تھیں ،اس نہج کے بڑ ے چیلنجز اور ان کے دانش مند انہ حل کے لیے ضرورت اس امر کی تھی کہ فکری و عملی محاذ پہ رہنما ئی کا مشعل ایک ایسے نو جوان کے ہاتھوں میں دیا جائے جو قدیم و جدید روایات و رجحانات کو پوری طرح سمجھتا ہو ۔جو کہ سر آ غا خان سوئم کی وصیت میں واضح ہے،
’’حالیہ سالوں میں دنیا میں بد لتے ہوئے بنیادی حالات کے پیش نظر بڑ ی بڑ ی تبدیلیوں کی وجہ سے جن میں ایٹمی سائنس کی دریافیتں بھی شامل ہیں ۔ ہمارا یقین ہے کہ شیعہ مسلم اسماعیلی جماعت کے بہتر ین مفاد میں ہو گا کہ ہمارا جا نشین ایک نو جوان شخص ہو جس نے حالیہ سالوں کے دوران اور جدید دور میں پر ورش پائی ہو اور ہوش سنبھالا ہو اور جو اپنے منصب میں بحیثیت امام زند گی کا جد ید نقطہ نظر لا ئے ‘‘۔یقیناًجب ہم اسماعیلی مسلم دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ واضح ہو جا تا ہے کہ 62ممالک میں پھیلے ہو ئے تقریباً بیس ملین اسماعیلی مسلمان مختلف سیاسی و جغرافیائی ، لسانی و روایتی اور ثقافتی و تاریخی حوالے سے مختلف پس منظرو ں میں رہنے کے با وجود ایک منظم ، متحد ، اعتدال پسند تعلیم یا فتہ واعلیٰ تہذیبی اقدار کی حامل تیزی سے ابھر تی ہوئی جماعت ہے جو علم دو ستی و علم پر وری ، امن پسندی وصلح جو ئی ، فیاضی و فراخدلی یا حب الوطنی و وفاداری کا معاملہ ہو الحمد اللہ ز ند گی کے ہر پہلو میں مثالی نظر آ تے ہیں ۔ یہ اجتماعی اخلاقی پختگی بلا شبہ ہز ہائنس حاضر امام کی خداداد صلاحیتوں ، روحانی بصیرت ، اور خا ص طور پر خاتم النبین صلم سے براہ راست نسبت کی بد ولت ہے ۔جہاں قیام پاکستان میں آپ کے دادا جان کی خدمات نا قابل فراموش ہیں وہی بقائے ، استحکام پاکستان کے لیے ہز ہائنس کی سرو سز سب پر روز رو شن کی طرح عیاں ہیں ۔
آپ ہمیشہ اپنی آ مد نی کا بڑ احصہ نہا یت فیاضی سے ملک و ملت کے لیے بر وئے کار لا رہے ہیں جس کی بہترین مثال پاکستان کی معاشی شہہ رگ کراچی میں بننے ولی آ غا خان یو نیور سٹی اینڈ ہاسپیٹل ہے جس سے ایک دنیا تعلیم ، صحت اورتحقیق کی انمو ل نعمت سے مستفیض ہو رہی ہے ۔جبکہ شمالی علاقہ جات میںآغا خان ڈیو یلپمنٹ نیٹ ورک کی اپنی ایک طویل تاریخ ہے ۔اس کے کو نے کو نے تک پھیلا ہوافلا حی انتظامی نیٹ ورک جو صحت ، تعلیم ، معاش ، ثقافت ، انفراسٹریکچر مثلاً پل ، بجلی گھر ، نہریں ، سیوریج اینڈ سنیٹیشن پرو جیکٹس اور دیگر شعبہ ہائے زند گی کے حوالے سے اقدامات تاکہ لو گوں کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے ۔آغا خان ڈیو یلپمنٹ نیٹ ورک کے چند اداروں کی بنیاد آغا خان سوئم کے زمانے میں اس وقت کے مسلمانوں کو در پیش معاشی سماجی و اخلاقی مسائل کے حل مد دد کے طور پر ڈالی گئی تھی۔ جسے جد ید دور کے تقاضو ں کے مطابق وسعت و پھیلاؤ موجودہ پیشوا کے زمانے میں انجام پایا ۔AKDNجو دنیا بھر میں اپنی غیر فر قہ ورانہ ، رنگ نسل جنس و مذہب کی تفریق سے بالا تر خدمت انجام دے رہا ہے ۔دنیا میں جہاں کہیں قدرتی وانسانی پیدا کر دہ آ فتوں ، غربت ،جہالت و پسماندگی کے شکار افرد کو بہتر حالات زند گی اور مو اقعے فراہم کر نے کے لیے کام کر رہا ہے ۔ان میں ہسپتالوں ، تعلیمی در سگاہوں ، مساجد ، پلوں ، بجلی گھروں ، یتیم خانو ، خصوصی افراد کی تر بیت کے اداروں ، ریسریچ سینٹرز، لا ئبریری و میو زیم ، ای سی ڈی اور سنیئر سٹیزن ہو مز وغیرہ ،دنیا کی چھت ہو (سینٹرل ایشیا ) یا پانیوں میں گھرے ہوئے جزائر،آ فت زدہ علاقے بھوک افلاس اور بیماری کا شکار لو گ معاشرے ہوں یا سماجی ، معاشی و خواند گی کے لحاظ سے پسماندہ علاقے ، مصر کے تاریخی شہر کے وسط میں موجود کو ڑادان کو پارک میں تبد یل کر نا ہو یا بلتت و خپلو فورٹ کی بحالی ، افغانستان و تاجکستان کے درمیان پل کی تعمیر ، بھارت میں ہمایوں کے مقبر ے کی بحالی ، افغان مہاجریں کا مسئلہ ہو یا کشمیر و بالا کو ٹ کے متاثرین الغرض ہر جگہ ،ہر وقت ،ہر حکومت کے شانہ بشانہ اپنا دست تعاون غیر مشروط طور پر پیش کر تے ہیں ۔ اپنے تو اپنے اہل مغرب آپ کی صداقت و امانت داری کے گروید ہ ہیں ۔
سلف میڈ امیر ترین و فیاض شخصیت بل گیٹس ہز ہائنس سے اپنی ملاقات میں گزارش کر تے ہیں کہ میرے پاس خدا کی دی ہوئی بے پنا ہ دولت ہے اور آ پ کے پاس دنیا کا سب سے بڑ ا شفاف ڈیو یلپمنٹ نیٹ ورک۔ میں آ پ کے اداروں کے تو سط سے تیسری دنیا کے مستحق و ضرورت مند افراد کی خد مت کر نا چاہتا ہوں ۔ آ غا خان صاحب کو دنیا میں امن ، صلح و بھائی چارہ ، تعلیم و صحت ، ثقافت و ما حولیات اور رواداری کے فروغ میں مثالی کا وشوں کے اعتراف میں دنیا کے کئی مملکتوں اور نا مور اداروں کی طرف سے اعزازات ، القابات اور ڈگریاں عنایت کی گئی ہیں جن میں بر طانیہ کی ملکہ ، ایران کے شاہی خاندان ، آئیور کو سٹ کے سر براہ ، اٹلی ، فرانس ، جر منی ، مورو کو ، پاکستان اور کئی بین الا قوامی اداروں ، تنظیموں اور یو نیور سٹیوں کی جانب سے صدارت، رکنیت ، متعدد ملکوں کی اعزازی شہر یت ، اور ڈاکٹریٹ کی ڈگر یا ں وغیر ہ شامل ہیں ۔ اس وقت بھی کئی ممالک اپنی خارجہ پالیسی تر تیب دیتے وقت آ پ کے بصیرت افروز خیالات سے استفادہ حاصل کر نے کے لیے دعوت دیتے ہیں ۔ کیو نکہ آ پ کی اسرائیل کے سوا دنیا کے تمام مملکتوں کے ساتھ نہایت خوش گوار اوربلا مشروط تعاون کی طویل تاریخ ہے ۔ہز ہائی نس حاضر امام کی اپنے مو رثوں کی مذہب سے بے پناہ عقیدت و محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ آ پ نے دین اسلام کی افاقی و فطری تعلیمات کی دور حاضر کی ضروریات کے مطابق نشر و اشاعت کے لیے اور یہ باور کر انے کے لیے کہ یہ صرف مذہب ہی نہیں بلکہ ایک عظیم ہمہ گیر تہذیب ہے جس نے دنیا کے تمام مذاہب و ثقافتوں پر نہا یت گہرے اثرات مر تب کئے ہیں ، چنانچہ اس کام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے 1977میں دی انسٹیٹیوٹ آ ف اسماعیلی اسٹڈیز سینٹر لندن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس نے اپنے قیام سے اب تک ڈیڑ ھ سو سے زائد مستندکتابیں اہل دنیا کو پیش کی ہیں اور بیسوں زیر طباعت ہیں ۔ جو قرآن و حدیث ، فقہ و علم کلام ،تصوف و قانون، نثروشاعری اور تاریخ ، ثقافت و اخلاقیات جیسے مو ضو عات پر دین اسلام کے وسیع تر سماجی و انسانی سیاق کو سمیٹتی ہیں ۔ چونکہ اس کا بڑ ا مقصد دنیا کے سامنے اسلام کے امیج کو بہترین انداز میں پیش کر نا ہے یعنی اپنوں کی کمزوریوں اور غیروں کی سینہ زوریوں سے اسلام کی پہچان جس طرح سے متاثر ہوئی ہے اس کے سد باب کے لیے پر حکمت علمی تد بیر واضع کر نا ۔گزشتہ چند دہائیوں میں آ نحضرت صلم ، کلام الٰہی اور بزرگان دین کی شان میں گستاخانہ کار ٹون ، من گھڑت الزامات اور بد نیتی و بغض پر مبنی سی ڈیز کا رد عمل ٹھو س عقلی بنیادوں ، تاریخی شواہد اورسائنسی انداز میں با طل نظریات شکن جو اب دینا شامل ہے ۔
آغا خان حاضر امام کی سر پرستی میں اس ادارے نے دنیا بھر کے مسلم بچوں کے لیے ایک بین الا قوامی نصاب تر تیب دیا ہے جو کم سنی میں ان کے ذہنوں میں دنیا و دین ایک نا قابل تقسیم حقیقت سمجھتے ہوئے بیک وقت دونوں میدانوں میں سبقت لے جانے کے لیے جہد مسلسل کر نے اور ان کی صلاحیتوں کے مثبت استعمال کو یقینی بناتے ہوئے اپنے ملک اپنے مذہب اور انسانی معاشرے کی طرف ذمہ داریوں کے احسن استعمال کی حوصلہ افزائی کر تا ہے ۔