ماہِ صیام کا تقاضا اور ہمارا رویّہ
علی احمد جان
اسلامی تعلیمات کے مطابق ماہِ صیام انکساری ، قناعت ، برداشت اور اپنی نفسیاتی خواہیشات پر قابو پانے کا درس دیتا ہے تاہم آج کا مسلم معاشرہ خصوصاً پاکستان میں صورتِ حال بالکل اس کے بر عکس ہے۔ ہر سال کئی ایسے واقعات اخباروں کی زینت بنتے ہیں جو ملک اور مذہب دونوں کو بُری طرح بد نام کرتے ہیں۔ایسا ہی ایک واقعہ پچھلے دنوں گلگت میں پیش آیا۔
نمازِ جمعہ ادا کرنے کے بعد چند ڈنڈا بردار عناصر نے ایک مقامی ہوٹل پر دھاوا بول دیا ان روزہ داروں نے سب سے پہلے ہوٹل کے مالک کو مارا پیٹا پھر باقی ’’مذہبی فریضہ‘‘ ہوٹل کے فرنیچر اور دیگر اشیاء توڑ پھوڑ کر ادا کیا۔ہوٹل سے کھانے پینے کی چیزیں اُٹھا کر باہر پھینک دی گئیں اور وہاں موجود لوگوں کو بھی نہیں بخشا۔وجہ یہ تھی کہ رمضان کے مہینے میں یہ ہوٹل بند نہیں کیا تھا۔ تحقیقات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ DHQ ہسپتا ل گاہکوچ کے پاس بنا یہ چھوٹا ہوٹل مسافروں کے لیے طعام کی فراہمی کے واسطے مقامی انتظامیہ سے باقاعدہ اجازت نامہ(پرمٹ) کے حصول کے بعد کھُلا رہتا ہے۔
قارئین ذرا غور کیجیے ! ہم پوری دنیا میں اپنی ساکھ کو کس طرح خراب کر رہے ہیں یہاں کئی سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا ہمارا مذہب اس طرح تشدد کرنے اور دہشت پھیلانے کا درس دیتا ہے؟کیا ریاستی قوانین کو توڑنے کی اجازت دیتا ہے؟ کیا روزے کا تقاضا یہی ہے؟ نہیں ہر گز نہیں۔۔یہ ڈنڈا بردار افراد نمازِ جمعہ ادا کرکے آئے تھے اور ماشاء اللہ سے روزہ دار بھی۔۔لیکن انہوں نے جو پُر تشددرویّہ اختیار کیا اس کا درس کم از کم مذہبِ اسلام نہیں دیتا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے ایک قطرہ خون بہائے بنا مکہ فتح کیا تھا لیکن ان تاریخی واقعات کو ہم صرف جمعے کے خطبے میں دہراتے ہیں اور عملی زندگی میں ان پر عمل کرنا گوارا نہیں کرتے۔یہ عناصر اپنے بنائے فیصلوں کو پتھر پر لکیر سمجھتے ہیں اور بسا اوقات ریاستی قوانین کو کُچلتے نظر آتے ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ حضرات اس ہوٹل کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رجوع کر لیتے یا پھر باہمی گفت و شنید کے ذریعے اس مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کرتے۔۔لیکن انہوں ایسا نہیں کیا۔ ڈنڈے اُٹھائے مار پیٹ کی،تشدد کیااور اسے اسلام کی خدمت قرار دے کر’’اپنے نیکیوں میں اضافہ کیا‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں مسلمان عدم برداشت اور صبرو تحمل کے فقدان کی وجہ سے بدنامی کا شکار ہو رہے ہیں جو کہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
دوسرا اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ لوکل گورنمنٹ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس واقعے کے بعد خاموش کیوں ہیں؟اگر وہ تحفظ فراہم کرنے کے اہل نہیں اور ایسے شر پسند عناصر کو لگام دینے میں بے بس ہیں تو اجازت نامہ(پرمٹ) کیوں جاری کیا؟؟ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے گھناؤنے واقعات کا سنجیدگی سے نوٹس لے اور ایسے پُر تشدد واقعات کے مرتکب افراد کو کڑی سے کڑی سزا دے اور لوگوں کے مال و جان کے محافظ ہونے کا ثبوت دے۔