دہشت گردی، بد امنی نے گلگت بلتستان میں سیاحت کا جنازہ نکال دیا ہے
عالمی یوم سیاحت کے حوالے سے خصوصی تحریر
گلگت بلتستان دنیا کے خوبصورت ترین خطوں میں شامل ہے۔ جدید سہولتوں سے عاری ہونے کے باوجود، سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے والی ہر خصوصیت سے مالامال یہ خطہ ارضی ثقافتوں ، تواریخ اور تہذیبوں کا مسکن ہونے کی وجہ سے بھی پرُکشش ہے۔ شائد اسی لیےمختلف ممالک سے سیاحوں کی ایک بڑی تعداد اس خطہء ارضی کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے قراقرم ہاے وئے پر لگنے والے لاکھوں دھکے، اور پی آئی اے کے نازو نخرے سے بھرپور طیاروں کے اڑنے کے انتظار میں ضائع ہونے والے سینکڑوں گھنٹے، برداشت کر کے ان وادیوں میں پہنچ جاتے تھے.
یہی سیاح اپنے ملکوں میں لوٹ جانے کے بعد تحریر، تصویر اور تقریر کے ذریعے ہمارے علاقے کی حسن کی تعریفیں کر کے دوسروں کو بھی متوجہ، بلکہ آمادہ، کرتے تھے کہ ’’اگر فردوس بر روئے زمین است ۔۔۔ ہمین است و ہمین است و ہمین است‘‘۔
شومئی قسمت کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے اور اس کے بعد امریکی قیادت میں افغانستان پر حملے کے بعد سے یہ تعداد بتدریج کم ہوتی گئی اور اب یہ عالم ہے کہ مشہور سیاحتی مقامات ویران پڑے ہیں۔ ہوٹل مالکان، ٹور آپریٹرز، ٹورسٹ گائیڈز اور پورٹرز حیران و پریشان ہیں کہ اب نان نفقے کا بندوبست کیسے کیا جائے اور بینکوں سے لئے گئے بھاری مالیت کے قرضے کیسے واپس کئے جائیں۔
ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گلگت بلتستان حکومت اور انتظامیہ بھر پور کوششیں کر کے سیاحوں کو علاقے کی طرف دوبارہ متوجہ کرتے اور ایسے اقدامات اُٹھاتے کہ بین الاقوامی ٹور آپریٹرز اور سفارتخانوں کا اعتماد بحال ہو جاتا۔ لیکن درحقیقت ہو ا یہ کہ گلگت بلتستان فرقہ وارانہ فسادات اور قتل و غارت کی لپیٹ میں آگیا۔ علما ، خواص اور عوام سب ان فسادات کی لپیٹ میں آکر خاک اور خون ہو گئے، اور علاقے کی نیکنامی مزید کم ہوئی۔ گلگت بلتستان کو امن کا گہوارہ اور سیاحوں کی جنت کہنے والوں کے پاس اپنے دعووں کو سچ کرنے کے لئے مواد رہا نہ واقعات۔ خوبصورت علاقوں کی تصاویر بھی سیاحوں کو متاثر کرنے میں ناکام ہونے لگی ۔ کیونکہ جب جان کے لالے پڑے ہوں تو بھلا کون سر سبز و شاداب وادیوں ، خوفناک گھاٹیوں، برف سے اٹے پہاڑوں اور سبزہ زاروں کی سیر کرنے کو آئے گا۔ رہی سہی کسر جون کے مہینے میں غیر ملکی سیاحو ں پر حملے اور انکے بہیمانہ قتل عام نے نکال دی۔
حال ہی میں گلگت بلتستان حکومت نے سلک روٹ فیسٹیول کے انعقاد کا اعلان کر دیا ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس سیاحتی اور ثقافتی میلے میں غیر ملکی سفیروں کو مدعو کیا جائیگا، تاکہ انہیں اپنے ہم وطن سیاحوں کو ہمارے علاقے کی طرف آنے کی ترغیب دینے کے لئے تیار کیا جاسکے۔نیتوں پر بلاوجہ شک کرنا غلط ہے لیکن معروضی طور پر سوچا جائے تو موجودہ حالات میں ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا، کیونکہ تصویروں اور دستکاروں کے بنائے ہوئے مصنوعات کی نمائش اور ناچ گانے کی محفلوں میں وہ جان نہیں ہے کہ وہ سیاحوں اور انکے حکومتوں کا اعتماد بحال کر سکے۔
اسلام آباد اور گلگت بلتستان میں مقیم ہمارے حکمرانوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ امن و امان قائم کیے بغیر سیاحوں کو متوجہ کرنے کی خواہش بچگانہ ہی نہیں بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے۔ امن و امان کی بحالی کے ساتھ ساتھ، علاقے کے سیاحتی اور تفریحی مقامات کی عالمی سطح پر موثر تشہیر بھی لازمی ہے، لیکن اس سے پہلے ہمیں گلگت بلتستان میں مواصلات کے شعبے کو ترقی دینا ہوگا، تاکہ سیاحوں کو سفری مشکلات سے نجات دلائی جاسکے۔ اس کے علاوہ، یہ بھی ضروری ہے کہ بڑے پیمانے پر ہوٹلوں کے نظام کو بہتر بنایا جائے اور ملازمین، مالکان اور ٹور آپریٹرز کی بہتر تربیت سے سیاحوں کو اس علاقے کے ہر کونے میں بین الاقوامی معیار کے مطابق خدمات مہیا کرنے کا اہتمام کیا جائے۔
اگر ان تجاویز پر عملدرآمد کروایا جائے تو بہت حد تک حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے، اور سیاحت کے شعبے کی مدد سے علاقے کی معیشت کو مضبوط کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں لاپرواہی کی صورت میں ہمارے علاقے کے مکین کبھی بھی ان خداداد وسائل سے فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔
جنازہ نہیں بھائی بلکہ دفن ہوکے سوال جواب بھی ہوا ہے اور یہاں کے عوام کو اپنے پاوٗں پر کلہاڑی مارنے کا پتہ ہی نہیں اپنے بچوں کا مستقبل اور معشیت کو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں
http://wwwbaseenpoint.blogspot.com/2013/09/blog-post_9709.html