کالمز

اعلانیہ لوڈشیڈنگ کیوں ضروری ہے

 شجاعت علی

کسی نے سچ کہاہے انتظار کی گھڑی لمبی ہوتی ہے بجلی کی آمد کا انتظار کرتے کرتے کافی وقت گزر چکا ۔ سوچا اس طرح بجلی کے انتظار میں گھنٹوں فارغ بیٹھنے سے بہتر ہے کچھ تعمیری کام کرلے۔ اپنا لیپ ٹاپ کھولا اس کی بیٹری میں اتنی جان تھی کہ کم از کم بجلی کے آنے تک گلگت میں لوڈ شیڈنگ اور لوڈ مینجمنٹ کے مسئلے پر کچھ لکھا جا سکتا تھا آخر اس مسئلے کو اُجاگر کرنا اور حل تجویز کرنا بھی ایک تعمیری کام تو ہے۔ چونکہ گلگت شہر میں بجلی کے آنے اور جانے کا کو ئی وقت مقر ر نہیں کبھی بارشوں اور برفباری سے نلتر بجلی گھر ایک مہینے کے لئے بند ہوتا ہے تو کبھی تکنیکی خرابی کو درست کرنے میں گھنٹے لگتے ہے کبھی فیول جنریٹر کام چھوڑ دیتا ہے تو کبھی شاہراہ قراقرم بند ہونے سے فیول کا بحران پیدا ہوتا ہے۔ دراصل گلگت شہر میں لوڈشیڈنگ کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ ہی لیتا ہے۔ راقم کافی عرصے بعد گلگت بلتستان اس خیال سے آیاتھا کہ یہاں کے خوشگوار موسم سے لُطف اندوز ہوں گے ۔سوچاموسم گرما کی آمد آمد ہے سیاح گلگت بلتستان کا رُخ کر رہے ہیں کیوں نہ ہم بھی اپنے جنت نظیر سر ذمین کی سیر کر لے مگراس دوران بجلی کے لوڈشیڈنگ کے نظام کا تقابلی جائزہ لینے کا موقع بھی نصیب ہوا جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ راولپنڈی اسلام میں بھی روزانہ چھ سے آٹھ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے مگر بجلی وقت مقررہ پہ جاتی ہے اور واپس آتی ہے۔ سب کو لوڈشیڈنگ کے اوقات کار کا بخوبی علم ہے۔ بیشتر اوقات عین وقت پہ بجلی چلی جاتی ہے اور واپس آتی ہے ہاں کبھی کبھار ایک دو منٹ کی تاخیر بھی ہوتی ہے یا جلدی بھی۔ ہوسکتا ہے خودکار نظام کا کمال ہو۔ مگر یہاں نظام اس کے برعکس پایا۔ لوڈ شیڈنگ کے اوقات کار میں تسلسل نہیں۔ نئے اوقات کار کے مطابق اپنے روز کے معمول میںیکسوئی پیدا کرنے کی کوشش کی مگر سعی لا حاصل۔ قارئین کی معلومات کے لئے اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور فکسڈ اوقات کار کے فوائدیہاں پیش خدمت ہیں ایسی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جو لوڈشیڈنگ کی مرہون منت ہیں۔ ۔

۱۔ اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سب سے بڑا فائدہ تمام صارفین کو بلاتفریق ، مساویانہ، منصفانہ اور بلاتعطل بجلی کی فراہمی ممکن ہو سکتی ہے۔ صارفین کو جب لوڈشیڈنگ کے اوقات کار کا بخوبی علم ہوتا ہیں تو وہ اپنے روزمرہ کے معمولات ذندگی کو اس مطابق ترتیب دیتے ہیں۔

۲۔ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ لوگوں پر نفسیاتی دباؤ بڑھاتاہے لوگ طیش میں آکر جلاؤگھیراؤ، توڈپھوڈ، ہڑتال اور احتجاج کرتے ہیں۔

۳۔ اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے گھروں میں امور خانہ داری مثلاً کھانا پکانا، اوون ، فریج، گیزر، واشنگ مشین، استری اور دیگر برقی آلات کے استعمال وغیرہ میں آسانی ہوتی ہے۔

۴۔ طالب علم لوڈشیڈنگ کے اوقات کار کو مدنظر رکھ کر سوتے، جاگتے ، کھانا کھاتے ، ہوم ورک اور گھر کے جُملہ امور سرانجام دیتے ہیں یوں اُنہیں اپنا ٹائم ٹیبل ترتیب دینے میں آسانی ہوتی ہے۔

۵۔ اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے خدمات فراہم کرنے والے ادارے یعنی محکمہ برقیات کو بہتر لوڈ منیجمینٹ کا موقع ملتا ہے صارفین کی جانب سے شکایات میں کمی آتی ہے اور عملے کو اپنا کام احسن طریقے سے سرانجام دینے کا موقع ملتا ہے۔

۶۔ گرمیوں میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے جب لوگوں کو سکون کی نیند نصیب نہیں ہوتی تو انسان تکاوٹ، سستی، غنودگی، اور ذہنی اضطراب کا شکار ہوتا ہے۔

۷۔ دفتروں کے کام میں خلل یا تعطل پیدا ہوتاہے۔ ملازمت پیشہ افراد کی کارکردگی متاثر ہوتی ہیں۔کچھ ملازمین لوڈشیڈنگ کا بہانہ بناکر وقت پورا کر کے گھر لوٹتے ہیں سائلین روز دفتروں کے چکر لگا لگا کر تھک جاتے ہیں۔

۸۔ انسانی فطرت ہے جب ایک کام سلیقے اور تسلسل کے ساتھ کیا جائے تو طویل دورانیہ بھی قلیل محسوس ہوتا ہے۔ اگر لوڈشیڈنگ کے اوقات کار میں بار بار ردوبدل نہ کیا جائے تو لوگ عادی ہو جائیں گے اور اپنے معمولات ذندگی کو اُسی مطابق ڈھالیں گے۔

گذشتہ دنوں ایک دوست جرمنی کا دورہ کر کے واپس آئے۔ اپنے داستان سفر سناتے ہوئے گوروں کے مُلک میں پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کے بارے میں اُن کے تاثرات اور حیرانگی کا تذکرہ بھی کر ڈالا۔ میرے لئے حیرت کی بات یہ تھی وہاں لائٹ جاتی نہیں اور ان کے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ پاکستان میں لائٹ جاتی کیسے۔کہہ رہا تھا جب دیار غیر میں پاکستان میں گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کا ذکر کیا تو ان کے لئے سب سے ذیادہ حیرت اور دلچسپی کی بات لگی کیونکہ وہاں کوئی لوڈشیڈنگ کا تصور بھی نہیں کرتا۔ قدرت نے گلگت بلتستان کو پانی جیسی انمول نعمت سے نوازہ ہے وافر مقدار میں پانی دستیاب ہونے کے باؤجود ہم تھر کے صحرا کے لوگوں کی طرح بجلی کو ترستے ہیں۔ حالانکہ ہمارے پڑوسی اور عظیم دوست ملک چین میں رن آف دی ریور یعنی بہتے دریا پر بھی بجلی پیدا کی جارہی ہے مگر ہم قدرتی چشموں، ندی نالوں، گلیشئر، برفیلے پہاڈوں اور تالابوں کے مالک ہونے کے باؤجود بجلی کی لوڈشیڈنگ کا رونا رو رہے شاید مائیکرو ہائیڈل بجلی جسے سب سے سستا بجلی کہا جاتا ہے ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔گلگت بلتستان میں چالیس سے پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہیں مگر ہم اپنے ایندھن کی ضروریات کو جنگلات کاٹ کرپورا کرنے پر بضد ہیں ذیادہ بجلی پیدا کر کے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو کم کر کے اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھنا ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔ بلاشبہ گلگت بلتستان موسمی اعتبار سے ایک سردترین علاقہ ہے سردیوں میں ہیٹنگ کا بندوبست کئے بغیر گزارہ نہیں ہوتا آگ جلا کر کھانا پکانا اور اپنے اہل وعیال کو گرم رکھنا ہماری مجبوری ہیں۔ کیوں نہ ہم پانی سے ذیادہ سے ذیادہ بجلی پیدا کر کے اپنے ایندھن کی ضرورت کو پورا کرے۔ اس سے نہ صرف ہماری گھریلو ضروریات پوری ہونگی بلکہ اپنے علاقے کے قدرتی حسن اور ہریالی کو بھی برقرار رکھیں گے۔ جس طرح خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت نے چترال میں چھوٹے چھوٹے پاور ہاوسز بنانے کیلئے مالی وسائل کا بندوبست کیا ہے پیڈو اور آغا خان رورل سپورٹ پرگرام مل کر بیک وقت وہاں کئی پاور ہاوسز تعمیر کر رہے ہیں امید کی جاتی ہے کہ بہت جلد چترال کے عوام بجلی میں خود کفیل ہونگے ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت بھی ان کی تقلید کرتے ہوئے فنڈز کا بندوبست کرے محکمہ برقیات، محکمہ تعمیرات عامہ اور اے کے آر ایس پی جیسے تجربہ کار ادارے مل کر چھوٹے چھوٹے مائیکروہائیڈل منصوبے لگا کر گاؤں کی سطح پر لوگوں کو بجلی فراہم کر سکتے ہیں منصوبوں کی نشاندہی اور نگرانی کے لئے لوکل سپورٹ آرگنائزیشنز کی بھی مدد لی جاسکتی ہے لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پر قابو پانے کے لئے یہی قلیل مدتی حل ہے ورنہ بڑے منصوبوں کی تعمیر اور تکمیل کے انتطار میں برسوں بیت جائیں گے دیامیر بھاشا ڈیم اس کی ایک ذندہ مثال ہے جسے دو ہزار سولہ میں مکمل ہونا تھا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button