کالمز

ضلع غذر میں خواتین کی بڑھتی ہوئی خود کشیاں

تحریر۔ہدایت اللہ آختر

اخبار بینی کرتے کرتے ایک خبر پر میری نظرجم  گئی اور جمنا بھی چاہئے تھا  اکثر لوگ ایسی خبروں پر توجہ بہت کم ہی دیتے ہیں ۔۔  آج کل جب تھوک کے حساب سے انسان مر رہے ہیں تو  اس کے مقابلے میں ایک ادھ خودکشی کی خبر کیا معانی رکھتی ہے  خبر پر نظر جمنے  کی ایک  وجہ یہ بھی  تھی کہ دو تین سالوں سے تواتر  کے ساتھ اس قسم کی خبریں  گلگت بلتستان کے اخباروں میں چھپ رہی ہیں۔۔اور آج کل تو مہنے میں ایک ادھ خبر ایسی لگ ہی جاتی ہے  تو ایسے میں تشویش لازمی امر ہے۔۔

خود کشی کوئی انہونی چیز نہیں   اور خود کشیاں دنیا کے ہر ممالک میں  ہوتی ہیں  اعداد شمار کے مطابق  دنیا میں سالانہ دس لاکھ افراد خودکشی  کرتے ہیں اور ایک سے دو کروڑ تک افراد اس کی کوشش کرتے ہیں۔   یہ اعداد  شمار اس لئے پیش نہیں کئے ہیں کہ خود کشی کرنا  کوئی اچھا اور نیک  کام ہے  جس فعل کو اسلام نے حرام قرار دیا ہو تو وہ کیسے اچھا  ہو سکتا ہے چند دن پہلے    یاسین  ضلع غذر میں رضاکاروں کے لئے منعقدہ  چھٹے سالانہ یوتھ کمپ کے افتتاح کے موقع پر سابق مشیر تعلیم اور موجودہ ہلال احمر کی سکریٹری  نے  ضلع غذر میں  خواتین کی بڑھتی ہوئی خود  کشیوں کو  لحمہ فکریہ  قرار دیتے  ہوئے   ان واقعات کے اصل حقائق جاننے اور ان کے تدارک کے لئے اقداات کی ضرورت  پر زور دیا اس سلسلے میں ان کا کہنا یہ تھا کہ ضروری ہے کہ گراس روٹ لیول پرکا م کیا جائے   ۔۔۔

جب  بھی  ایسا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے یا  اس حوالے سے کوئی تقریب منعقد ہوتی ہے تو  ہمارے لیڈر صاحبان یا  فلاحی اداروں کے کرتے دھرتے  محفل میں آکر بڑی میٹھی اور شرین الفاظ  سے اس محفل کی رونق کو دوبالا کرنے  کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے ساتھ منتظمین بھی اس سے دو قدم آگے  ان کے ساتھ مل کر واہ واہ  یا ہاں میں ہاں ملا کر  محفل سے داد وصول کرکے یہ جا وہ جا  اور پھر  اگلے  سال کی فنکشن کی تیاری  اور پھر وہ گراس لیول پر کام کرنا ہوگا  ہوگا ہی رہتا ہے ہوتا نہیں ہے   آخر یہ ہوگا کب  ہوگا؟  کیا یہ اس وقت ہوگا جب پانی سر سے گذر جائیگا؟  اور لگتا  بھی ایسے ہی ہے  کہ  ان خود کشیوں کے اصل محرکات  یا حقائق کبھی بھی عوام کے سامنے نہیں آئینگے  خود کشی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں  گلگت بلتستان کے حوالے سے اگر بات کی جائے  تو دنیا یا ملک کے باقی حصوں  کے محرکات اور وجوہات میں  آسمان زمین کا فرق نہیں تو  بہت فرق ضرور ہے  کہا یہ
جاتا ہے کہ  خود کشی کی سب سے بڑی وجہ مایوسی ہے اور مایوسی کے باعث انسان اپنی زندگی  ضائع کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتا ہے  اور اسی مایوسی کے پیچھے  بہت ساری کہانیاں چھپی ہوئی ہوتی ہیں  جن کو کھنگالنے کی ضرورت ہے  اور اب یہ ضرورت تو  اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ  اگر  اس کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی تو   اس کا تناسب آئندہ سالوں میں مزید بڑھےگا اور بہت ساری دیگر پیچیدگیاں بھی اس میں شامل ہونے کا اندیشہ ہے  لہذا  صرف یہ کہنا کہ گراس لیول پر کام کرنا ہوگا کافی نہیں بلکہ کام ہوتا ہوا دکھنا بھی چاہئے یہ کا م  اتنا آسان بھی نہیں  کہ چند دنوں میں  حل ہوگا  اس پر کام کرنے والوں  کے لئے راستے میں  بہت سی مشکلوں کا سامنا ہو سکتا ہے.

 مشاہدے سے یہ بات  بھی سامنے آئی کہ  خود کشیوں کے بیشتر کیس خواتین  کی ہیں جس کے باعث بھی  متاثرہ افراد تک رسائی میں  بڑی دقت کا سامنا  ہوتا ہے   کیونکہ گلگت بلتستان میں  کچھ رویات  یا رواج ایسے ہیں  جس کے باعث خاندانی دشمنیاں مدتوں قائم رہتی ہیں  اور اسی خوف کی وجہ سے سچ  لبوں تک  نہیں آتا   اور بھی دیگر روایتی  رسم و رواج ہیں  جن کے باعث  ان خود کشیوں کے اصل حقائق  سے لوگ بے خبر رہتے ہیں اور پیش منظر کہانی کو سچ سجھ کر پس منظر حقائق  کو بھول جاتے ہیں۔۔ مجھ تک جو معلومات پہنچی ہیں اس کے مطابق گلگت بلتستان  میں خود کشیوں کہ  جو بڑی وجوہات ہیں ان میں  رشتہ نہ ہونے یا رشتہ نہ دینے پر،   ذات پات کی وجہ،  پڑھی لکھی لڑکی کا ان پڑھ سے بیاہ کرنا،   یا ناجائز تعلق  کا راز افشاں ہونا،  اور گھریلو لڑائی جھگڑے  کی وجہ سے قتل ہونے کے بعد خود کشی کا نام د ینا ،مزید تحقیق کے مطابق آج تک  گلگت بلتستان میں جو خود کشیاں ہوئی ہیں  ان کی دو ہی بڑی وجوہ ہیں   ایک لڑکا اور لڑکی کی اپس کی محبت اور والدین  کا رشتہ دینے سے انکار  اور دوسری وجہ  رشتہ داروں یا  والدین کا خود سے لڑکی کو قتل کرنا  اور بعد میں اسے خود کشی کا نام دینا.

 یہ باتیں تو میرے مشاہدے اور تحقیق کے مطابق ہیں ممکن ہے کہ اس بارے کسی این جی او یا کسی اور ادارے نے کوئی  تحقیق کی ہو انہو ں  نے بھی ان خود کشیوں کی محرکات جاننے کی کوشش کی ہو یا پتہ کیا ہو بہرحال  جو بھی صورت ہے  اس بارے ان باتوں سے ہٹ کر کہ اس کی وجہ سے  ضلع غذر کی یا کسی اور ضلع کی بدنامی ہو تی ہے حقائق کو چھپانے کے بجائے ان کو منظر عام پر لاکر خود کشی کا فعل  جو ختم تو نہیں ہوسکتا البتہ  اس کے بڑھتے ہوئے  رحجان میں کمی لانے کی  سعی کی جاسکتی ہے.

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button