کالمز

وخی آرتھوگرافی ورکشاپ

تحریر امیر حیدر بگورو

دنیا میں سات ہزار سے ذائد زبانیں بولی جاتی ہیں  اور بہت ہی قلیل تعداد میں  ان زبانوں کو لکھا جاتا  ہے  اور سے بہت ہی کم تعداد میں ان کو پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے  وہ زبانیں جن کو لکھنا  اور پڑھنا مقصود ہو ان زبانوں کو  لسانی اعتبار سے پرکھا جاتا ہے اور اس  کے بعد ان کو لکھنے کے قابل بنایا  جاتا ہے۔  پاکستان میں اگر ان لکھنے وار پڑھنے والی زبانوں کی تعدا د دیکھو تو ان کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے جیسے اردو، سندھی، پشتوں، سیرائیکی ، اور بلوچی شامل ہیں۔  باقی ملک میں بولنے والی تمام زبانیں ، زبانی  ہی سمجھی  اور بولی  جاتیں ہیں۔  دنیا میں ترقی یافتہ زبانیں ایک مخصوص عمل سے گزر کر لکھنے پڑھنے کے قابل بن جاتی ہیں۔  جس نظام سے گزر کر یہ زبانیں لکھنے کے وابل بنی ہیں  ۔ انگریزی میں اس نظام کو آرتھوگرافی کہا جاتا ہے۔  یہ ایک فرنچ لفظ ہے  جس کو دو  حصوں  ًآرتھوسً   اورً گرافی :میں تقسیم گیا ہے   آرتھوس کا مطلب سیدھا / صحیح   جبکہ گرافین کا مطلب  لکھنا ہوتا ہے۔ پس اس تعریف سے ایک بات واضح ہو جاتی ہو جاتی ہے کہ ارتھوگرافی کا مطلب صحیح لکھنا ہوتا ہے۔ باالفاظ دیگر اس کو  مجموعی طور کسی بھی زبان کا  تسلیم شدہ لکھنے   کا طریقہ کا ر کہہ سکتے ہیں۔ اس تعریف کی روشنی میں  جس شے کو دیکھنا اہم ہے وہ  تسلیم شدہ لکھنے کا نظام ہے۔  اس نظام کی مناسبت سے ہم کسی ایسے لکھنے کو طریقہ کار کو معیاری کہتے ہیں  جس میں اس زبان سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ ایک ہی طریقے سے اس زبان کو لکھتے  ہو۔  جبکہ دوسری طرف وہ زبان  جس کے لکھنے والوں کا اپنا  اپنا ایک لکھنے کا نظام ہے اس کو معیاری  لکھائی کا نظام نہیں کہہ سکتے ہیں۔ ایسی زبانیں جن کو لکھاریوں کا  اپنا اپنا لکھنے کا نظام ہوتا ہے  ان کو  ایک باضابطہ طریقے سے ان کو ہنر مند بنا کر ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کر  کے  ان کو ایک نظام میں لکھنے اور پڑھنے پر متفق کیا جا سکتا ہے۔ اس نظام کو ہم لسانیات کی زبان میں ارتھوگرافی کی ٹریننگ یا ورکشاپ کہتے ہیں  یہ بنیادی طور پر چار سے پانچ دنوں پر مشتمل میں ایک ورکشاپ ہوتا ہے جس کے بہت سارے پہلو ہوتے ہیں  ۔

کسی بھی زبان میں معیاری لکھائی پڑھائی  کے کچھ لسانی اصولوں کے ساتھ  ان  کے دیگر تمام پہلوں کا بھی بغور  مطالعہ کرنا لازمی ہے۔   نظام لکھائی ایک پیچیدہ عمل ہے  کسی بھی زبان کی  نظام لکھائی پڑھائی سے پہلے اس زبان کے  متعلق ہونے والی لسانی تحقیق ، سماجی ، معاشی، معاشرتی ، سیاسی  اور  پہلوں کے بارے میں    جاننا بہت لازمی ہے  اس میں اس زبان پر ماضی میں  ہونے والے کام ، اس زبان کا اسٹیریکچر ، زبان کے والوز، کنسوننٹ، اسم فعل حرف،   وغیرہ کے ساتھ  سی ،وی، سی پیٹرن  کی بھی جانچ پڑتال کی جاتی ہے ۔ کسی بھی زبان کو لکھنے کے قابل بنانے کے لیے صرف مندرجہ بالا اصول ہی کا فی  نہیں ہیں  بلکہ  اس کے دوسرے پہلوں کا  جائزہ لینا لازمی ہے۔    نظام لکھائی میں جن اہم پہلوں کو دیکھا جاتا ہے اس دوسرے نمبر پر  نظام لکھائی کا سائکلوجیکل پہلو ہے۔ یہ نظام لکھائی کا دوسرا اہم  پہلو ہے   چونکہ لکھت پڑھت میں انسان کا ذہن کام کرتا ہے  اس لیے کسی بھی زبان کی ارتھوگرافی بناتے ہوئے  سیکھنے، پڑھنے اور لکھنے  میں آسانی کو مد نطر رکھا جاتا ہے۔ سوئم ارتھوگرافی کا جو اہم پہلو ہے وہ  مجوزہ کمیونٹی ہے۔ جس کی آرتھو گرافی بنائی جاتی ہے  اس میں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ یہ کمیونٹی کس حد تک   اس تجویز کردہ  ارتھوگرافی کو  اپناتی ہے۔  اس میں اس کمیونٹی کے اخلاقیات، اقدار، عقائد ، مزہبی پہلو، ثقافتی پہلو ، سیاسی پہلو، معاشی اور معاشرتی پہلوؤں کو مدنطر رکھا جاتا ہے۔ نظام لکھائی  میں چوتھے نمبر پر جس  چیز کو دیکھا جاتا ہے   اس کو  ماہرین لسانیات نے ٹیکنیکل پہلو کانام ہے اس میں یہ دیکھا جا تا ہے کہ ایا اس زبان کو لکھتے ہوئے  کوئی فونٹ کا مسئلہ تو نہیں ہے  کیا کی بورڈ کا کوئی ایشو تو نہیں ہے۔ کیا اس زبان کے تمام الفابیٹ یونی کوڈ میں ہے یا نہیں ہے۔  ان تمام پہلوں کا جائزہ  لینا بہت ضروری ہے۔

کسی بھی زبان کی ارتھوگرافی نہایت سائنسی اور محنت طلب کام ہے۔  مندرجہ بالا تمام  قوانین کے علاؤہ  ور بھی بہت سارے  عوامل ہیں جن کو دیکھنا لازمی ہے  مثال کے طور پر اگر کسی زبان کے بہت سارے لہجے بولے جاتے ہیں تو ان تما م کو بھی مدنطر رکھنا ہوتا ہے۔  اس کے اپنے خاص قوانین ہیں۔  جن کو حل کرنے کے لیے ان تمام لہجوں کے لوگوں کو  ایک جگہ اکھٹا کر کے  ان سب کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ان کو ایک لکھنے کے طریقے پر امادہ کرنا لازمی ہے۔ ورنہ دوسرے لہجے بولنے ولوں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔  اس میں جس خاص  چیز کو مدنطر رکھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کہ جس لہجے کو معیاری کرار دینا ہے وہ لہجہ  کے بولنے والوں کی تعداد  دوسرے لہجوں والوں سے زیادہ ہونا چاہیے۔ دوسرا وہی لہجہ اب کا سیاسی، سماجی معاشی اور معاشرتی حب ہو۔  وہ لہجہ ریوڈیوں اور ٹیلی ویژن میں استعمال ہوا ہوا ہو۔  اس میں  کچھ دوسری چیزیں بھی ہیں جن پر بھی توجہ دینی چاہیے لیکن ان طریقوں کے مزید نقصانات ہیں۔  جیسے  اگر کسی زبان کے لہجوں کی تعداد بہت زیادہ ہو تو وہاں پر ایک سے زیادہ لہجوں میں ارتھوگرافی بنائی جاتی ہے۔ لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ایک سے زیادہ لہجوں میں لکھنے والی زبان  دوسرے لہجے کے لوگ نہ سمجھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں۔ اس سے زبان کی لکھائی کا پڑھائی کا نظام غیر معیاری ہو گا۔

اب جب کہ ان تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر  ایک زبان کی ارتھوگرافی کی بنیاد رکھی جاتی ہے لیکن یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ  اس زبان کی لکھائی پڑھائی کا جائزہ لینے کے بعد  اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔  ایک کو عارضی لکھائی پڑھائی کا نظام کا کہا جاتا ہے دوسرے کو ورکنگ آرتھوگرافی کہا جاتا ہے اور تیسرا   اپ کا معیاری ارتھو گرافی ہوتا ہے۔  جب تک اپ نے ارتھوگرافی بنائی ہے   اور وہ  لوگوں کے ساتھ شئیر نہیں کیا ہے   بہت کم لوگوں کو اس کا پتا ہے   جس کو لکھ کر پرکھا نہیں گیا ہے تو یہ ٹینٹینئو اآرتھوگراجی(عارضی) کہا جاتا ہے  جب اپ نے نظام لکھائی بنایا ہے اس کو لکھا اور پرکھا گیا ہے  اس کو لوگوں کے ساتھ شئیر کیا گیا ہے  اور  لوگوں نے اس کو تسلیم بھی کیا ہے  لیکن جب تک کسی کنسلٹینٹ نے اس کو پاس نہیں کیا ہے  اس کو ورکنگ ارتھوگرافی کہتے ہیں۔  جب اس ورکنگ لکھائی پڑھائی کے نظام کو  ایک  عرصے تک لکھنا شروع کیا جائے ۔ اور تمام لوگ صحیح املا کے ساتھ اس کو لکھے۔ اس میں مختلف لوگوں کا مواد چھپنا شروع ہو جائے۔  جو ایک ہی نظام  پر مبنی ہو تو ایسی ارتھوگرافی کو  معیاری ارتھو گرافی کہا جاتا ہے۔

اپ نے اکثر و بیشتر سنا ہو گا شمالی پاکستان  بشمول گلگت بلتستان چترال اور سوات کوہستان اور انڈس کوہستان میں بتیس سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔  پہلے کسی مضمون میں ، میں نے ان کی خاندانی درجہ بندی کی تھی  یہاں صرف  ان خاندانوں کا  سرسری ذکر کرونگا ۔     گلگت بلتستان  کی جن زبانوں کے ساتھ تعلق داری ہیں ،ان میں انڈویو یورپین کی ذیلی شاخ انڈو ایرانین  ، انڈو آرین، تبت وبرمن اور ایک اکیلی زبان ہے۔  دلچسپ بات ان زبانوں کی یہ ہے کہ  یہ تمام زبانیں اب تک  اوپر دیے گئے کسی سانچے میں نہیں اترتی ہیں    مندرجہ بالا تمام زبانیں سوائے کھوار کے  اس نظام لکھائی پڑھائی کے معیار پر نہیں اترتی ہیں۔ فورم فار لینگویج انشیٹیوذ (ایف ایل آئی)  نے اس  بات کا احساس کرتے ہوئے شمالی پاکستان کی  ایک زبان وخی (جو کہ انڈو ایرانین فیملی سے تعلق ہے)   میں ایک ورکشاپ کروایا۔   یہ بنیا دی طور پر تین دن کا  ورکشاپ تھا  جس میں ایف ایل کے ماہرین نے  وخی کمیونٹی کے ریسریچرز ، شعراء،  ادیبوں اور لکھاریوں کے ساتھ مل کر سائنسی بنیادوں پر نہایت عرق ریزی  سے  ورکشاپ کروایا۔  اس ورکشاپ میں گلمت،  شش کٹ،  شمشال،  چپرسن ، پھسو اور  یاسین سے تعلق رکھنے والے وخی کے لکھاریوں نے شرکت کی تھی۔   اس ورکشاپ کو منعقد  کروانے میں  انشیٹیوز فار پامیر آرٹس اینڈ کلچر     کی خدمات قابل ذکر ہے۔  اس  مقامی ادارے نے وخی زبان سے تعلق رکھنے والے تمام شعراء  ادیبوں اور ریسریچرز کو ایف ایل ائی کے وساطت سے ایک چھتری کے نیچے اکھٹا کیا۔  یہ ورکشاپ  گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلا  ورکشاپ تھا جس میں اتنی بڑی تعداد میں  ادیب ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہو کر  تاریخی فیصلے کیے۔

 جیسے اوپر ذکر کیا گیا ہے نظام لکھائی  کو سمجھنے کے لیے ان لوگوں کے بارے میں جاننا لازمی ہیں جنہوں نے اب تک اس زبان پر کام کیا ہے۔ میری معلومات کے حساب سے سب سے پہلے وخی زبان پر  پہلے یوروپین لکھاری رابرٹ  نے لکھا ہے۔ جس 1876میں وخی گرامر  اور الفابیٹ لکھا ہے۔ اس کے بعد دوسرے لکھاری  موگین نے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کے بعد  تیسرے نمبر پر گرومبرک اور کمیونسکی نے  1960 میں وخی الفاظ کا مجموعہ اور  دو اور کتابیں لکھی ہیں۔  اس کے چوتھے غیر ملکی لکھاری ڈوملیک اور لاریزا نے دو کتابیں پبلش کروائی ہیں۔

مقامی لکھاریوں میں ماسٹر حقیقت علی نے رومن رسم الخط استعمال کرتے ہوے ایک وخی قاعدہ لکھی۔ اس کے بعد احمد جامی سخی نے عربی رسم الخط استعمال کرتے ہوے ایک اور قاعدہ ترتیب دی۔ کراچی میں مقیم وخی طلبہ نے اسی اور نوے کی دہائی میں "وخ” اور "سم سنگ” نامی کتابوں میں عربی اور رومن رسم الخط استعمال  کرتے ہوے مضامین اور گردانیں ترتیب دیں۔ کریم خان ساکا نے رومن وخی میں ایک میگزین "وخی ایکسپریس” کے نام سے جاری کی، جس کی تین جلدیں اب تک شائع ہو چکی ہیں۔ وخی زبان میں پہلے صاحب دیوان شاعر ہونے کا اعزاز نذیر احمد بلبل کو حاصل ہے، جن کی شاعری کا مجموعہ رومن رسم الخط میں شائع ہوچکا ہے۔ وخی شاعری کی ایک اور کتاب "بلبلک میوزک سکول” نے شائع کی ہے، جس میں پرانے اور بعض نئے شعرا کے کلام کو یکجا کیا گیا ہے۔ وخی نثر نگاری بھی ترقی پذیر ہے۔ رومن رسم الخط میں عنقریب بچوں کے لئے تصویری کہانیاں منظرِعام پر آنے والی ہیں۔ ان کہانیوں پر معروف شاعر نذیر احمد بلبل اور زبان کی ترقی کے لئے کام کرنے والے دیدر علی کام کررہے ہیں اور یہ کتابیں "پاکستان ریڈنگ پراجیکٹ” کے تحت شائع کی جائیں گی۔

  اس ورکشاپ میں وخی زبان  کے  نظام لکھائی پڑھائی کا جائزہ لیا گیا ۔  اور ہمیں اندازہ ہوا کہ ہمارے جو خدشات تھے وہ ایک ایک ہو کر  درست ثابت ہو رہے تھے۔ میٹنگ ھال میں موجود ایک ہی زبان کو تین مختلف انداز میں لکھنے والے  لکھاری موجود تھے۔ اور دلچسپ بات یہ تھی   تینوں گروپ بہت مثبت انداز میں ایک دوسروں کے کام کو سرا رہے تھے۔ اور کیوں نہ سرائے  یہ تمام وخی زبان کے درخشاں ستارے تھے  جنہوں کو  اپنی زبان لکھنے کا اعزاز  ملا ہے اور تاریخ میں ان کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ مختصر  ھال میں موجود تین گروپ  تھے اور تینوں لکھاریوں کے اپنے اپنے لکھنے کے الگ  طریقہ کار تھے۔   کوئی عربک سکرپٹ میں لکھا  رہا تھا تو کوئی     رومن میں  الغرض سب کے لکھنے کا اپنا ایک طریقہ کار  تھا۔  لسانیات میں سب لکھاریوں کی  کی لکھائی کی اپنی ایک چیثیت اور اہمیت ہے  کسی بھی  لکھاری کے لکھنے کے طریقہ کار کو  کوئی بھی شخص ایک دم مسترد نہیں کر سکتا ہے۔ اور نہ ہی کسی کے لکھنے کے طریقے کو غلط کہا جا سکتا ہے۔  جو لکھاری جس انداز میں لکھ رہا ہے   اور جو ماضی میں لکھ چکا ہے اس کی اپنی ایک  اہمیت ہے۔    اور یہ  اس کی اپنی زبان  کے لیے  محبت ہے۔ چونکہ آرتھوگرافی کسی بندے کا انفرادی مسئلہ نہیں ہے یہ پوری قوم کی امانت ہوتی ہے اور  کوئی بھی زبان کا ایک ہی لکھنے کا طریقہ کار ہوتا ہے ۔ اس کے لیے اپنی انا کو قوم کے لیے فنا کر کے ان تمام سکرپٹس میں سے ایک کو چنا ہوتا ہے۔  اب جب ہم نے وخی کے تمام سکرپٹس کو دیکھا  ان کو لسانیات اور سماجیات کے حساب  سے پرکھا۔  اور اس  پر صبح نو بجے سے لیکر مستقل شام 6 بجے تک بات چیت ہونے لگی۔   اور یہ ڈسکشن مستقل تین دن تک رہی۔ یہاں سے ان کو مختلف پریزنٹیشن دے دی گئی۔ اور زبان کے معیاری  طریقے سے لکھنے کی اہمیت اور افادیت کا جو ں جوں ادراک ہونے لگا ۔ ھال میں موجود لکھاری جو  میں کہوں تو غلط نہیں ہو گا وخی زبان کے نامور لوگوں کو اس کی اہمیت کا اداراک ہو گیا۔ بہت سارے مواقعوں کو کراس سوالات پوچھے گئے آپس میں  ایک دوسرے سے   بحث و مباحثہ کیا  پھر سوالات پوچھنے کے بعد سب ایک ہی پیج پر اکھٹے ہو گئے۔  وخی زبان کے نامور شاعر  اور لکھاری حضرات  نے اخر میں اس ضرورت کو محسوس کیا کہ ان زبان کی مستقبل کا بقاء صرف  ایک ہونے اور ایک ہی لکھائی کے نظام  پر انحصار کرنے  پر ہے۔  آخر میں تمام  حاضرین نے متفقہ فیصلہ کیا  کہ مستقبل میں وخی زبان کو ایک ہی سکرپٹ میں لکھا جائے گا۔ اس کے لیے انہوں نے   ایک کمیٹی بنائی جائے گی  جو اس سلسلے کو مذید اگے بڑھائے کی ۔  یوں اسی ٹیبل میں وخی رائٹر  فورم کا تشکیل ہوا۔  اب وخی رائٹر فورم  پر عارضی زمہداریاں  کی تقسیم کا مسئلہ تھا  کمیونٹی کے لوگوں نے آپس میں پات چیت کر کے باقائدہ  ایک فارمل فورم بنایا  اور فیصلہ کیا کہ مستقبل میں یہ فورم وخی زبان اور اس کے نظام لکھائی پڑھائی کو عام لوگوں کے پاس لے کر جائنگے۔ اور مستقبل میں تمام لوگ اُسی  نظام لکھائی میں لکھ لینگے ۔ یوں گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ  اور وخی نے پہلی زبان  کا شرف حاصل کیا  جو  جدید سائنسئ  طریقے کار کو اپناتے ہوئے  اپنا نظام لکھائی پڑھائی کو جدید خطوط پر استورا کیا۔    اب  بھی کام مکمل نہیں ہوا ہے   اس نظام لکھائی کو ورکنگ آرتھوگرافی کہا جاتا ہے جیسے اوپر بیان کیا گیا ہے۔ اب جب یہ لکھائی کا نظام ایک عر صے تک چلے گا اور وخی کے تمام لوگ اس نظام کے تحت لکھنا شروع کرینگے تو یہ ان کی معیاری آرتھوگافی ہو گی۔  اس معیاری آرتھوگرافی تک پہنچنے کے لیے    انہیں مزید محنت کے ساتھ ساتھ کچھ رائٹر ورکشاپ کرنے ہونگے۔ جس میں اس زبان کے سپیلنگ رولز لکھے جائنگے۔

جیسے اوپر ذکر کیا ہے  کہ گلگت بلتستان  کی تقریبا مقامی زبانیں  اس الجھن کا شکار ہیں۔ تمام گلگت بلتستان کے زبانوں کے لکھاریوں کی اپنی ایک آرتھوگرافی ہے     مستقبل میں ایسے ورکشاپ کی سخت ضرورت ہے جہاں پر تمام زبانوں  اور ان کے لہجوں کے لکھاریوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کر کے ان کی زبانوں کو فروغ دیا سکتا ہے۔ ایف ایل آئی  اپنے محدود  وسائل کے باعث تمام زبانوں میں ایسے  پروگرام منعقد نہیں کروا سکتی ہے۔  گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت  کو چاہیے کہ وہ جی-بی  کی تمام زبانوں کو  ایسے مواقع فراہم کرے  تاکہ سب زبانوں  کی اپنی ایک معیاری نظام لکھائی بن سکے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button