نوجوانوں کو موقع دیں
ہدایت اللہ آختر
بزرگ شہریوں کے عالمی دن کے موقع پر کچھ لکھنا چاہا مگر قلم نے ساتھ ہی نہیں دیا. میں سوچتا کچھ تھا لیکن لکھائی کچھ اور ہوتی تھی میں بڑا حیران کہ یہ کیا ہورہا ہے. بڑی کانٹ چھانٹ کی لیکن بات نہیں بنی کیونکہ بزرگ شہری بزرگ ہوتے ہیں اور ان کی شان میں اگر کچھ لکھا یا کہاجائے تو بڑے ادب اور احترام کی ضرورت ہوتی ہے. لیکن جب میں نے اپنے ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیا تو ان دونوں چیزوں کی کمی نظر آئی. گھر ہو یا دفتر بازار سب جگہوں میں ہمارے بزرگ شہری پریشان حال کچھ اپنوں کے ستائے ہوئے اور کچھ معاشرے کے مارے ہوئے ہمیں نظر آتے ہیں. اگر ان مسائل کا ذکر چھیڑیں تو ایک پورا دفتر بن سکتا ہے اور اس دفتر کو اپنے اخبار میں جگہ دینا کسی اخبار والے کے لئے ممکن ہی نہیں ہے.
اگر نہیں یقین تو گلگت ٹریژری آفس یا کسی بھی ڈاک خانے میں جاکر آپ اپنے ان بزرگوں کی حالت زار کانظارہ کر سکتے ہیں جو اپنی پنشن کے حصول کے لئےان جگہوں کا رخ کرتے ہیں۔
اپنے بزرگوں کا احترام ہم سب پر لازم ہے کیونکہ وہ ہمارے اثاثہ ہیں. لیکن آج تھوڑی سی بے ادبی مجھے سے ہو رہی ہے۔ جس کے لئے میں اپنے ان بزرگوں سے معذرت خواہ ہوں جو بزرگ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ابھی تک بزرگوں کی فہرست سے خارج سمجھتے ہیں۔ ان کی اس روش کی وجہ سے لوگوں کی رائے ان کے بارے اچھی نیں ہوتی ہے کچھ لوگ اس کا اظہار برملا کر دیتے ہیں اور کچھ روایات اور آداب کے باعث دل میں اپنی خفگی کا اظہار کرتے ہیں۔۔
میں یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ایک دن پہلے میرے مشاہدے میں یہ بات آئی اور میں نے سوچا کہ ان بزرگ شہریوں کے مسائل سے ذرا ہٹ کر اسی پہ بات کی جائے. بس پھر میری نظروں کے سامنے وہ نوجوان اور قلم قرطاس میں رواں دواں تھا ہوا یوں کہ گلگت ڈاک خانے کے باہر ایک نوجوان پنشن کے حصول کے لے موجود بزرگوں کا رش دیکھ کر شینا زبان میں کہہ رہا تھا "کون چکے گا تو انی جرے ڈاک خانار فوجی پنشینیئری تو نے دفترور پڑھا لکھا جرے انس کھس موقع آکی نے دیگن اسوٹ”. میں پاس ہی کھڑا تھا مجھ سے رہا نہ گیا میں اس کے قریب ہوا اور اس سے پوچھا کہ یہ آپ نے کیا کہہ دیا. اس نے اپنے الفاظ دوبارہ شینا میں دھرائے جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ جہاں دیکھو ان بزرگوں سے جان نہیں چھوٹتی. میں نے کہا کہ آخر بات کیا ہے؟ اور آپ نے ایسی بات کیوں کی؟ وہ جلا بھنا ہوا تھا، کہنے لگا "یہ بزرگ ہیں جو اپنی پنشن کے لئے ڈاک خانے کے سامنے ڈیرا جمائے ہوئے ہیں اور دوسرے وہ بزرگ ہیں جو پنشن کے بعد بھی اداروں میں ڈیرے جمائے ہوئے ہیں اور اپنی پنشن کے ساتھ ساتھ مختلف مراعات کے بھی مزے اڑا رہے ہیں آخر اس پنشن کا مطلب کیا ہے؟ آخر اتنے سارے نوجوان بے روزگار کہاں جائیں؟ کیا یہ ظلم نہیں؟ کیا یہ بے رحمی نہیں؟ کیا پنشن کے بعد اس کو دوبارہ نوکری میں رکھنا کوئی جرم نہیں؟ میرے نزدیک تو یہ نوجوانوں پر ڈرون گرانے کے مترادف اور دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں.”
وہ بولے جارہا تھا اور میں ہکا بکا اسے دیکھتا رہا لگتا ایسا تھا کہ ملازمت کی تلاش میں بڑی ٹھوکریں کھائی ہونگی تبھی تو بپھرے لہجے میں بول رہا تھا. غصے کے حالت میں اسے اتنا بھی ہوش نہیں تھا کہ اس کے ارد گرد کافی ہجوم اکھٹا ہوا ہے. وہ بغیر وقفے کے بولے جا رہا تھا. کہہ رہا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد ملک کے دوسرے حصوں سے لوگوں کو لا کر ملازمتیں دی گئیں اور کہا یہ گیا کہ گلگت بلتستان میں تعلیم یافتہ لوگ نہیں اور اب مقامی لوگ پنشن ہوتے ہی اثر رسوخ سے دوبارہ ملازمت حاصل کر لیتے ہیں تو یہ پڑھے لکھے نوجوان کہاں جائیں ۔۔ہمیں کہا جاتا ہے کہ بزرگوں کا خیال رکھیں اب آپ ہی بتائیں کہ ایک نوجوان جو بے روزگار ہو اور جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہہو تو ایسے میں وہ اپنے والدین یا بزرگوں کی خدمت اور ان کی دیکھ بھال کیسے کر سکتا ہے.
نوجوان کی باتوں میں خاصا دم تھا اس کی بات کو رد کرنا بڑا مشکل تھا اس کی یہ باتیں سن کر میرے ذہن میں بھی چند سوالات ابھرے جو اس قسم کے تھے صوبائی حکومت کس قانون کے تحت پنشن شدہ حضرات کو دوبارہ ملازمت میں بحال رکھتی ہے؟ پنشن کا قانون یا عمر کی حد ملازمتوں میں کیوں رکھی گئی ہے؟ کیا ایسا کرنا نوجوانوں کے حقوق میں ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہیں؟ کیا ایسا کرنا حق تلفی کے زمرےمیں نہیں آتا؟ کیا یہ بھی کرپشن کی ایک قسم نہیں کیا ساٹھ سال کے بعد یہ اشخاص دوبارہ جوانی کی طرف لوٹتے ہیں؟ کیا یہ اتنے ناگزیر ہیں کہ ان کے سوا کام نہیں چلتا؟ یا یہ اتنے طاقتور ہیں کہ صوبائی حکومت ان کےسامنے بے بس اور مجبور دکھائی دے؟
بزرگ شہریوں کا احترام و ادب اپنی جگہ لیکن جن بزرگوں کی وجہ سے نوجوانوں کی حق تلفی ہو رہی ہو اور مسائل جنم پا رہے ہوں اس طرف بھی ہماری توجہ ہونی چاہئے اور وہ حضرات جن کی عمریں گھر میں آرا م کرنے اور اپنی اولاد کی تربیت اور رہنائی کرنے کی ہیں ان کے لئے مفید مشورہ یہ ہے کہ وہ پنشن کی حد پوری کرنے کے بعد سرکار کی ملازمت سے چمٹے رہنے کے بجائے رضاکارانہ طور پر سبک دوش ہوکر گلگت بلتستان میں فلاحی تعلیمی ادارے قائم کریں تاکہ ان کی وجہ سے نوجوانوں کی حق تلفی نہ ہو بلکہ وہ نوجوانوں کے لئے روزگار کا باعث بنیں ۔۔
نوجوانوں کو موقع دیں.