لاوا پھٹنے والا ہے
پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کیلئے اس سے بڑی شرمندگی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے دور حکومت میں گلگت بلتستان کی تاریخ میں علاقے میں کوئی شعبہ ایسا نہیں رہا جس سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے جائز حقوق اور مطالبات کے حق میں سڑکوں پر نہ نکل آئے ہوں. اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس حکومت نے گلگت بلتستان کے علاقائی روایات کے تقدس کو پا مال کرتے ہوئے غریب اور لا چار خواتین کو بھی شاہراہوں اور سرکاری دفاتر کے سامنے طویل احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دینے پر مجبور کر دیا جو نہ صرف حکومتی ذمہ داران بلکہ ہر ذی شعور انسان کے لئے باعث شرمندگی اور لمحہ فکریہ ہے.
سال 2009 ء کے گورننس آرڈر کے تحت وجود میں آنے والی پیپلز پارٹی کی نام نہاد عوامی و جمہوری حکومت نے اپنے اقتدار کے ان چار سالوں میں جہاں پہلے سے بنیادی و جمہوری حقوق سے محروم عوام کے بچے کچے حقوق بھی کرپشن ،رشوت ستانی ،اقربا پروری کی اندھیر نگری کے ذریعے غضب کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی وہی پر زندگی کے تمام شعبہ ہائے سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنے غضب شدہ حقوق کے حصول کے لئے کئی روز تک ہڑتال، احتجاجی دھرنے اور لانگ مارچ تک کے اقدامات اٹھانے پر مجبور کر دیا. جن میں سرکاری محکموں کے ملازمین ، پولیس ،وکلاء ،صحافی،اساتذہ،طلبہ و طالبات ،سیاسی و مذہبی جماعتیں ،فلور ملز مالکان، ٹرک، ڈرائیورز، تندور مالکان ،کاروباری طبقہ او ر سول سوسائٹی سب شامل ہیں ؛لیکن سب سے زیادہ خواری لیڈی ہیلتھ ورکرز، سوشل ایکشن پروگرام اور نیشنل ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے سکولوں کے اساتذہ کو اٹھانی پڑی جو پچھلے کئی سالوں سے ملازمت کی مستقلی کی امید پر گلگت بلتستان کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں انتہائی نا معقول تنخواہوں پر دو انتہائی اہم شعبے یعنی صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولیات کی فراہمی میں مصروف عمل ہیں اور ہر وقت اپنی ملازمت کی مستقلی کے حوالے سے خوشخبری سننے کیلئے حکمرانوں کی طرف آس لگائے بیٹھے ہیں.
لیکن افسوس ان ظالم و جابر حکمرانوں پر جنہیں ان غریب و بے بس ملازمین کی مشکلات کا احساس تک نہیں اور انہوں نے ان غریب ملازمین کو ما سوائے جھوٹی یقین دہانیوں اور بے بنیاد وعدوں کے کچھ نہیں دیا جس کی وجہ سے نہ صرف سینکڑوں ملازمین کا مستقبل داؤ پر لگ جانے کا خدشہ ہے بلکہ ان دونوں اہم شعبوں سے استفادہ حاصل کرنے والے افراد بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں ۔یہ بے چار ے ملازمین جن میں زیادہ تر تعداد خواتین اور متواسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے۔
وقتاً فوقتاً حکومتی عہدیداران کو اپنے مسائل سے آگاہ کرنے کے لئے صوبائی دارلخلافہ میں احتجاج اور دھرنے دیتے رہے لیکن کسی طرف سے بھی ان کے مسائل پرتوجہ نہیں دئیے جانے پر بلا آخر دور دراز کی خواتین ملازمین کو سخت موسمی حالات اور طرح طرح کے مسائل کے باوجود بچوں سمیت سڑکوں پر نکل آنا پڑا لیکن بے رحم حکمرانوں کے کانوں میں پھر بھی جوں تک نہیں رینگی اور انہوں نے حسب روایت جھوٹی یقین دہانیوں کے ذریعے ان ملازمین کے جذبات پر قابو پالیا اور یوں چار سال کا یہ عرصہ اسی طریقے سے گزارنے میں کامیاب ہو گئے ۔
سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ علاقے اور عوام کا برے سے برا حشر کرنے کے باوجود بھی ہمارے حکمران ہاتھوں میں لمبی تسبیح لیکر حقیقی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ہم ایسے لوگوں کو آخرکیسے مسلمانوں کی فہرست میں شمار کریں جن کی ہربات میں جھوٹ اور فریب ہو، جو ہر کام میں عوام کے ساتھ دو دو ہاتھ کرتے ہوں ،جو دھوکہ بازی اور بد دیانتی ،چغل خوری، بد انتظامی اور منافقت کا مرتکب ہوں اور اوپر سے ہر لمحہ ہاتھ میں تسبیح تھامے رکھے ہوں تو یہ اسلام اور مسلمانیت کی توہین نہیں تو اور کیا ہو سکتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ہمیں یہ واضح کر دیا ہے کہ کسی سے جھوٹ بولنا، کسی کو دھوکہ دینا اور کسی کی امانت میں خیانت کرنا منافقت کی نشانیاں ہیں ۔شاید گلگت بلتستان میں پھیلی جانے والی بد امنی فرقہ واریت ،اداروں کی تباہی بد ترین معاشی بحران ،بے روزگاری ،غربت ،عدم برادشت اور معاشرتی ناہموریاں ایسے ہی حکمرانوں کی گناہوں کوتاہیوں اور اسلامی تعلیمات سے دوری کے اسباب ہیں ۔
اس لئے ہمارے حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اقتدار کا آخری سال گزشتہ چار سال کے دوران عوام کے ساتھ کی جانے والی نا انصافیوں اور استحصال پر معافی مانگتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اپنی بقایہ زندگی اور روز آخرت بھی اسی طرح ہی خوش و خرم اور عیش و عشرت سے گزارنے کی دعاؤں میں گزارے کیونکہ عوام میں ان حکمرانوں کی طرف سے مزید زیادتیاں برادشت کرنے کی کوئی ہمت نہیں رہی ہے اور عنقریب ان کے اندر صبر و استقامت کا لاؤ پھٹنے والا ہے ۔ جس کے اثرات اگلے سال قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں اسی طرح ہی دیکھنے کو ملیں گے جو اسی سال پیپلزپارٹی کو پاکستان کے عام انتخابات میں دیکھنے کو ملے تھے ۔
Very well written.
nice safder sab, acha likha ha ji, ur haqqani