کالمز

نظام کی لوٹ مار ۔۔ اور عوام

 شیرعلی انجم

 لوٹ مار کی ایک عام تاثر میں کیا تعریف ہے اسکو بتلانے کی ضرورت نہیں لیکن اگر کسی معاشرے میں باقاعدہ ایک نظام کے تحت غریبوں کو غیر قانونی ٹیکسز کے نام پر اور دوسرے طریقوں سے لوٹیں تو اسے کیانام دیا جانا چاہے یہ ایک غور طلب سوال ہے۔ اگر ہم حکومت کی آنکھ سے دیکھیں تو اسے قانون اور نظام کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے اورنجی حوالے سے بات کریں تو اسے کاروبار کانام دیا جاتا ہے جس کے مطابق کوئی بھی شخص یا کمپنی فائدہ حاصل کرنے کیلئے کوئی بھی پراڈکٹ مارکیٹ میں فروخت کیلئے پیش کرکے منافع حاصل کیا جاتا ہے جس کا کچھ حصہ ٹیکس کے نام سے قومی خزانے میں جمع کیا جاتا ہے اور باقی ماند ہ آمدنی کو اپنے کاروبار میں اور وسعت پیدا کرنے کیلئے خرچا جاتا ہے۔ یہاں چونکہ گلگت بلتستان کے حوالے سے بات ہورہی ہے لہذا اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ٹیکس کیا ہے ؟ میرے خیال سے معاشرے کا ہر ذی شعور انسان ٹیکس کی تعریف سے بخوبی واقف ہے ۔ لیکن گلگت بلتستان میں ٹیکس کیوں لگتا ہے اس بات کا شائد بہت کم لوگوں کو علم ہو اور کئی حوالے سے اس خطے کو کیوں ٹیکس فری زون بھی کہا جاتا ہیجو کہ شائد ہی لوگوں کو معلوم ہو۔بہت سے قارئین اس بات سے بھی ناآشنا ہونگے کہ گلگت بلتستان کے عوام پر بلواسطہ یا بلاواسطہ کون کون سی چیزوں پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے اور کن کن چیزوں میں گلگت بلتستان کو ٹیکس سے استشناہ حاصل ہے ۔چلئے آج ہم اس حوالے سے اور کچھ دیگر چیدہ مسائل کی نشاندہی کریں گے جس کا بوجھ براہ راست بغیر کسی قانون کے عوام پر پڑتا ہے۔مثلا موبائل فون کا رکھنا اس وقت گلگت بلتستان کے ہر شہری اپنے لئے لازم سمجھتا ہے اور اس میں مناسب بیلنس کا ہونا بھی اپنے لئے ایک ضرورت سمجھتے ہیں لیکن صرف اس موبائل میں چارج کرنے والے کارڈ سے کتنے لاکھ روزانہ غیر قانونی طور پر گلگت بلتستان کے عوام سے ٹیکس کی مد میں لیا جارہا ہے اس طرف کسی کا دھیان نہیں گیا ہوگا کیونکہ اس خطے کی عوام اپنی آئینی حیثیت سے بے خبر ہے۔ہم یہی سمجھتے ہیں کہ ہم پاکستان کی نظام میں رہتے ہیں اور اس نظام میں یہ ٹیکس لاگو ہے لہذا ہم کو بھی اسے برداشت کرنا ہے۔بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ ایک وقت تھا یہاں کے عوام تصور بھی نہیں کرتے سکتے تھے کہ اس دنیا کی آخری کالونی میں اس طرح کی سہولیات بھی میسر ہونگے آج جب ایک سہولت مل رہی ہے تو استفادہ حاصل کرنا چاہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ ہم اُس خدمات کی مخالف نہیں بلکہ اُس بھتے کے خلاف ہے جو سلیز ٹیکس ایکسائز ٹیکس کے نام پر اس غیر آئینی خطے کے عوام سے وصول کی جارہی ہے جسکا کوئی قانونی جواز نہیں کیونکہ گلگت بلتستان پاکستان کا ڈیکلیرڈ پانچواں صوبہ نہیں اور یہاں حکومتی رٹ قائم رکھنے کیلئے ایک عبوری نظام بنایا ہوا ہے جسے براہ راست وفاق پاکستان کنٹرول کرتا ہے۔آئین پاکستان کے مطابق گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ ہے جہاں پر پاکستان کی بالادستی عوام کی وفادری کے سبب قائم ہے۔لہذا اس خطے پر کسی بھی قسم کا ٹیکس لگانا پاکستان کی آئین اور قانون کے برخلاف عمل ہے۔اگر یہاں کوئی ٹیکس کا نظام لاگو کرنے کی بھی کوشش کی گئی تو بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں بلکہ اسے بھتہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ٹیلی کام کے سیکٹر میں اس وقت SCOبہترین خدمات فراہم کر رہے ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ اُن کی خدمات میں ٹیکس شامل نہیں کیونکہ یہ سرکاری اشتراک سے گلگت بلتستان اور آذاد کشمیر میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔لہذا SCOکے حکام بالا کو چاہے کہ اپنی خدمات کو اور بہتر بنائیں ساتھ ہی نجی موبائل کمپنیوں کی طرح دورافتادہ علاقوں تک اپنی سروس کو بڑھائیں تاکہ عوام کا اس جگا ٹیکس سے جان چھڑایا جا سکے۔اور اُن تمام نجی کمپنیوں کو بھی چاہے کہ گلگت بلتستان میں جو بھی آپ خدمات فراہم کررہے ہیں بہت اچھا اور بہترین ہے لیکن جب آپ کسی متنازعہ خطے میں اپنی خدمات فراہم کریں تو ملک کی آئین اور قانون کو ملحوظ خاطر رکھیں کیونکہ گلگت بلتستان کوئی جنگل تو نہیں ایک جہاں قانون اور آئین سے لوگ واقف نہ ہو اور جو جس کا مرضی میں آئے کرتے چلے جائیں۔لہذ اس حوالے سے کوئی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام پر یہ غیر قانونی ٹیکس بھی نہ لگے اور کمپنیاں اپنی خدمات بھی فراہم کرتا رہے۔ بالکل اسی طرح زندگی کے دوسرے معاملات میں یہاں کے عوام اپنے ہی لوگوں کے ہاتھ لوٹ رہے ہوتے ہیں میڈیکل کے حوالے اگر بات کریں تو اس وقت گلگت بلتستان خاص طور پر سکردو کی سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹر صاحبان کا وریہ مسیحا سے ختم ہو کر تھانیداری تک پونچ گیا ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں مریض کا استحصال ایک عام سی بات ہے جس کی وجہ مریضوں کو انہی حضرات کے اپنے نجی دواخانوں کی طرف رجوع کروانا بتایا جاتا ہے جہاں ٹیسٹ اور دوائی کے نام پر عوام کی کھال اُتار دیتے ہیں لیکن سرکاری سطح پر اس لوٹ مار کو روکنے والا کوئی نہیں۔نجی تعلیمی اداروں کی بات کریں تو بلتستان کی حد تک جہاں مجھے معلومات اپنے ذرائع سے ملی ہے کہ ضرورت سے ذیادہ غیر معیاری سکولز قائم ہو چکے ہیں لیکن معیار کو چیک کرنے والا کوئی نہیں۔بہت سے گاوں دیہات کی سطح پر ایسے انگلش میڈیم اسکولز قائم ہے جہاں پڑھانے کیلئے ایسے لوگوں کو کم تنخواہ کے عوض بھرتی کیا ہوا ہے جو کسی بھی حوالے سے انگلش میڈیم اسکولز میں ٹیچری کا معیار اور سند نہیں رکھتے۔اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جوبھی پڑھے لکھے اساتذہ سرکاری نوکریوں کی حصول تک موقتی طور پر اپنی خدمات انجام دے رہے تھے اب سرکاری سکولز میں نوکری حاصل کرچکے ہیں ایسے میں ان نجی سکولز نے بغیر کسی ٹیس

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button