گلگت ریذیڈنسی ۔آخر وہ رات آ گئی
ذرا ۱۹۳۵ کے دور میں چلتے ہیں گلگت بلتستان کے ہیڈ کوارٹر گلگت میں انگریز بہادر کا پولیٹکل ایجنٹ گلگت کی ریذیڈنسی میں براجمان ہے ۔ انگریز گلگت میں ۱۸۷۶ سے موجود تھا پر حکومت مہارجے کی ہی چلتی رہی اور یہاں موجود دو وزرتیں ، وزیر وزارت گلگت اور ہنزہ نگر کی ریاستیں جو شمالی وزارت کہلاتی تھیں۔ جس میں راجے بطور جاگیردار اپنے علاقوں میں خود مختار تھے ۔گلگت کی وزارت کے سب سے بڑے عہدے کو گورنر کہا جاتا تھا پھر ایک معاہدے کے تحت گلگت بلتستان کو ساٹھ سال کے لئے برطانوی حکومت کو پٹے میں دیا جاتا ہے۔ لیکن معاہدہ ایسا کہ مہارجہ کشمیر کی عملداری قائم اور برقرار ہے ۔مقامی راجے پہلے کی طرح مہارجہ کشمیر کو لگان ادا کر تے رہے۔ ریاست کشمیر کا جھنڈا گلگت ریذیڈنسی میں یوئین جیک کے ساتھ لہرا تا رہا اور مہارجہ کشمیر کی بنائی ہوئی گلگت سکاوٹس بھی بدستور کا م کرتی رہی۔ گلگت بلتستان میں مہارجہ کا یوم پیدائش و دیگر تقریبات بڑی دھوم دھا م سے منائے جاتے رہے اور یہاں تک کہ مقدمات کا فیصلہ بھی رنبیر پینل کوڈ کے تحت ہو تے رہے ۔ اس دوران گلگت بلتستان میں جو بھی تقرریاں ہوئیں ان پر مہارجہ کشمیر کے دسخط ثبت ہوتے رہے . ریٹائرڈ ائر مارشل اصغر خان کے والد ٹھاکر رحمت خان اور قدرت اللہ شہاب کے والد محمد عبداللہ کی تقرری بھی بطور گورنر گلگت مہارجہ کشمیر نے ہی کیا تھا ۔جموں کشمیر اسمبلی پارجا سبھا میں سکردو سے راجہ فتح علی خان کارگل سے آحمد علی خان، گلگت وزارت سے راجہ آحمد رضا اور شمالی وزارت سے محمد جواد گلگت بلتستان کی نمائندگی کر تے رہے ۔ یہ سب باتیں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں اور ہمارے آبا و اجداد بھی اس دور کو اچھے ا لفاظ میں یاد کرتے تھے اور اب بھی ضعیف العمر لوگ جنہوں نے اس دور کو د یکھا ہے ایک اچھا وقت سمجھتے ہیں حالانکہ وہ دور ہندووٗں کا دور تھا ایسا وہ کیوں کہتے تھے یا کہتے ہیں ۔یہ ایک الگ بحث ہے ۔
مذکورہ بالا واقعات اب تاریخ کشمیر کا حصہ بن چکے ہیں اور ان حقائق سے انکار ممکن نہیں۔ پھر اچانک جون ۱۹۴۷ کو حالات یک دم بدل جاتے ہیں ۔منصوبے کے تحت برطانوی حکومت ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کرتی ہے۔جب برصغیر کے بٹوارے کا فیصلہ ہوا تو گلگت بلتستان کا پٹے والا معاہدہ بھی ختم ہوا یہ علاقے دوبارہ مہارجہ کشمیر کے حوالے ہوئے تو ہری سنگھ مہارجہ کشمیر نے بریگیڈئر گھنسارا سنگھ جو رشتے میں ان کا بھتیجا تھا ۔گلگت بلتستان کا گورنر مقرر کیا۔ جس کے تحت گھنسارا سنگھ اگست ۱۹۴۷ میں گلگت پہنچا تھا ۔ اکتوبر کا مہنہ کشمیر کے حوالے سے اپنے اندر بہت سی کہانیاں سمائے ہوئے ہے ۔ کشمیر کی مظلومیت اور بدقسمتی کی کہانی اکتوبر ۱۹۴۷ سے ہی شروع ہوتی ہے جو ابھی تک جاری ہے ۔یہ ایک ایسی کہانی ہے جو شائد ہی ختم ہونے کا نا م لے ۔
پاکستان بننے سے پہلے کشمیر تین صوبوں ،صوبہ کشیمر ،صوبہ جموں اور پہاڑی صوبہ کارگل لداخ و گلگت بلتستان پر مشتمل ایک خود مختار ریاست تھی ۔ بٹوارے کے بعد بھی اس کی خود مختاری کو تسلیم کرتے ہوئے مہارجہ کشمیر کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان یا ہندوستان سے الحاق کرے یا اپنی خود مختاری کو برقرار رکھے۔ پاکستان بننے کے بعد ریاست کی تقسیم کے معاملے میں بھارت اور پاکستان میں ٹھن گئی اور کشمیر کی رسہ کشی کا کھیل شروع ہوا ۔بائیس اکتوبر اور ستائیس اکتوبر اور پھر مہارجہ کا ریاست کشمیر کو بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کے اعلان نے کھلبلی مچادی ۔ لازمی بات ہے کہ گلگت بلتستان جو مہارجہ کشمیر کے زیر نگیں علاقہ تھا اور اس کا تعینات کردہ گورنر گلگت بلتستان میں موجود تھا تو یہ علاقے بھی متاثر ہوئے بغیر کیسے رہ سکتے تھے ادھر بریگیڈئر گھنسارا سنگھ جو جنرل سٹاف آفیسر جموں کشمیر تھے گلگت کا گورنر مقرر کئے جانے پر خوش نہیں تھے ۔ انہیں معلو م تھا کہ انگریز جو اس علاقے میں حکومت کرتے رہے ہیں۔ وہ بڑے مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں ۔اسے اس بات پر بھی اعتراض تھا کہ گلگت سکاوٹس کی کمان انگریز آفیسروں کے سپرد کیوں کی گئی ؟انہوں نے یہ ساری باتیں گلگت آنے سے پہلے جموں کشمیر کے وزیر آعظم چندرا کاک کو فراہم کی تھیں ۔اسی دوران اسے یہ بھی معلو م ہو چکا تھا کہ انگریز آفیسروں اور مسلمان آفیسروں نے پاکستان سے وفاداری نبھانے کا عہد کیا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود وہ اگست ۱۹۴۷ کو گلگت پہنچے ۔گھنسارا سنگھ کا عہد حکومت صرف چند ماہ ہی رہا ۔جب گھنسارا سنگھ گلگت کا گورنر بننے جا رہا تھا اس وقت یہاں لفٹننٹ کرنل بیکن پولیٹل ایجنٹ تھا ۔۔جس سے گھنسارا سنگھ نے چارج لیا ۔ گلگت پہنچنے کے بعد گھنسارا سنگھ کو گلگت کی پوری تصویر نظر آگئی تھی ۔ اپنی گرفتاری سے دس دن پہلے اس نے بونجی گریژن کا دورہ بھی کیا یہ جانچنے کے لئے کہ اگر کوئی ایمرجنسی ہوئی تو حالات سے نمبٹنے کے لئے فوجی قوت کا اندازہ ہو سکے ۔بونجی گریژن میں کرنل مجید نے اسے فوج کی صورت حال کی بریفنگ دی اور یہی پہ گھنسارا سنگھ کو اطلاع ملی کہ قبائلی لشکر نےمظفر آباد اور بارہ مولا کی طرف پیشقدی شروع کر دی ہے۔ اور اسے یہ بھی پتہ لگا کہ صرف سکستھ جموں اینڈ کشمیر انفنٹری ہی واحد ریگولر فورس تھی جو ایمرجنسی کا مقابلہ کر سکتی تھی باقی نیم فوجی تربیت سے نا بلد تھے ۔جب وہ واپس گلگت آیا تو اسے گلگت کے نازک حالات کی نزاکت کا علم ہو چکا تھا ۔اسی دوران اس نے مقای میروں اور راجوں سے رابطہ کیا جنہوں نے اسے اپنی وفاداری کا یقین دلایا تھا ۔لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے ۔۔۔یہاں موجود میجر برون بھی مشینی انداز میں کا م کر رہا تھا اسے بھی ہر لحمے کی خبر تھی ۔اس وقت اس نے وہی کچھ کرنا تھا جو اس کو حکم ہوا تھا اور اس نے وہی کیا جیسا کہا گیا تھا اس نے یہاں کے لوگوں اور مسلمان افیسروں کو اعتماد میں لیا اور منصوبہ داتا خیل کو عملی جامعہ پہنایا ۔ اکتیس اکتوبر گلگت میں انگریز کمانڈر کے ساتھ چند مقامی آفیسر آپس میں ایک اہم موضوع پہ میٹنگ کر رہے ہیں سب اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں کچھ لوگوں کی رائے مختلف ہے پر انگریز کمانڈر نے اپنی زبان میں کہا ٹو ڈے اینڈ نیور ۔وجہ اسکی جاننے والے جانتے ہیں کہ اس نے ایسا کیوں کہا ۔
آخر وہ رات آجاتی ہے اکتوبر کی آخری اماوس کی رات ہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہے گلگت کے عوا م نیند کے مزے لے رہے ہیں اور انگریز کمانڈر چلتی پھرتی مشین کی طرح مقامی آفسروں کے ہمراہ اپریشن داتا کھیل کی کاروائی شروع کردیتا ہے ۔ ادھر ڈوگرہ گورنر نے حالات کو بھانپ لیا ہے اور گلگت ریذنڈنسی میں مرنے اور مارنے پر تلا ہوا ہے ۔ درمیانی رات کو گلگت سکاوٹس کے سو نوجوان جس کی سربراہی میجر برون کر رہے ہیں گلگت ریذنڈنسی کو گھیرے میں لیتے ہیں ۔ان سکاوٹس کے ہمراہ لفٹننٹ حیدر خان اور صوبیدار میجر بابر خان بھی ہیں ایک وقت میں گولیاں چلنے کی آوازیں آتی ہیں ۔ڈوگرہ گورنر اپنے بچاوٗ کے لئے گولی چلاتا ہے جو سپاہی امیر حیات کو لگ جاتی ہے اور وہ شہادت نوش کرتے ہیں ۔اور آزادی کا پہلا شہید قرار پاتے ہیں ۔ جس کی آخری آرا م گاہ ڈومیال گلگت کے قبرستان میں بن جاتی ہے ۔
اس معرکہ آرائی میں صبح صادق نمو دار ہوتی ہے ۔ صبح ہوتے ہی گورنر کو وارننگ دی جاتی ہے کہ اگراس نے گرفتاری پیش نہیں کی تو گلگت میں موجود غیر مسلموں کو جان سے مار دیا جائیگا ۔اس کا م میں مزید آسانی پیدا کرنے کے لئے راجہ نور علی خان اور ہندو تحصلدار شہ دیو کی خدمات بھی حاصل کی گئیں جنہوں نے گھنساراسنگھ کو گرفتار ہونے کے لئے آمادہ کیا۔ ا س طرح یکم نومبر ۱۹۴۷ کو ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ ہتھیار ڈال دیتا ہے اور اس کی گرفتاری عمل میں آ جاتی ہے ۔۔گھنسارا سنگھ کی گرفتاری کے بعد ایک صوبائی حکومت تشکیل پائی جو میجر برون،کپٹن حسن خان ،کیپٹن احسان علی،کیپٹن محمد خان،کیپٹن سعید،لیفٹننٹ حیدرخان،اور صوبیدار میجر بابر خان پر مشتمل تھی قابل غور بات یہ ہے کہ اس صوبائی حکومت میں مقای راجوں کی کوئی نمائندگی نہیں تھی شائد خانہ پوری کے لئے راجہ شارئیس خان کا نام شامل کیا گیا ہو یہ سب باہم مشورے سے ہوا تھا ۔ اسی صوبائی حکومت کو لوگ آزاد ریاست کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔تین نومبر کو میجر برون نے وائرلیس پیغام پشاور حکومت کو بھیجا جس میں درخوست کی گئی کہ وہ گلگت ریاست کا کنٹرول سبھالیں۔۔۔ یاد رہے اس سے پہلے بونجی میں تعینات سکستھ جموں اینڈ کشمیر انفنٹری کو گلگت کی طرف پیشقدی کرنے کے احکامات میجر برون کی طرف سے جاری ہوئے تھے جو راستے کی رکاوٹیں دور کرتے ہوئے گھنسارا سنگھ کی گرفتاری کے بعد گلگت پہنچی تھی۔ جس کی کمان کپٹن مرزہ حسن خان کر رہے تھے ۔۔گورنر گھنسارا سنگھ کی گرفتاری میں اگر یہ کہاوت دھرائی جائے تو بیجا نہ ہوگا بید کی بیدائی گئی کانڑی کی آنکھ گئی یعنی گرفتار کرنے والوں کا معمولی نقصان ہوا لیکن گرفتار ہونے والا سب کچھ کھو گیا اور گلگت بلتستان آزاد ہوا ؟
۰۰۰۰۰۰۰
نوٹ ۔اس کالم کی تیاری کے لئے تاریخ جموں کشمیر سٹیٹ سبجکیٹ رولز ۱۹۲۷ اور گھنسارا سنگھ کی کتاب گلگت ۱۹۴۷ سے پہلے و دیگر مقالہ جات سے مدد لی گئی
very good post