کالمز

گلگت بلتستان ،سیاسی منظر نامہ

اشرف حسین اخونزادہ

اگر چہ وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان برجیس طاہر کے مطابق انتخابات آئندہ سال اکتوبر میں ہوں گے ،مگر۲نومبر کو ایک مقامی اخبار میں ایک کالم سیاسی منظر نامہ کے عنوان سے شائع ہوا ۔کالم نگار نے ایک ابتدائی سیاسی منظر نامہ گلگت بلتستان کی سیاست کے حوالے سے قارئین کے سامنے پیش کیا تھا۔اس کالم کو پڑھنے کے بعد خیال آیا کہ اس سیاسی منظر نامے پر ذرا تفصیل سے بات کی جائے ،البتہ فی الحال ہمارے سامنے صرف مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں۔

گلگت بلتستان میں باقائدہ مذہبی سیاست کا آغاز تحریک جعفریہ پاکستان نے کیا تھا اور اس وقت علاقے کے دیندار عوام نے اس مذہبی پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے والوں کی اکثریت کو ان کی فردی اہلیت اور قابلیت وغیرہ سے قطع نظر صرف مذہب کے نام پر کامیاب کروایا اور علاقے میں تحریک کی حکومت بھی بنی ۔فی الحال ہمیں اس سے بحث نہیں ہے کہ حکومت بنانے کے بعد انہوں نے کیا کام کیا ؟وہ کیا کر سکتے تھے ؟اوران کے نعرے کیا تھے؟۔

لیکن ایک تلخ تجربہ تھا جس سے علاقے کی عوام کو گزرنا پڑا ۔علاقے کے مؤمنین دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے ،تحریک جعفریہ کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر دیکھنے کی بجائے اسے مجسم اسلام کے طور پہ پیش کیا گیا ۔جس کے نتیجے میں تحریک کی مخالفت کو ایک سیاسی پارٹی کی مخالفت ،اس کے منشور سے اختلاف اور اس کے پلیٹ فارم سے لڑنے والوں کی مخالفت سمجھنے کی بجائے اسلام کی مخالفت کے طور پہ دیکھا گیا ،البتہ میرا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ قائدین کی طرف سے ایساتاثر دیا گیاہو ،مگر ووٹ کے لئے دینی مقدسات کے استعمال اور آئمہ اطہار ؑ کے ناموں کے استعمال نے آہستہ آہستہ یہ صورت حال پیدا کر دی تھی۔

یہ ایک انتہائی نامطلوب صورت حال تھی جس نے گلگت بلتستان کی عوام کو ایک عرصے تک سیاسی مخالفت کو مذہبی رنگ میں دیکھنے کی بیماری میں مبتلا رکھا ۔ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا کہ لوگ اس مشکل سے باہر نکلنے کی پوزیشن میں آگئے تھے کہ بقول منیر نیازی :۔

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

پہلے تحریک اسلامی نے گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھر پور حصہ لینے کا اعلان کیا، پھر مجلس وحدت نے بھی پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اترنے اور علاقے کی غدار حکومت سے بدلہ لینے کا اعلان کر دیا ،یوں گلگت بلتستان کی سیاست ایک دفعہ پھر اہم موڑ پر آکھڑی ہوئی۔

اس وقت مذہبی جماعتوں کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو صورت حال کچھ یوں ہے کہ ایک طرف بیداری امت کی غیر سیاسی مگر سیاست سے بھر پور تحریک گلگت بلتستان کے پڑھے لکھے اور دیندار جوانوں کے کانوں میں الیکشن کے خلاف دلائل کا رس گھول رہی ہے اور الیکشن میں حصہ لینے کو ولایت علیؑ سے روگردانی قرار دے کر پیروانِ ولایت کی غیرتِ ولائی کو گرما رہی ہے ۔یہ آواز شائد تماشۂ سیاست کے میدان میں تو اس وقت کوئی زیادہ اثر نہ دکھائے مگر نظریاتی سطح پر کافی لوگوں کے لئے تشویش کا موجب ضرور بنے گی یہ نظریہ جس شدت کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے ،اسی شدت سے جوانوں میں الیکشن کے حوالے سے بحث بھی ہو رہی ہے ،نتیجتاً دینی علوم سے نا آشنا اور عمیق سیاسی بحثوں کی پچیدہ دلائل سے نا بلد جوانوں کے درمیاں زیادہ سے زیادہ نظریاتی فاصلے کا موجب بھی بن رہی ہے۔

دوسری جانب الیکشن کو جائز بلکہ قومی حقوق کے حصول کے لئے الیکشن میں حصہ لینے کو ضروری قرار دینے والی جماعتیں ہیں ،مگر اس ایک نکتہ پر اتفاق کے بعد ان دو بڑی دینی جماعتوں میں بھی کوئی اور اتفاق فی الحال نظر نہیں آتا۔

محرم الحرام سے کچھ ہی دنوں پہلے دونوں جماعتوں نے الیکشن میں بھر پور حصہ لینے کا اعلان جو کیا ہے اس کی ٹائمینگ بھی بہت اہمیت کی حامل ہے ،میرے خیال میں دونوں جماعتوں کے قائدین نے گویا اپنے اپنے زیر اثر خطبا اور ذاکرین کو محرم الحرام سے بھر پور استفادہ کرنے کا اشارہ دے دیا ہے۔

بہر حال گلگت بلتستان میں تین مذہبی جماعتیں آمنے سامنے کھڑی ہو ئی ہوں گی جو کہ اس علاقے اور اس علاقے کے غالب اکثر یتی فرقے کے لوگوں کے لئے نہ صرف کوئی نیک شگون نہیں ہے بلکہ یقیناًنقصان دہ بھی ہے ۔کیوں کہ ایک طرف ایک پارٹی علم کو انتخابی نشان بنا کر اسے حضر ت عباسؑ کا علم قرار دے گی اور لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہی ہو گی کہ اس علم کو ووٹ دینا آپ کا شرعی وظیفہ بنتا ہے تو دوسری طر ف ایک پارٹی خیمہ کو نشان قرار دے کر اسے خیمہ اہلبیتؑ کے طور پر پیش کر رہی ہو گی اور لوگوں کو خیمہ اہلبیتؑ میں داخل ہونے والے اورداخل نہ ہونے والوں میں تقسیم کر رہی ہو گی اور تیسری طرف ووٹ نہ دینے اور الیکشن کے عمل سے باہر رہنے کو لوگوں کا شرعی فریضہ بتایا جا رہا ہوگا ۔یہ صرف خیال یا تصور نہیں ہے بلکہ پاکستان کے ابھی حالیہ انتخابات میں اس کاباقائدہ مشاہدہ کیا گیا ہے ،یہ صورت حال عام آدمی کو نہ صرف ووٹ کے حوالے سے مخصمے میں ڈال دے گی بلکہ اس کے مذہبی تصورات کے اوپر بھی نہایت برے اثرات مرتب کرے گی۔

اب سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں کیا کیا جائے کہ نقصان اور برے اثرات کم سے کم ہو ں؟تو موجودہ حالات اور تینوں جماعتوں کے تیور دیکھتے ہوے یہ کہنا کہ یہ آپس میں مل بیٹھ کر اپنے معاملات طے کریں اور کوئی ایک متفقہ رائے عوام کے سامنے لائیں ایک خواب سے زیادہ نہیں لگتا۔ کیوں کہ ہر گروہ اپنے تئیں ٹھوس دلیل اور مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے اور یہ چاہتاہے کہ دوسری جماعت آکر ان کی جماعت میں ضم ہو جائے اور بس ۔۔خصوصا جو دو پارٹیاں الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں ان میں سے ہر ایک کو پورا یقین ہے کہ گلگت بلتستان میں ان کے نامزد لوگ کامیاب ہو نگے لہذا انہیں کسی کا تعاون لینے یا کسی سے تعاون کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔لیکن علاقے کے فرد کی حیثیت سے ہم ان جماعتوں سے مندرجہ ذیل باتوں کی توقع کرتے ہیں۔

۱۔محر م الحرام کے مجالس اور منابر کو سیاسی مقاصد کے لئے ہر گز ہر گز استعمال نہ کیا جائے خواہ مذہبی سیاسی جماعت ہو یا غیر مذہبی جماعت۔

۲۔سیاست میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرانے کے لئے آئمہ اطہار اور دیگر مقدسات کو ااستعمال کرنے کے بجائے اپنے ترقیاتی کام ،اپنا منشور اور لائحہ عمل کے ذریعہ لوگوں کی توجہ حاصل کی جائے۔

۳۔اپنے مخالف کو سیاسی مخالف سمجھیں اور اور عام کارکنوں میں بھی یہ شعور اجاگر کیا جائے کہ وہ بھی مذہبی سیاسی جماعت کی مخالفت کو مذہب کی مخالفت پر محمول نہ کرے ۔

۴۔جو علما ء الیکشن میں حصہ لینے کو جائز قرار نہیں دیتے وہ بھی اس مرحلے پر لوگوں کو مشرک اور منکر ولایتِ علیؑ جیسے القابات سے نوازنے سے گریز کریں۔

۵۔دیگر پارٹیوں کے ٹکٹ ہولڈرز اور ووٹرز کو بھی اتنا ہی مومن اور شیعہ سمجھیں جتنا مذہبی پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرزاور ووٹرز ہیں۔

مزکورہ باتوں پر عمل سے نہ صرف مذہبی جماعتوں کے آپس میں ٹکرانے کے نقصانات کم ہو سکتے ہیں بلکہ اسے بہتر نتائج کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ الیکشن میں عوام ایسے لوگوں یا پارٹیوں کا انتخاب کرتی ہیں جو ان کے حقوق دلائے ،ترقی و خوشحالی کے لئے کام کرے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوشاں رہے ۔تو ایک مذہبی پارٹی تو شائد کارکردگی دکھانے کی بجائے لوگوں کے مذہبی جذبے سے استفادہ کرے لیکن اگرمقابلے میں کوئی اور بھی مذہبی پارٹی ہو تو کم از کم اس خوداعتمادی سے کہ لوگ انہیں کامیاب کریں گے چاہے وہ کام کریں یا نہ کریں ہر پارٹی کو باہر آنا ہوگا ۔یوں خود مذہبی جماعتوں کے درمیان بہتری کی کوشش میں رقابت پیدا ہوگی۔

ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ مذہبی جماعتیں سیاست برائے مذہب کو اختیار کریں گیں نہ کہ مذہب برائے سیاست کو۔اگرچہ فی الحال تو ہر پارٹی کا اعلان بھی یہی ہو گا مگر آنے والا وقت بتائے گا کہ کس نے سیاست کو مذہب کے لئے استعمال کیا اور کس نے مذہب کو سیاست کے لئے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button