کالمز

اتفاق رائے اور فاٹا

وزیر اعظم محمد نواز شریف کا تازہ بیان آیا ہے کہ فاٹا کو خیبر پختونخوامیں ضم کرنے کے لئے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا جائے گا اتفاق رائے کے لئے مشاورت کی جائے گی وطن عزیز میں جس چیز پر اتفاق رائے سے فیصلے کی کوشش کی گئی اس کا انجام کالا باغ ڈیم اور نفاذِ شریعت جیسا ہوا یہ قوم دس ہزار میگا واٹ کے اہم ترین بجلی گھر کی تعمیر پر متفق نہ ہوسکی اسلام جیسے عالمگیر اور ہمہ گیر مذہب کے عادلانہ نظام یعنی شریعت کے نفاذ پر متفق نہ ہوسکی جنرل ضیاء الحق نے علمائے کرام کو کھلی دعوت دی کہ متفقہ شرعی بل لے آؤ ، میں اسمبلی سے منظور کراونگا علماء متفقہ بل نہ لاسکے جنرل ضیاء الحق کو معلوم تھا کہ شریعت کے مصطفوی نظام سے راہ فرار کا یہ واحد ذریعہ ہے تم علماء کو متفق ہونے کا چیلنج دیدو وہ کبھی متفق نہیں ہونگے چُنیں اور چناں میں عمریں گذر جائینگی کالا باغ ڈیم کا سانحہ بھی ایسا ہی ہوا جنرل ضیاء نے کہا چار صوبوں میں اتفاق رائے پیدا کرو ڈیم پر کام شروع ہوگا گویا قیامت تک یہ ڈیم تعمیر نہیں ہوگا وزیر اعظم نے دو سال پہلے فاٹا اصلاحات کے لئے کمیشن بنایا تو ہم فاٹا کے مستقبل سے مایوس ہوگئے کیونکہ کمیشن کا انجام ہم نے بار ہا دیکھا ہے یادش بخیر،سابق صدر آصف علی زرداری بہت "پہنچے ہوئے”حکمران تھے وہ میموگیٹ اور ایبٹ آباد کمپاونڈ کی تحقیقات نہیں چاہتا تھا اس لئے کمیشن بنایا دونوں کی تحقیقات نہ ہوسکی ان کے برعکس وہ ہمارے صوبے کا نام تبدیل کرنے میں مخلص تھاتورعز یا کالاڈھاکہ کے وفاقی علاقے کو خیبرپختونخوا کا ضلع بنانا چاہتا تھا انہوں نے اتفاق رائے کا شوشہ نہیں چھوڑا این ڈبلیو ایف پی کو خیبر پختونخوا کا نام دیا کالا ڈھاکہ کے چھوٹے سے وفاقی علاقے کو خیبر پختونخوا کا ضلع بنا دیا دونوں کا م راتوں رات انجام پاگئے اور سہانی صبح کو ہمیں خبر ہوئی ہم لوگ بہت سٹپٹائے مگر فیصلہ ہوچکا تھا اگر اتفاق رائے کا فضول شوشہ چھوڑا جاتا تو دونوں کام ناممکن تھے فاٹا کے بارے میں اگر اتفاق رائے کی کوشش کی گئی تو ہمیں ایک بار پھر "ایف سی آر زندہ باد”کہنا پڑے گااتفاق رائے کی راہ میں چار بڑی رکاوٹیں ہیں۔ پہلی رکاوٹ یہ ہے کہ انگریزوں نے مَلک طبقے کو لُنگی کے ساتھ جو رعائتیں دی تھیں ان رعایتوں کا فائدہ اُٹھا کر وہ طبقہ سالانہ ڈھائی ارب روپے نا جا ئز دولت کما تا ہے شہروں میں بڑے بڑے پلا زے تعمیر کر تا ہے دوبئی میں جا ئد اد خرید تا ہے وہ ان مرا عات کے لئے فا ٹا میں قانون ، پو لیس ، عدا لت اورانصاف کا دور آنے نہیں دے گا۔ وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کر نے پر رضامند نہیں ہو گا دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ فا ٹا کو سمگلروں کی جنت کہا جا تا ہے سمگلروں کا مو ثرطبقہ حکومت کے کا موں میں اپنی من ما نی کر وا تا ہے اپنی دولت خرچ کر کے عوام کے خلاف جر گے کر واتا ہے ریلیاں نکا لتا ہے اس میدان میں فا ٹا کے ایک کڑور غریب عوام 50یا 60سمگلروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تیسری بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ فاٹا کے ایک کروڑ عوام کو خیبر پختو نخوا میں ضم کیا گیا تو صو با ئی اسمبلی کے اراکین کی تعداد سندھ اسمبلی کی برابر ہو جا ئیگی پختون آبادی کو نیا حوصلہ ملے گا بے پناہ طاقت ملے گی پنجاب کا مو ثر طبقہ ایسا ہو نے نہیں دیگا چوتھی بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ بیورو کر یسی کے اندرونی حلقوں میں فاٹا کو سو نے کا انڈا دینے والی چڑیا کا درجہ دیا جا تا ہے یہ دودھ دینے والی گا ئے ہے والٹن اکیڈیمی لاہور میں کامِن کورس کے شرکاء فاٹاکو امریکہ اور برطانیہ سے ذیادہ پرکشش قرار دیتے ہیں فاٹا میں پوسٹنگ کے لئے باقاعدہ بولی لگتی ہے بیوروکریسی دودھ دینے والی گائے کو کبھی ذبح ہونے نہیں دیگی۔ سونے کا انڈہ دینے والی چڑیا سے کبھی دست بردار نہیں ہوگی اس لئے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرکے انگریزوں کا دیا ہوا کالا قانوں ختم کرنے پر کبھی اتفاق رائے دیکھنے اور سننے میں نہیں آئے گا کبھی نہیں فاٹا میں امن ،انصاف ،قانون، عدالت اور آئین کی تمنا کرنے والے ایک کڑور قبائلی عوام غریب ہیں لاچار ہیں نادار ہیں دربدر ہیں فاٹا میں ایف سی آر، پولٹیکل راج ،گورنر ہاؤس اور فاٹا سکرٹریٹ کا اقتدار چاہنے والے 200لوگوں کا طبقہ دولت مند ہے ، امیر ہے یہ طبقہ دولت خرچ کرتا ہے امن، انصاف، قانون، آئین اور عدل کے خلاف جرگے منعقد کرواتاہے ریلیاں نکالتا ہے اور ایک کڑور غریب عوام کی تقدیر کے ساتھ ناروا کھلواڑ کرتا ہے اتفاقِ رائے کو روکنے میں یہ طبقہ کامیاب ہوگا اس لئے اتفاقِ رائے کا شوشہ نہ چھوڑو ایک کڑور عوام کے مسقبل اور وطن عزیز پاکستان کی سلامتی کے لئے 200کرپٹ عناصر کی ناجائز خواہشات پر پاؤں رکھو اور صدر زرداری کی طرح مرد بن کر فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرو ورنہ فاٹا کا حشر بھی کالا باغ جیسا ہوگا ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button