آئینی حقوق کیلئے جدوجہد یا سیاسی مفادات
گلگت بلتستان میں ان دنوں صوبائی اور ملکی سطح کی سیاسی و مذہبی شخصیات کی آمدو رفت کا سلسلہ جاری ہے، گلگت شہر میں 5 دنوں میں دو انتہائی اہمیت کے حامل کانفرنسس کا انعقاد کیا گیا جس میں گلگت بلتستان کی سیاسی قیادت سمیت ملکی سیاست میں ایک مقام رکھنے والے قائدین نے شرکت کی، 3 نومبر کو مجلس وحدت المسلمین کے زیر اہتمام دفاع وطن کنونشن جبکہ 7 نومبر کو جماعت اسلامی گلگت بلتستان کے زیر اہتمام اتحاد امت اور آزادی گلگت بلتستان کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔ان دونوں کانفرنسس میں جہاں امت محمدی کے اتحاد پر بات ہوئی بلکہ گلگت بلتستان کی آئینی ،سیاسی اور جغرافیائی اہمیت کے حوالے سے بھی واضح موقف سامنے آئے، گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر عوام اور مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا ہونا اور گلگت بلتستان کے مستقبل کے حوالے سے غور و خوص کرنا ،سیاسی و آئینی صورتحال کو بہتر بنانے میں کسی حد تک مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں ۔دونوں کانفرنسس میں ایک بات قدرے مشترک نظر آئی ،صوبائی اور ملکی قائدین نے گلگت بلتستان کے آئینی صورتحال کے حوالے سے ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا، ایک طرف دفاع وطن کنونشن میں ملکی سیاسی رہنماوں نے حقوق کیلئے بالائی فورمز پر آواز اٹھانے کا وعدہ کیا تو دوسری طرف اتحاد امت کانفرنس و آزادی گلگت بلتستان کانفرنس میں بھی قائدین نے اسی عزم کا اظہار کیا، 66 سالوں سے آئینی و داخلی حقیقی خودمختاری سے محروم عوام کیلئے یہ باتیں نئی نہیں ہیں لیکن ایسے پلیٹ فارمز کے ذریعے اس مو ضوع پر مذاکرہ کرنا بھی ایک بہت بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ صاحب نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ و ہ گلگت بلتستان کے آئینی تشخص کو بحال کرنے کے حوالے سے ہر فورم پر آواز اٹھائینگے جبکہ فیصل رضا عابدی کہتے ہیں جب گلگت بلتستان کے عوام کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ موجود ہے تو کیونکر یہاں کے لوگوں کو قومی دھارے میں شامل نہیں کیا جا رہا ہے.
تحریک اسلامی اور وحدت المسلمین کا موقف ہے کہ گلگت بلتستان کو مکمل صوبہ بنایا جائے ، جبکہ جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام کا موقف ہیکہ گلگت بلتستان کشمیر کا جز ہے لہذا دونوں علاقوں کو ملا کر آئینی حقوق دئیے جائیں،مسلم لیگ (ن)گلگت بلتستان کی قیادت کچھ عرصے قبل تک گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی مشترکہ کونسل بنانے پر متفق تھی لیکن سننے میں آیا ہیکہ اب وہ سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو چکے ہیں، پیپلز پارٹی کے رہنماوں نے بھی اب موجودہ پیکیج کو ناکافی قرار دے دیا ہے اور اب ان کی طرف سے بھی یہ باتیں سامنے آ رہی ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام کو مکمل آئینی حقوق ملنے چاہیے،خیر کسی نہ کسی شکل میں ہر سیاسی و مذہبی پارٹی گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کی بات کر رہی ہے جو کہ علاقے کے عوام کیلئے خوش آئند با ت ہے۔
گلگت بلتستان کے آئینی حقوق پر بات کرنے والی سیاسی و مذہبی پارٹیوں کا مقصد بھلے ہی آنے والے الیکشن کی تیاری ہو لیکن اس مسئلے پر ایسے فورمز پر آواز اٹھانا بھی ایک بہت بڑی کامیابی ہے، جب تک مذاکرہ نہیں ہوگا مسائل حل نہیں ہو سکتے۔لیکن ایسے میں عوام نے سوچنا ہوگا کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں ۔
گلگت بلتستان کے مستقبل کا فیصلہ تصفیہ کشمیر سے مشروط ہے اس بات سے گلگت بلتستان کا ہر عاقل فرد واقف ہے،ایسا کوئی بھی اقدام جس سے اقوام متحدہ کے قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہو وہ وفاقی حکومتوں کیلئے بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔گلگت بلتستان کو آئینی طور پر صوبہ بنانا اگر صدر پاکستان کے اختیار میں ہوتا تو اس علاقے کو کب کا صوبہ بنا دیا جاتا لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔صرف سیاسی نعروں اور وعدوں سے کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی، گلگت بلتستان میں کچھ سیاسی و مذہبی جماعتوں کا گلگت بلتستان کے آئینی تشخص کی بحالی کے حوالے سے بڑا واضح موقف سامنے آیا ہے،جن میں جماعت اسلامی ،تحریک اسلامی،جمیعت علمائے اسلام اور مجلس وحدت المسلمین شامل ہیں جبکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا اس حوالے سے واضح موقف آج تک سامنے نہیں آیا ، یہ دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں ہمیشہ مصلحتوں کا شکار رہی ہیں، موجودہ صورتحال میں جو دو واضح موقف سامنے آئے ہیں ان میں سے کسی ایک کو قابل قبول بنانے کیلئے ایک منظم تحریک چلانے کی ضرورت ہے، اگر سیاسی نمائندے آئینی اصلاحات کیلئے عوام کی رائے لیں اور تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کر کے کسی ایک موقف کیلئے مل کر جدوجہد کریں توکسی حد تک کامیابی حاصل ہو سکتی ہے اگر کھینچا تانی جاری رہی تو مستقبل میں کسی بھی قسم کے آئینی اصلاحات لانا اور حقوق کا حصول ممکن نہیں رہے گا۔گلگت بلتستان کے لوگوں کو مزید بیوقوف بنانے کے بجائے یہاں کے عوام کو تمام جماعتیں مل کر ایک ایسا روڈ میپ دیں جو وفاقی حکومت کے دسترس میں ہو اور قابل قبول بھی ہو۔اگر تمام تر تعصبات سے بالاتر ہو کر سوچا جائے تو اس وقت دو ہی راستے نظر آتے ہیں یا تو اس علاقے میں کشمیر طرز کا سیٹ اپ لایا جاسکتا ہے یا پھر گلگت بلتستان اور کشمیر کو ملا کر آئینی حقوق فراہم کئے جاسکتے ہیں، قومی اسمبلی میں نمائندگی کا خوا ب دیکھنا ،اور لوگوں کو گمراہ کرنے کیلئے اخباری بیانات کسی کو منظور نہیں.
اب لوگ سمجھ چکیں ہیں کہ ان کی آئینی حیثیت کیا ہے، سیاسی و مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنما جس روز مشترکہ لائحہ عمل تیار کرینگے اسی دن سے تبدیلی کی نوید مل سکتی ہے۔ جس کام پر وفاق سرے سے عملدرآمد ہی نہ کر سکے ایسے کام کیلئے جدوجہد وقت ضائع کرنے کے مترادف ہوگا البتہ جو کام وفاقی حکومت کر سکتی ہے اس پر سنجیدگی سے غور و خوص کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔موجودہ صورتحال میں عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کس طرح کے آئینی حقوق چاہتے ہیں ۔ ۔