کالمز

شہید کون؟

تحسین علی رانا

امریکی ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے جہاں تحریک طالبان پاکستان کوناقابل تلافی نقصان کا سامنا ہے، وہیں حکومتی پریشانیوں میں بھی اضافہ ہواہے- منور حسن اور مولانا فضل الرحمن سمیت سوٹڈ بوٹڈ کلین شیو طالبان ہمدردوں پر جیسے ماتم طاری ہے۔ منور حسن نےاپنے بیان میں نہ صرف حکیم اللہ کو شہید قرار دیا بلکہ طالبان کے ہاتھوں مارے جانے والے فوجیوں اور معصوم لوگوں کی شہادت پر بھی سوالیہ نشان لگا دیاہے۔دوسری جانب مولانا فضل الرحمن نے امریکا دشمنی میں حد ہی کر دی ۔انھوں نے کہ دیا کہ اگر امریکا کے ہاتھوں کتا مارا جائے تو اسے بھی شہید کہیں گے۔

شہید کون کے قضیے پر بعد میں بات ہوگی، پہلے حکیم اللہ محسود پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ حکیم اللہ محسود 50000 کے قریب پاکستانیوں کا قاتل تھا-اس کی تنظیم نے بازار ، مسجد ، دربار اور گرجاگھر جیسی مقدس اور بےضررجگہوں کو بھی نہ بخشا۔ یہ وہی حکیم اللہ محسود تھا جس نے 300 کے قریب فوجیوں کو ذبح کرکے ویڈیو جاری کردی۔ کرنل امام تک کو قتل کرادیا، جسے افغان مجاہدین کا اور خود ملا عمر کا استاد مانا جاتا تھا ۔ خود ملا عمر نے دو دفعہ ان کی رہا ئی کی درخواست کی تھی۔ پاکستان حکومت نے محسود کے سر پر پانچ کروڑ اورامریکا نے پچاس کروڑروپے کاانعام رکھا تھا – اگرچہ پاکستان نے جانوں کے ضیاع سے بچنے کے لیے اس سے مذاکرات کی ہامی بھری تھی،لیکن امریکا نے اسے جالیا۔

بلا شبہ امریکا نے امن مذاکرات کو سبوتاژ کیا ہے لیکن پاکستان کو ایک سخت دشمن اور ہزاروں معصوم لوگوں کے قاتل سے چھٹکارا مل گیاہے۔ یہ بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ حکیم اللہ کی کارروائیاں کسی ایک فرقہ کے لوگوں کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کے عوام اور سیکیورٹی اداروں کے خلاف تھیں۔ اس سوال پر کہ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے دیے گئے بیان میں کتے کو شہید کہنا کیا شعائر اسلام کی توہین نہیں،کہا گیا کہ امریکہ سے نفرت کے اظہار کے طور پر کتے کو شہید کہا گیا ہےاور نہ جانے کیا کیا تاویلیں پیش کی گئیں۔ اور تو اور حکیم اللہ کے چاہنے والوں نے اس بیان کی مخالفت کو فرقہ واریت قرار دیا ، حالانکہ نہ تو حکیم اللہ کسی فرقہ کی ترجمانی کرتا تھا نہ ہی وہ کوئی عالم دین تھا بلکہ ایک انتہا پسند کمانڈر تھا جس نے ہزاروں معصوم پاکستانیوں کی جان لی تھی۔

یہ کھلا تضاد ہے کہ جب کوئی مرید اپنے پیر کے ہاتھ عقیدت سےچومتا ہے تو یہی علماء حضرات اسے شرک سے تعبیر کرتے ہیں- اب بےشک ہزار بار کہا جائے کہ محض محبت کے اظہار کے لیےبوسہ دیاگیامگراس پر فتوی قائم رہتا ہے۔ اب ملالہ کے اس بیان پر توہین اسلام کا شور مچ گیاکہ "داڑھی دیکھ کر مجھے فرعون یاد آجاتا ہے” ،کہا گیا کہ داڑھی سنت رسول ہے اور ملالہ نے داڑھی کو فرعون سے جوڑ کر سنت رسول کی توہین کی ہے۔ حالانکہ ملالہ نے بھی یہ بات سوات میں طالبان کے مظالم دیکھ کر ، پاکستانی طالبان سے اپنی نفرت کے اظہار کے لیے کی تھی- پھر یہ بھی ایک حقیقت ھے کہ داڑھی نہ صرف فرعون کی تھی بلکہ ابوجہل کی بھی تھی- اسی لیے کہا جاتا ہے کہ داڑھی میں دین نہیں دین میں داڑھی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مولانا حضرات کو اجازت ہے کہ وہ جو چاہیں کہیں؟ کیاشہید جیسے مقدس لفظ کو کتے کے لیے استعمال کر کے شعائر اسلام کی توہین نہیں کی گئی؟ کیا شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے؟ حالانکہ عام آدمی کو سوال کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کوئی سوال کرنے پر بھی فتوی نہ لگا دے۔

ہمارے معاشرے میں ایک مرض ناسور کی طرح پھیل رہا ہے وہ یہ کہ ہم برے انسان کی برائی اور اسکے ذاتی افعال کو بھی اسکے عقیدہ اور فرقہ سے جوڑتے ہیں اور اپنے ہم عقیدہ شخص کے غلط کاموں کے دفاع کو بھی اپنا دینی فرض سمجھتے ہیں- حالانکہ انسان کے قول و فعل کا ذمہ دار وہ خود ہوتا ہے نہ کہ اسکا فرقہ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حقائق کو فرقہ واریت کی نظر سے دیکھنے کی بجائے حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھیں اور انہیں کھلے دل سے تسلیم کریں۔ شدت پسندی کو پسند کرنے اور شدت پسندوں کو اپنا ہیرو بنانے کی بجائے ہم وحدت کی دعوت دینے والے امن پسند اور اصلاح پسند مبلغین اور علماء کی طرف رجوع کریں- اور اپنے مطالبات کے حصول کے لئے قتل و غارت گری کی بجائے جمہوری اور پرامن راستوں کا انتخاب کریں- اور سب سے اہم چیز "ایک دوسرے کو برداشت کرنے” کی ضرورت ہے – کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ” میں تمھارے موقف سے اختلاف کر سکتا ہوں لیکن میں مرتے دم تک تمھارے اظہارِرائے کے حق کا دفاع کرونگا "۔میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اور ہمارے وطن شدت پسندی سے محفوظ رکھے- آمین

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button