تعلیم یافتہ احباب سے درد ناک اپیل
اس میں دو رائے نہیں کہ کسی بھی قوم ‘ ملک و ملت کی ترقی و عروج کا دارو مدار نوجوانوں پر منحصر ہے ‘ یعنی تعلیم یافتہ نوجوانوں پر۔ تعلیم یافتہ کی تعبیر کن پر منطبق ہوتی ہے ‘ فی الحال اس بحث سے اجتناب ہی مفید ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہنا چاہیے کہ میں ذاتی طور پر تعلیم میں دوئی کا قائل نہیں ہوں‘ یعنی علم میں دینی و دنیوی تقسیم کا قائل نہیں ہوں۔ مسلمانوں کو اس چیز نے برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ علم کو قدیم و جدید‘ مشرقی و مغربی اور نظری و عملی میں تقسیم کرنا ملت اسلامیہ کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہیں۔مرحوم اقبال ؒ نے اس واسطے کہا تھا۔
’’حدیث کم نظراں قص�ۂقدم وجدید‘‘
علم ایک صداقت ہے‘ یہ کسی ملک و قوم کی ملکیت نہیں‘ علم ایک وحدت ہے اور اس کو کثرت کہا جاتا ہے اور اس کثرت میں وحدت ہے۔ اسی وحدت کا نام حق و صداقت کی تلاش اور سچ کی جستجو ہے۔
آج میرے مخاطب نواجوان ہیں اور بالخصوص وہ نوجوان جن پر’’ تعلیم یافتہ‘‘ کی تعبیر صادق آتی ہے۔مجھے لفظ نوجوان سے بے حد محبت ہے‘ لفظ نوجوان کو دیار غیر کی لغت میں ’’یوتھ‘‘ (Youth)کہاجاتا ہے۔راز دانِ علوم مغرب حضرت اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے کہ
محبت ہے مجھے ان جوانوں سے
جو ستاروں پر ڈالتے ہیں کمند
میں اس وقت ذہنی طور پر کشمکش کا شکار ہوں کہ بات کہاں سے شروع کروں اور اپنی بات کو کس طرح سمیٹوں‘ کیونکہ آج میر امخاطب و ہ طبقہ ہے جو قلیل کا نہیں کثیر کا متقاضی ہے۔ ’’خیرالکلام ما کل و دل‘‘ کی روشنی میں خاطرات دل مختصراََ گوش گزار کرونگا اس نیت کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نظری سے زیادہ عملی انسان بننے کی توفیق دے‘ اور جو بات دل سے نکلتی ہے وہ ضرور آثر رکھتی ہے۔
ملک و ملت کی دگروں حالت کا ثاقبانہ نظر کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس وقت نوجوانوں بالخصوص تعلیم یافتہ( بشمول قدیم وجدید) اور علماء ملت کی ذمہ داری بہت ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے، اگرکسی بھی انقلابی کام کا آغازتعلیم یافتہ نوجوان اور مخلص علماء کرام سنجیدگی‘ گہرائی اور پختگی اور عزم مصمم کے ساتھ شروع کریں تو بہت جلد مثبت نتائج ملنے شروع ہوجاتے ہیں۔ اس میں عامیانہ انداز سے گریز کرنا ہوگا اور تعلیم یافتہ نوجوان اور علماء ملت دعوت الی اللہ اور اصلاح معاشرہ و نفس کی جدوجہد کو سطحیت سے بچاتے ہوئے انجام دیں گے بلکہ عامۃ الناس کو یہ باور کرائیں گے کہ ان کے انقلابی و اصلاحی تحریک کامقصد عظیم اور اس کی جڑیں گہری اور علم و تحقیق اور دورِ جدید کی ضروریات کے عین مطابق ہے تو پھر کوئی بُعدنہیں کہ مدد رحمانی شامل حال نہ ہو۔
میں تعلیم یافتہ نوجوانوں سے پرامید ہوں‘کیونکہ ’’ تعلیم یافتہ ‘‘ ہیں۔کل انہوں نے اس ملک جو قلعہِ اسلام سمجھا جاتا ہے کی باگ وڈور اپنے ہاتھ میں لینا ہے بلکہ اللہ نے چاہا تو دیگر ممالک اسلامیہ میں بھی مثبت کردار ادا کریں گے۔ یا جن کے ہاتھ میں زمام کار آئے وہ امت مرحومہ کی درست تربیت اور نونہالانِ قوم کی صحیح تعلیم کا بندوبست کریں گے۔اس کے لیے طبقہ نوجواں کو تعلیم یافتہ ہونااز حد ضروری ہے۔ وہ کونسی تعلیم ہے جس کا زور دیا جارہا ہے تو اس حوالے سے بھی کچھ سماعت فرمائیں۔تعلیم کی غرض و غایت اور مقصدیت کے بارے میں بہت کچھ کی گنجائش ہے ‘ لیکن یہاں تعلیم کی افادیت اورفوائد کے حوالے سے ایک حوالہ دیا جائے گا جو جامعیت اور بلوغیت پر مبنی ہے۔
دیار غیر(برٹش/برطانیہ) کے ایک ماہرِ تعلیم نے تعلیم کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔
’’ تعلیم کا بنیادی خیال جو پورے نظام تعلیم پر حاوی ہونا چاہیے یہ ہے کہ تعلیم اس کوشش کا نام ہے جو بچوں کے والدین اور سرپرست اس نظریہ حیات پر(جس پر وہ عقیدہ رکھتے ہیں) اپنی نئی نسل کو تیار کرنے کے لئے کرتے ہیں۔’’ مدرسہ‘‘(اسکول ‘کالج و یونیوسٹی) کا فریضہ ہے وہ ان روحانی طاقتوں کو جو اس نظریہ حیات سے وابستہ ہیں طالب علم پر اثر ڈالنے کا موقع دے اور وہ طالب علم کو ایسی تربیت دے جو اس قوم کی زندگی کے تسلسل و ترقی میں طالب علم کی دستگیری کرے اور اس کے ذریعے وہ مستقبل کی طرف اپنا سفر جاری رکھ سکے‘‘۔(انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا‘ آرٹیکل ایجوکین‘ مترجم مفکراسلام حضرت علی میاں ؒ ۔)
تعلیم کی یہ تعریف انتہائی زیادہ جامع اور عملی زندگی میں لانے والی ہے۔ ملک عزیز میں نظام تعلیم‘ نصاب تعلیم کے حوالے سے ناچیز اپنی ہی ایک تحریر کا حوالہ دینا چاہتا ہے‘ شاید یہ بے ربط باتیں آپ کا دل و دماغ بھی قبول کریں۔’’ دل و دماغ میں ایک اضطراب ، انقلاب، اور خیالات و سوالات کا ایک دریا امڈ آرہاتھاکہ کیا ہم موجودہ تعلیمی صورت حال سے مطمئن ہیں؟ عصری نظام تعلیم و دینی نظام تعلیم ؟طبقاتی نظام تعلیم؟ غریبوں کے لیے الگ اور امیروں کے لیے الگ، قدیم طرز تعلیم و جدید طرز تعلیم؟ ہمارے نظام تعلیم کو طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ہماری علمی و تحقیقی بنیادیں کمزور ہوگئی ہیں، کیمبرج سسٹم، فرنچ سسٹم،امریکن سسٹم، مدرسہ سسٹم، اور گورنمنٹ اسکول سسٹم جس کو آپ پیلے اسکول والا نظام بھی کہہ سکتے ہیں۔ جس ملک میں بہ یک وقت کئی نظام چل رہے ہوں وہ ملک ترقی کیسے کر سکتاہے اور کیسے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوسکتاہے۔ہمارا نظام تعلیم تخلیقی بنیادوں پر نہیں ہے۔ کاش صرف اور صرف طریق تدریس ہی کو جدید بنیادوں پر استوارکیا جاتا اور اپنی قومی و مادری زبان کو تدریسی زبان قرار دی جاتی۔ کیا ترقی یافتہ چین اور چاپان نے اپنی زبان چھوڑ کر کسی بدیسی زبان کو تعلیمی زبان کے طور پر اپنا کر بام عروج حاصل کئے ہیں؟۔ ہر گز نہیں۔تو پھر ہم کیوں انگریزی کو اپنی کھال سمجھ بیٹھے ہیں اور پیشاب تک انگریزی میں کیوں کرنے لگے ہیں۔کیاہم اب تک اس گورے کے غلامی کے طوق میں پھنسے ہوئے نہیں ہیں؟ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہ ہم بہت جلد نماز بھی انگریزی میں پڑھنے لگیں۔ اللہ بچائے۔ آہ ! دھرتی عزیز میںیکساں نظام تعلیم نہیں ہے مختلف طبقے اور گروہ پیدا ہو رہیں ،عجب ابہام ہے۔ ایک طبقہ صرف قدیم اور مدرسے کی تعلیم کو اہم اور ضروری سمجھتا ہے اور ایک بڑا طبقہ انگلش میڈیم اور مغربی طرز تعلیم کو کامیابی کی کنجی اور ترقی و عروج کا راز سمجھتاہے ۔ اور کچھ بے چارے دونوں طبقوں میں پھنس کر اپنے نونہالوں کو دونوں طرح کی تعلیم سے آراستہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ لوگ قابل تقلید ہیں مگر یہ انداز بے حد صعب و مشقت طلب ہے ۔
قارئین! دل کی بات یہ ہے کہ میں تعلیم میں دوئی وثنویت کا قائل نہیں ہوں۔ اسلامی تاریخ پر عمیق نظر ڈالی جائے تو تعلیم میں تقسیم نظر نہیں آئے گی۔ یہ تقسیم گذشتہ ۲، ۳ سو سال پہلے کی ہے جو ہمارے دشمن کی کامیاب چال ہے۔تعلیم کا بنیادی مقصد انسانوں کو حیوانیت کی نچلی سطح سے اٹھا کرانسانیت و مسلمانیت کے عروج و بلندیوں پر پہنچانا ہے ۔ تعلیمی نظام و نصاب ایسا ہونا چاہیے جو فرد کو اس کی اصل حقیقت و ذات سے روشناس کروائے ، اور وہ اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہو، دو جہانوں میں ،اور یہ کہ اپنے اندر چھپی ہوئی تمام صلاحیتوں کا کھوج لگائے اور
حقیقت کا ادراک کر لے۔ اور جب وہ اس قابل ہوکہ وہ خود کو جان سکے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اندازہ لگا سکے تو پھر وہ جدھرچاہے ادھر جائے۔ چاہے تو مفسر و محدث بنے یا ڈاکٹر و انجینئراور تعلیمی نظام اس کی کامیاب رہنمائی و مد د کرے۔ انتہائی معذرت سے عرض ہے کہ کیا ہمارا موجودہ تعلیمی نظام ہماری درست رہنمائی کر رہاہے ؟ بالخصوص ہمارا موجودہ نصاب تعلیم (دینی و دنیاوی) کسی نو عمر کی ذات کی نشو ونما ، حقیقت کا ادراک، سچ کی تلاش اور کامیاب زندگی و معاشرت کے لیے مکمل کردار ادا کر رہا ہے ؟ یعنی ایک اسلامی ریاست کے تمام تقاضے پورا کررہا ہے۔ یقیناًجواب نفی میں ہوگا۔ ہمیں انتہائی سنجیدگی کے ساتھ سخت قسم کے اقدامات کرنے ہونگے۔(بحوالہ سہ ماہی نصرۃ الاسلام گلگت‘ سفر نامہ‘ محبتوں کی زمیں وادی غذر کا ایک سفر‘ جلد نمبر۱‘ شمارہ نمبر۱، ص/۱۶)۔
نظام تعلیم اور نصاب تعلیم پر میرے جیسے کم علم اور بے مایہ انسان کے لیے بات کرنا مشکل ہے اور یہ ایک نازک مسئلہ بھی ہے۔ایک مملکت اسلامیہ کے لیے ایسا نظام تعلیم ہونا چاہیے جو یقین پیدا کرے ان چیزوں کے بارے جو اس قوم کے معتقدات‘ مقاصدا ور تہذیبی سرمایہ ہو ‘ اس قوم کے عقائد‘ اقدار‘ ویلوز و افکار ہوں۔ اور یہ یقین کھوکھلے نعروں اور تعصب پر مبنی روایات پر نہیں بلکہ علم ‘ مطالعہ‘ وجدان اور دماغ کے راستے سے ہو‘ تقابلی مطالعہ کے طور سے یہ یقین پیدا ہوتا ہو اور اس یقین میں دل اور دماغ کا مطمئن ہونا از بس ضروری ہے۔علم تو ایک جذبہ صادق ہے۔خدا کی نعمت کبریٰ ہے‘ علم عَالم کی اشد ضرورت ہے‘ علم تحقیق و جستجو کے ذریعے احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا نام ہے۔کاش ! کہ ہمیں علم کا اصل مفہوم و مقصد سمجھ آتا….اے کاش!!!!
آج کے دور میں ایک ایسا انقلابی نظام تعلیم کی ضرورت ہے جو’’ علم ‘‘و’’ دین‘‘ میں خلیج پید ا نہ کریں۔ اگر ہم مملکت عزیز کی ۶۷ سالہ نظام پر نظریں دوڑائیں تو ہمیں کفِ افسوس ہی ملنا پڑتا ہے۔میرے نزدیک آج کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو کرنے کا سب سے بڑا کام یہی ہے۔ آئر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر ملک و ملت کی تقدیر کے فیصلے کرنے والے اس انداز میں سوچنے سے قاصر ہیں۔تعلیم گاہیں ایسی فیکٹریا ں ہیں جہاں سے تمام اداروں کو خام مال سپلائی ہوتا ہے۔ اگر یہاں ہی خرابی اور نقص ہو تو پھر بہتری کی کسی امید کی گنجائش نہیں۔قرآن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس کی اولین تعلیمات بھی تعلیم پر ہی مبنی ہے۔ہم اس دین کے داعی ہیں جس نے سب سے پہلے اپنی دعوت و علم کا اعلان ان خوبصورت الفاظ میں کی ہے۔ ’’ اقرأ باسمک ربک الذی خلق‘ خلق الانسان من علق‘ اقرأ و ربک الاکرم‘ الذی علم بالقلم‘ علم الانسان مالم یعلم‘‘ اس آیت کریمہ کا ایک نرالا مفہوم یہ ہے کہ اس میں صرف علم کی بات نہیں کی گئی بلکہ علم کے لیے کاغذ‘ نقوش‘ قلم وقرطاس‘سیاہی و دوات اور کتاب اور دوسرے لوازمات کوبھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ آج کے دور میں اس کی نئی شکل کمپیوٹر‘ بھی ہے۔غورسے دیکھیں گے تواس آیت کے مفہوم میں ای میل‘کمپوزنگ‘ ایڈیٹنگ‘ ڈیزائینگ‘آن لائن ٹیچنگ ‘ ویب میگزین ‘پروف ریڈنگ‘پرنٹنگ اور طباعت وابلاغیات کی تمام جدید و قدیم صورتیں شامل ہیں۔یہ علم ’’لدنی‘‘ نہیں بلکہ کسبی ہے۔یہ علم کوئی جہالت کے دروازے سے یا فوجی بغاوت کے طور پر ظہور پذیر نہیں ہوا بلکہ اللہ کی رہنمائی سے پیدا ہوا ہے۔ آج تعلیم یافتہ طبقہ( جس بھی سبھی شامل ہیں‘ عصری دانشگاہوں میں تحقیق وریسرچ کی داد پانے والے اور دینی جامعات میں خلوص و للہیت کے ساتھ کسب فیض حاصل کرنے والے) کی بڑی ذمہ داری ہے کہ اقوام عالم اور اپنے نادان مسلمان بھائیوں کو یہ باور کرانا ہے کہ یہ علم معرفت سے پیدا ہوا ہے‘ رجم بالغیب کے لئے اس میں گنجائش نہیں‘ یہ وحی سے پیدا ہوا ہے‘زمانے کی تمام ضروریا ت و مقتضیات کے ساتھ دے سکتا ہے‘ معاشرتی و تمدنی زندگی کی رہنمائی و سرپرستی کرسکتا ہے ۔ تعلیم کی وحدت اور اکائی کی بنیادیں علماء دین اور نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ ڈال سکتے ہیں۔میرا دل مجھے بتاتا ہے ‘یہ میرا وجدان ہے اور مجھے اس پر کامل وشواش ہے کہ آج تعلیمافتہ طبقے کو کرنے کا جو سب سے اہم کام ہے وہ یہ ہے کہ قدیم درسگاہوں میں جدید ماہرین کو’’ اہلاََ و سہلاَ ‘‘َ کہا جائے اور عصری دانشگاہوں میں ان لوگوں کو ’’ ویلکم‘‘ کیا جائے جنہوں نے انتہائی محنت‘ خلوص‘ للہیت اور ایثار کے ساتھ علوم نبویؐ کو پڑھا ہے ‘ سمجھا ہے اور عصر حاضر کے نئے علمی و ادبی ‘ تحقیقی ذخیرے سے کماحقہ استفادہ کیا ہے۔آج ااگر ’’ملا‘‘ اور ’’ مسٹر‘‘ِ، ’’قدیم‘‘ و ’’جدید‘‘ ، ’’دنیاوی علوم‘‘ و’’ دینی علوم‘‘ کی تفریق کو نہ پانٹا جائے‘ اس کی بیخ کنی نہ کی جائے تو امت مسلمہ اور مسلمانان پاکستان کا بیڑہ روز بروز غرقابی کا شکار ہوتا جائے گا۔ اس تفریق اور امتیاز کو ختم کرنا ہوگا کہ ’’ علم ،ادب، شاعری، حکمت و فلسفہ، سائنس و ٹیکنالوجی،’’قدیم‘‘ و ’’جدید‘‘ ، ’’دنیاوی علوم‘‘ ، ’’ ودینی علوم‘‘ کی مخصوص یونیفام جو پہن کر آئے وہ قابل قبول ہے اور باقی سب شئی لایعنی۔ یعنی جو ادبیت کی مخصوص وردی نہ پہنے اور ادب (مروجہ)کا کا سائن بورڈ آویزاں نہ کرے و ہ ادیب کہلانے کا مستحق نہیں‘ یہی حال دوسرے علوم و فنون کا ۔جب تک اس رجحان کو ملیامیٹ نہیں کیا جاتا‘ اس کی مٹی پلید نہیں کی جاتی ہم روز بروز تنزلی کا شکار ہوتے رہیں گے۔ترقی رک جائے گی‘ انتہا پسندی ناسور کی طرح پھیل جائے گی‘ دینی طبقہ دلائلِ قرآن و حدیث کا انبار لگا کرعصری طبقے کو زیر کرنے کی کوشش جاری رکھے گا اور عصری طبقہ بھی اپنی تحقیق جدید اور ’’ جہاں دیدگی‘‘ کے گمان میں دینی طبقے کو آنکھیں دکھاتا رہے گا۔ اور سچی بات یہی ہے کہ یہ ایک المیہ سے کم نہیں اور یہ المیہ گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلم امہ اور مسلمانان پاکستان کو زنگ کی طرح چاٹ رہا ہے۔
آج نوجوانوں کواُٹھنا ہوگا‘ اپنے اندر تفریق کو ختم کرنا ہوگا‘ صبر ‘برداشت‘تحمل‘رواداری‘اخوت کا ماحول پید کرنا ہوگا۔مغربی افکار و جدوجہد کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تفریق کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ہمیں مل بیٹھ کرایک ایسا لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا کہ جو محبت و اخوت اور ایک دوسروں کے مسائل و ضروریات کو سمجھنے‘ اور مایوس قوم کی رہنمائی کا نوید بنے۔جب تک ہم ان گھمبیر مسائل کا ادراک نہ کریں ہم کوئی انقلابی قدم نہیں اُٹھا سکتے ہیں۔ہم ایک دوراہے پر کھڑے ہیں‘ ہمیں سمجھ ہی نہیں آرہا ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔ کاتب تقدیر اس انتظار میں ہے کہ کوئی ہے جو ڈوبی کشتی کو پار کرائے‘ خدا تعالیٰ کی سنت ہے، وہ دیکھتا ہے کہ کسی قوم میں کہاں تک اخلاص ہے‘ عزم کس قسم کا ہے‘ صلاحتیں کیسے استعمال کی جاتیں ہیں۔ یاد رہے کچھ تقدیریں بدل جاتی ہیں اورکچھ بدلی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں بعض دفعہ کسی فردیا جماعت کے حق میں کچھ فیصلے لکھ دیے جاتے ہیں‘ وہ ایسا متبرک وقت ہوتا ہے کہ ایک لمحہ صدیوں کے برابر ہوتا ہے۔ اور قوموں میں انقلاب آیا کرتا ہے‘ اور کھبی ایک نقطۂ ’’محرم‘‘ کو’’ مجرم‘‘ بنا دیتا ہے ایک ہلکی سی لغزش پوری قوم کے سفینے کو غرق کردینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ کاش ہمیں اس کا ادراک ہو‘ اگر ادراک ہے تو اس سے نمٹنے کے لیے کوئی عملی اقدام‘ کوئی لائحہ عمل….؟
دھرتی بے اماں ایک قربانی مانگتی ہے‘ ایسی قربانی جو ملت کے مفاد میں ہو۔پارٹیوں کے مفاد ‘ علاقوں کے مفاد‘زبانوں اور رنگوں کے مفاد‘ یہاں تک کہ اختلافی نظریوں اور مسلکی خیالوں سے ہٹ کر ا ایک ایسی قربانی جو صرف اور صرف ملت و وحدت کے لیے دی جائے۔امام حسن رضی اللہ عنہ کے جذبے صادق کی ضرورت ہے۔ حضرتؓ نے ایک ایسی قربانی دی جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔ وہ نواسہ رسولؐ ‘ جگرِ گوشہ بتولؓ ، ان کے ساتھ شرعی دلائل ہیں‘ کبار صحابہؓ ہیں‘ عاشقان علیؓ کی تلواریں ہیں‘قرن اول کے مسلمانوں کی جذباتی وابستگی ہے‘ ایک بڑی تعداد ان کے ہاتھ پر بیعت ہے اوروہ خلیفہ راشد‘ مگرامت مسلمہ کو خون خرابے سے بچانے کے لیے خلافت سے دستبرداری کی قربانی دی‘ کیا ایسے سازگار حالات میں کوئی ایسی عظیم قربانی دے سکتا ہے؟ یقیناًنہیں… انہوں نے تو اپنے ناناجان ؐ کی پیش گوئی کی لاج رکھی ہے۔ پیارے حبیب ؐ نے فرمایا تھا‘ کہ ’’ ان ابنی ہذا سید‘ لعل اللہ ان یصلح بین فئتین من المسلمین‘‘ میرا یہ بیٹا رہنما ہے‘ سردار ہے‘ کیا عجب ہے کہ ربِ کائنات اس (حضرت حسنؓ)کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوں میں مصالحت کرادیں۔کیا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے نام لیوا ایسی قربانی پیش کرسکتے ہیں؟۔میرے اپنے نوجوان تعلیم یافتہ(اگرچہ عمر کے لحاظ سے بوڑھے ہوں مگر عزم و جذبہ کے لحاظ سے نوجوان ہوں) دوستوں سے ہاتھ جوڑ کر اپیل ہے کہ وہ امت کی بگڑی حالت کا جائزہ لیں‘ اپنے مسائل کا ادراک کریں‘ زمانے کی چیلنج کو قبول کریں‘ اور اس کا جرأت و بہادری سے سامنا کرنے کا عزم پیدا کریں۔کاش ! کہ ہمارے ملک میں ایک ایسا نظام تعلیم کی داغ بیل ڈال دی جائے جو نفرتوں کے بجائے محبتیں پھیلائے‘ جو انسان کے بجائے رحمان کا بندہ بنائے‘جو امت کی بگڑی بنائے‘ جس کے سبب مسلمانوں کو عروج ملے‘۔ قارئین !تعلیم جو انسان کو مکمل انسان بناتی ہے‘ حب الوطن پاکستانی بناتی ہے‘ وہ نظام تعلیم یہاں ناپید ہے۔ اس موضوع پر بات کرنا‘ لکھنا اور کچھ کہنا عجیب سالگتا ہے پر امید پر دنیا قائم ہے‘ خدائی تعلیمات بھی ناامیدی سے گریز کا تلقین کرتی ہیں، اس امید کے ساتھ لکھنے کی گنجائش ہے کہ کھبی تو گلستان میں سورج طلوع ہوگا۔میرے جیسے علم و عمل سے تہی دامن طالب علم بھی یہ محسوس کرتاہے کہ دھرتی عزیز میں تعلیم کے حوالے سے دعوؤں کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہے ‘ ہر ایک (اسلامی و دنیاوی ‘مکتبہ ہائے فکر تعلیم) اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے مگر کہیں پر بھی مربوط نظام تعلیم‘واضح اور متعین لائحہ عمل موجود نہیں ہے‘ اور بدقسمتی سے ہم اس سب کچھ کا ذمہ دارارباب حل و عقد اور منتخب و غیر منتخب حکومتوں کو سمجھتے ہیں، درحقیقت ان کے ساتھ ہم خود بھی اس تباہی و بربادی شریک ہیں۔سیکولر طبقے کو ہم کیا الزام دیں جو دینی ذہن رکھتے ہیں اور ان کی زیر سرپرستی میں اسکول و کالجز اور یونیورسٹیاں چلتی ہیں ان کا ’’حال ‘‘ کوئی قابل تقلید اور نمونہ نہیں ‘ انہوں نے بھی اس حوالے سے کوئی اساسی تو کیا بہتری کی طرف پیش رفت بھی نہیں کی‘ اسلامی ذہن کے مالک لوگوں کی زیر نگرانی چلنے والی یونیورسٹیاں مثلاََ رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی‘ شفاء انٹر نیشنل یونیورسٹی‘قرطبہ یونیورسٹی‘ ہمددر یونیورسٹی‘ منہاج یونیورسٹی‘ اسراء یونیورسٹی(کتنے خوبصورت اسلامی نام ہیں) اور ان جیسی کئی اور یونی روسٹیاں جن کے ذمہ داران بزعم خویش دینی جذبوں سے سرشار ہیں کو کو ن ہدایات فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے اداروں کو مغربی انداز میں چلائے اور قوم و ملت کے نونہالوں کو ’’مغربیت‘‘ ’’لبرل پسندی‘‘ کی طرف مائل کریں اور ان کو مغرب زدہ ماحول کا عادی بنائے؟ اور ان کو کس نے روکا ہے کہ تمام نئے اور جدید علوم میں اسلامی نقطہ نگاہ اور فکر سے تحقیق و ریسرچ کا کام نہ کریں؟۔ جدید و قدیم ‘ عصری و دینی‘ اسلام اور سائنس ‘ قرآن وحدیث اور کمپیوٹر وانگلش کے ساتھ ساتھ یا ان کا حسین امتزاج جیسے پرفریب نعروں اور سلوگن کے تحت قائم کیے جانے والے اسکولوں کا حال بھی کوئی ماڈل کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا ہے ، مثلاََدعوۃ ماڈل اسکولز، اقراء اسکولز، یقین ماڈل اسکولز،غزالی اسکولز،منہاج ماڈل اسکولز، قیادت اسکولز، فاران اسکولز اور ان جیسے بیشمار سکولز ہیں۔ ان میں بیکن اسکولز،کیمبرج اسکولز‘ سینٹ جوزف اسکولز جیسے لادین اسکولوں سے شرو فتن تو بظاہر کم ہے مگر کیا ان میں خیر و صلاح کی مقدار بھی وہی ہے جو ایک مثالی اسلامی ریاست کے نظام تعلیم کے لیے مطلوب ہو سکتی ہے یعنی نونہالان قوم کو ایک کامل انسان اور اکمل مسلمان بنانے کے لیے ان مذکورہ یونیورسٹیوں اور دینی ماڈل کے اسکولوں کا منہج تعلیم کافی ہے؟ یقیناًنہیں۔دینی مدارس کے ارباب حل وعقد سے بھی ایک ادنیٰ طالب علم کی گستاخی پر معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ وہ نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کے حوالے سے شیخ الہند ؒ کے خیالات و احساسات ‘ شیخ العرب و العجم حضرت مدنی ؒ کے مرتب کردہ دینی مدارس کا نصاب اور مقاصد تعلیم کو علی منہاج النبوۃ و علی منہاج السلف قائم کرنی کی جانداز تجویز‘ بے باک قلم کار علامہ مناظراحسن گیلانیؒ کے بیان کردہ منہج تعلیم پر سنجیدگی سے غور و خوض کرنا چاہیے۔ یہاں یہ ذہن میں رہے کہ اس موضوع پر کہنے کے لیے بہت گنجائش ہے مگر کاغذ کے ان اوراق میں اتنی گنجائش نہیں، اور خیالات بھی منتشر و بے ہنگم ہیں۔ کچھ باتیں اگلی دفعہ کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ میں آج اپنے آپ سے ،اپنے نوجوان بھائیوں سے مخاطب ہوں اور انتہائی دلبرداشتہ ہوکر میرے دل میں ٹیسیں اٹھتی ہیں اوردل و دم
اغ بیک وقت پکار اٹھتے ہیں کہ’’ کوئی ہے جو مسلمانوں کی بگڑی تقدیر کو سامنے رکھئے؟‘ہم سے بے شمار غلطیاں ہوئی ہیں‘ ہم مزید غلطیوں کے متحمل نہیں ہیں‘ ہماری مزید غفلت‘انا‘ نفسانیت‘علاقائی اور طبقاتی عصبیت‘ جذباتی نعرے‘ذاتی مفادپرستی‘ تفرقہ بازی‘انتشار و افتراق‘اختلاف و جھگڑا اور اپنی اپنی ڈیڑھ اینچ کی مسجد ملک و ملت کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دے گا۔ہے کوئی جو ان تمام مفادات سے ہٹ کر ملت کے مفاد کی بات کرے اور ملک و ملت کے مفادات کو مقدم سمجھے؟کیا اتنا بھی ممکن نہیں کہ چند ہی ایام کے لیے اختلافی مسائل و ذاتی مفادات اور گروہی جذبات اور مسلکی نعروں سے بالائے طاق ہوکر’’ملی ‘‘مفادات کے لیے مکمل ایثار و للہیت سے کام کیا جائے؟ شایدنوجوان تعلیم یافتہ طبقہ ایساکر سکے! شاید۔اگر یہ انقلاب اپنی ذات سے شروع کیا جائے تووہ دن بعید نہیں کہ ہم پورے عالم اسلام بلکہ عالم انسانی کے لیے حق و انصاف اورعدل ومساوات کے لیے پشت پناہ نہ بن سکیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر بن جائے۔
waqqai acha likha gya ha, pad k to dakh lo