پولیس گردی کا آنکھوں دیکھا حال
منگل کے روز حسب روایت مدینہ مارکیٹ کے قریب واقع پہلوان کیفے میں صحافی دوستوں عبدالرحمن بخاری (اب تک نیوز)، ضیاء اللہ شاکر(دن نیوز) ، ندیم خان (خیبر نیوز) اور طارق حسین شاہ (صدر گلگت یونین آف جرنلسٹس )کے ساتھ ابھی چائے کا ایک گھونٹ ہی لیا تھا کہ اچانک شدید فائرنگ کی آواز سنائی دی، جب ہم باہر نکلے تو سڑک پر لوگ افرا تفری میں بھاگ رہے تھے ہر کوئی حواس باختہ ہو کر جلد سے جلد کسی محفوظ مقام پر پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا ، ہم بھی دیگر ساتھیوں کے ساتھ وہاں سے کنوداس کی طرف آگئے ابھی آر سی سی بریج کراس کیاتھا کہ ایک بار پھر قریب سے شدید فائرنگ ہوئی، کیا دیکھتے ہیں کہ پولیس فورس مظاہرین پر فائرنگ کے ساتھ ساتھ آنسوگیس کے شیل بھی فائر کر رہے تھے ، اس فائرنگ کے نتیجے میں 4 مظاہرین حاصل مراد، شریف احمد،قاسم اور اکرام الدین زخمی ہو گئے ۔
گلگت ایک دفعہ پھر جل رہا تھا ، انتظامیہ کے زمہ داران ڈی سی ، اے سی اور مجسٹریٹ جائے وقوعہ پر پہنچ گئے تھے ،مظاہرین ایک دفعہ پھر اکھٹے ہو گئے اور احتجاج کا سلسلہ کنوداس آر سی سی بریج سے بڑھتے بڑھتے پورے گلگت شہر کے چپے چپے تک پھیل گیا۔ پر امن احتجاج پر پولیس کی طرف سے فائرنگ اور اسکے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے بارے میں جب ہم نے تحقیقات شروع کیں تو ہمیں اس واقع میں پولیس گردی اور ریاستی دہشت گردی کا عملی مظاہرہ نظر آیا، منگل کے روز صبح 7 بجے سے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے طلبہ اپنے مطالبات کے حل کیلئے پر امن احتجاج کر رہے تھے ایسے میں ایس پی علی ضیاء 20 کے قریب الیٹ اور پولیس کے جوانوں کے ساتھ وہاں آیا اور پولیس کو فائرنگ کے آرڈر ز جاری کر دئیے جس کے بعد پر امن احتجاج کی جگہ میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگی، ایس پی علی ضیاء نے مجسٹریٹ کی منظوری کے بغیر قوانین کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے نہتے اور پر امن مظاہرین پر فائرنگ کے احکامات جاری کر دئیے یہ آرڈر ز ملتے ہی پولیس جوانوں نے جدید آتشی اسلحے کے منہ نہتے اور پر امن مظاہرین پر کھول دئیے اور دیکھتے ہی دیکھتے 4 مظاہرین شدید زخمی ہو گئے جنہیں سٹی ہسپتال منتقل کر دئیے گئے۔ بعد ازاں مجسٹریٹ حبیب الرحمن موقع پر پہنچے اور انہوں نے مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر مظاہرین پر فائرنگ پر سخت بر ہمی کا اظہار کیا اور اس دوران فائرنگ کرنے والی پولیس اور انکے درمیان ہاتھا پائی ہوئی ، مجسٹریٹ کا کہنا تھا کہ ہم نے فائرنگ کے آرڈر نہیں دئیے تھے پھر پولیس نے فائرنگ کیوں کی ، جس پر پولیس کے نوجوان سیخ پا ہوگئے اور مجسٹریٹ کے گریبان پر ہاتھ ڈالا ،یہ مناظر راقم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور مجسٹریٹ کی بے بسی اور پولیس اہلکاروں کی سر عام قانون کی پامالی پر حیرت بھی ہوئی۔پولیس گردی کے خلاف مظاہرین نے ایس پی گلگت کے دفتر کا گھیراو کیا اور مشتعل افراد نے ایس پی آفس کے سائن بورڈ توڑ ڈالے۔مظاہرین ایس پی گلگت کے خلاف فلگ شگاف نعرے لگا رہے تھے اور انکے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت قانونی کاروائی کا مطالبہ کر رہے تھے ، گلگت شہر میں جب پولیس نے پر امن احتجاج پر فائرنگ کی ،اسکے بعد گلگت شہر کے ،ٹونس بریج ، پبلک چوک ،سکارکوئی ، بسین ، سکوار ، جگلوٹ ، کنوداس ، گلاپوراور دیگر جگہوں میں بھی احتجاج شروع کر دیا گیا اور سڑکیں جام کر دی گئیں تھیں ۔
کسی بھی معاشرے میں شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن آر سی سی پل کے قریب ریاستی دہشت گردی کی بد ترین مثال دیکھنے کو ملی، یہ مقبوضہ کشمیر نہیں بلکہ گلگت کے نوجوان طلبہ کا احتجاج تھا ، کشمیر میں بھی مظاہرین پر اسی طرح فائرنگ کی جاتی ہے اور آج گلگت میں بھی یہ منظر دیکھنے کو ملا ، ڈی سی گلگت شہباز طاہر ندیم نے واقع پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ ایڈمنسٹریشن کی طرف سے فائرنگ کی اجازت نہیں دی گئی تھی واقع پر تحقیقاتی کمیٹی بٹھائی گئی ہے تاکہ ملوث افراد کو سزا دی جا سکے۔ انہوں نے سٹی ہسپتال کا دورہ کیا اور زخمیوں کے علاج کے علاوہ معاوضے کا بھی اعلان کیا ۔
گزشتہ سال 12 دسمبر کو بھی قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی سے شروع ہونے والی کشیدگی کے بعد شہر میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی اور کئی افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہو گئے تھے، اور اس سال 17 دسمبر کو ایس پی علی ضیاء کے ایک غلط فیصلے نے پر امن احتجاج کو پر تشدد احتجاج میں تبدیل کر دیا ، اگر قراقرم ا نٹرنیشنل یونیورسٹی کی انتظامیہ اور گلگت انتظامیہ بالغ نظری سے ان معاملات کا حل نکالتے تو یہ نوبت ہی نہ آتی، لیکن شاید گلگت کا امن کسی کو بھی ہضم نہیں ہوتا یہاں ہر ادارے میں فرقہ وارانہ تقسیم نظر آتی ہے،احتجاج پر پولیس کی فائرنگ کے خلاف تنظیم اہلسنت والجماعت نے گلگت بلتستان بھر میں احتجاج کی کال دے دی ہے۔ اور مطالبہ کیا ہیکہ فائرنگ میں ملوث اہلکاروں اور ایس پی گلگت علی ضیاء کے خلاف جب تک قانونی کاروائی نہیں ہوتی احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا جائیگا۔
مبصرین کا کہنا ہیکہ گلگت کے کشیدہ حالات اس دفعہ ایس پی گلگت کی ناقص پالیسی کی وجہ سے شروع ہو گئے، احتجاج کو مزاکرات کے ذریعے ختم کرایا جا سکتا تھا طاقت کا استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے لوگ مشتعل ہو گئے، 42 سال قبل اسی طاقت کے استعمال کی وجہ سے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا تھا ، اور اسی طاقت کے استعمال کی وجہ سے پورے پاکستان میں بد امنی کی فضا قائم ہے ، سماجی تنظیموں ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور کئی سیاسی تنظیموں نے بھی منگل کے روز مظاہرین پر فائرنگ کی مذمت کی ہے ، اس واقع کی صاف شفاف تحقیقات کر کے واقع میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے ، اب وقت آ چکا ہے کہ ہم تمام تر تعصبات سے بالا تر ہو کر قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے مسئلے کو حل کریں ، جہاں سے ان واقعات کی شروعات ہوتی رہی ہے، یونیورسٹی کو مادر علمی بنا کر وہاں صرف تعلیمی سرگرمیوں کو فروغ ملنا چاہئے ، نہ کہ فرقہ وارانہ فسادات کو ۔ ماضی کی غلطیوں سے ہم آج بھی سبق حاصل نہیں کر رہے ہمارے درمیان موجود کالی بھیڑیں ہمارے جڑوں کو کھوکھلا کرنے پر تلی ہوئیں ہیں ، ایس پی گلگت علی ضیاء کی احمقانہ حرکت کی وجہ سے گلگت میں ایک بار پھرغیر یقینی اور کشیدہ صورت حال پیدا ہو گئی ہے ، قانون کی بالا دستی کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ گلگت کا امن دوبارہ بحال ہو سکے ۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی دسمبر کے مہینے میں گلگت کے امن کو خراب کرنے کی سازش کی گئی اور گلگت شہر گولیوں کی تڑ تڑاہٹ سے لرز اٹھا، اب تو دسمبرکے مہینے سے ہی ڈر لگنے لگا ہے۔
Taher bhai bohot khooob likha ha, ap tamam Sahafiyoon ko mubark ho kai ap in mushkil halat mi khidmat injam daty ho, jety Raho janab
Nice reporting Sir…GOD bless U…