معاشرتی رواداری ماضی حال اور مستقبل
گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ سرکاری افیسر سے ملاقات کا شرف ملا۔ہماری یہ پہلی ملاقات تھی ایک دوسرے کی مزاج کو بھی نہیں جانتا تھا میں اپنا تعارف ایکمقالہ نویس کے طور پر کیاتو انہیں بڑی خوشی ہوئی اور دل سے ایک آہ نکال کر کہنے لگے بیٹا اب وہ گلگت اور بلتستان کہاں رہے جب ہم ایک دوسرے سے ملنے کی تمنا کرتے تھے وہ زمانہ ہی اچھا تھا جب ہم پتھروں میں رہتے ہوئے بھی معاشرتی ذمہ داری کو بلا کسی مسلکی فرق کے سمجھتے تھے۔اُس وقت لوگ پاکستان کا سفرپیدل یا خچر کے ذریعے کیا کرتے تھے اور ہر پڑاو پر اُس علاقے کے لوگ مسافرین کی خدمت کرنے میں خوشی کرتے اور اگر راستے میں کوئی پریشانی ہوئی تو بغیر کسی مسلکی اختلاف کے ایک دوسرے کے گھروں میں قیام کرتے تھے۔میری دلچسپی دیکھ کر مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ دل کی بڑاس نکالنا چاہ رہے ہیں کہنے لگے بیٹا اب تو وہ دور خواب میں بھی نظر نہیں آتا جب یہاں کے لوگ ایک دوسرے کی غم اور خوشی میں بغیر کسی تفرقے کے شریک ہوتے تھے۔اب تو ایسا ہوگیا کہ لوگ تمام تر سہولیات کی حصولی کیباوجود بھی لوگ اپنے گھر وں اور علاقوں میں محفوظ نہیں ہمارے لوگ کفران نعمت کرتے ہیں آج اکیسویں صدی میں دنیا جدید علوم کیلئے مقابلہ کرتے ہیں سائنس کی ایجادات پر بحث کرتے ہیں لیکن اس خطے کے عوام کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑانے میں لگایا ہوا ہے افسوس کی بات ہے ۔میں نے بھی قطع کلامی کی معافی چاہ کرعرض کیا محترم شائد آپ کو اس بات کا علم نہیں کہ ہمارے لوگ آج بھی ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں کوئی مسلکی تفرقے کی بنیاد پر نہیں لڑتے بلکہ ہمارے خطے میں باہر کے لوگ آکر یہاں کی امن کو خراب کررہے ہیں۔وہ صاحب کہنے لگے بیٹا لوگ اتنے پاگل نہیں ہے گھر والوں کی مرضی کے بغیر کسی کے گھر میں گھس جائیں یہ ایک سازش ہے جس کے تحت گلگت اور بلتستان کی اصل مسائل سے عوام کو دور رکھنے کیلئے سرکاری سطح کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔اگر ہم اپنے ارد گرد نظر رکھیں تو کسی کی ہمت نہیں کہ کوئی ہماری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھیں۔میں نے دوبارہ سوال کیا کہ کیا ڈوگرہ دور میں اور آذادی کے بعد میں کوئی تبدیلی دیکھنے کو ملا ؟کہنے لگا ڈوگرہ سے جب جنگ کررہے تھے تو تمام مسالک بغیر کسی اختلاف کے محاذ پر لڑتے تھے وقت نماز ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر تمام مسالک کے لوگ اپنے اپنے طریقے سے نماز ادا کرکے ایک دوسرے سے گلے ملتے تھے لیکن جب سے پاکستان کی سیاست نے یہاں دخل اندازی شروع کی یہاں کی امن خراب ہونا شروع ہو گیا۔مجھے بڑی تعجب ہوئی کیونکہ کہتے ہیں پرانے زمانے میں لوگ پڑھے لکھے بھی نہیں ہوتے تھے مگر معاشرتی روادری کی مثال قابل تقلید تھا ۔اب اگر یہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ سمجھداری اور معاشرتی سوچ رکھنا ہی معاشرتی رواداری کی بہت بڑی مثال ہے۔ورنہ آج ہمارے خطے میں پڑھے لکھے حد سے بڑھ گئے لیکن معاشرتی ذمہ داری کا شعورکہیں نظر نہیں آتا حد تو یہ ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے نوجوان سوشل میڈیا پر بیٹھ کر ایک دوسرے کو گالیاں دینے کے علاوہ کوئی قابل ذکر کام خطے میں قیام امن کے حوالے سے نہیں کرسکے۔اگر ماضی کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں تو گلگت بلتستان ایک بار پھر امن کا گہوارہ بن سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے درمیان غیروں نے اپنی مفادات کیلئے اتنی دوریاں پیدا کردی ہے جس کو ختم کرنے کیلئے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ معاشرے میں رہنے والے عام عوام جو اس طرح کے معاملات کیلئے ذیادہ استعمال ہوتے ہیں ان میں معاشرتی رواداری کی سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہمیں معاشرے میں ایسے لوگوں کی پیروی کرنے ہوں گے جو معاشرتی روادی کو ضرورت سمجھ کر آج بھی مشعل راہ بنائے ہوئے ہیں۔اس حوالے سے ایک اور اہم بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کھرمنگ کے ابتدائی حدود میں موضع سرمک پڑتا ہے جہاں پر تین مسالک کے لوگ آباد ہے لیکن وہاں ایک ایسی مسجد آج بھی قائم ہے جہاں تین مسالک کے لوگ ایک ساتھ اپنے عقیدے کے مطابق نماز پڑھتے ہیں جو معاشرے کیلئے ایک پیغام ہے کہ حقیقی معنوں میں ہمارے عوام کے دوسرے سے مسلک کی اختلاف پر دشمنی نہیں رکھتے یہ الگ بات ہے کہ کچھ شہری آبادی خاص طور پر گلگت اور دیامر میں یہ جراثم ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت لائی گئی ہے کیونکہ گلگت مرکز ہے اور دیامر گلگت بلتستان کا ابتدائی حدود اور اس علاقے کوباب گلگت بلتستان کہلاتا ہے یعنی ہمارے دشمنوں نے دروازے پر کھڑاہو کر مرکز کو شورش ذدہ بنایا ہوا ہے تاکہ عوام سکون سے نہیں رہ پائے۔لہذا دشمن کی اس سازش کو بے نقاب کرنے کیلئے اپنے دوسرے مسالک کے دوستوں سے روابط کو بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم ایک باغ کے کئی پھول ہے اگر ایک پھول بھی دشمن کی سازش سے مرجھا جائے توگلدستے میں وہ رونق نہیں رہتی لہذا اس گلدستے کو بچانے کیلئے باغبانوں پر نظر رکھنے ہوگے جو پانی دینے کے بہانے جڑکاٹنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔اُس پانی پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو ہماری پرورش کے بہانے سے ہمیں زہر ملا کر دیا جارہا ہے۔اُس طوفان کو روکنے کی ضرورت ہے جو ہماری بقاء کے نام پر ہمیں بہانے کے درپے ہیں۔ باہمی احترام وقت کی ضرورت اور بہتر مسقبل کی ضمانت ہے لہذا ہمیں درخشاں ماضی کو دیکھتے ہوئے حال کی ناچاقیاں ختم کرکے بہتر مسقبل کیلئے ایک ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ ہماری آپس کی ناچاکی سے دشمن نے بہت فائدہ اُٹھایا اور اس خطے کو وہ مقام نہیں مل سکی جس کا حقدار تھا یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کا نام اور حکومت شخصیت کی ہے۔اس شخصی حکومت میں تمام قدرتی وسائل کے باجود عوام تین وقت کی روٹی کیلئے پریشان ہے
کیونکہ عوام کو ایک سازش کے تحت فرقہ واریت میں الجھا کے رکھا ہوا ہے تاکہ مسلہ کشمیر کے اس تیسرے فریق کو دیوار سے لگاکر ایک طرف خطے کی آئینی حقوق کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کو روکنا بھی ہے ۔لہذا ہمیں قلم اور علم کے ذریعے دشمن سے مقابلہ اور آپس میں تعلقات قائم کرنے کے حوالے کوشش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری معاشرتی روادری کی تابناک ماضی کو درخشاں مسقبل کیلئے نمونہ عمل بنا سکے۔