مسیحا کی تلاش
عالمی اور ملکی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کے تناظر میں جب گلگت بلتستان کی سیاسی وسماجی تقسیم پر نظر پڑتی ہے تودل خون کے آنسو روتا ہے۔برطانوی سامراج کے استعماری شکنجے سے نکلے ہوئے بظاہر نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا مگر اب تک اس کادیا ہوا مشہور زمانہ فارمولہ تقسیم کرو اور حکومت کرو کا عملی نمونہ سرزمین گلگت بلتستان میں پوری آب و تاب سے نافذالعمل ہے۔منبر و محراب سے لے کر حکومتی ایوانوں تک،گلی کوچوں سے لے کربازاروں تک ہر جگہ بے یقینی کی فضاء قائم ہے۔نفرت اور کدورت کے بیج قدآور درخت بن چکے ہیں۔او ر ہم بحیثیت قوم تنزلی اور تباہی کی جانب گامزن ہیں۔قوم کو اس مایوسی اور انتشار سے نکالنے کے لیے ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو تمام تر تعصبات سے بالا تر ہو کر اس قوم کو بلا تفریق رنگ و نسل وفرقہ سب کو ساتھ لے کر چلے اور ترقی و خوشحالی کی منزل کی جانب محوء سفرہو۔
مگر بدقسمتی سے اس تباہ حال اور منقسم قوم کی ڈوبتی ناؤ کے ناخدا اس کشتی کو پار لگانے کی بجائے اپنی اناء کی تسکین کے لیے ناؤ میں مزید چھید کرنے میں مگن ہیں۔اور ہم عوام کا یہ حال ہے کہ ہم سوچ سمجھ سے عاری لکیر کے فقیربنے ہوئے ہیں۔امن ہو یا خون کی ہولی کھیلی جائے،روٹی روزگار ملے نہ ملے،بچوں کی تعلیم ہو نہ ہومگر میرا لیڈر زندہ باد۔رنگ ونسل،ذات پات،علاقائی تقسیم الغرض جس جس خانے میں ہم بٹ سکتے ہیں بٹ رہے ہیں۔اوریہ تقسیم در تقسیم کا عمل اتنی خاموشی اور صفائی سے ہو رہا ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس زہر ہلاہل کو قند سمجھ کر اپنے جسموں میں انڈیل رہے ہیں۔انجام سے بے خبر تباہی و بربادی کے ایک ایسے دہانے کی طرف محو سفر ہیں جس کا نتیجہ ذلت،رسوائی اورغلامی کے سوا کچھ نہیں۔
گلگت شہر میں کھیلا جانے والا نفرت اور وحشت و درندگی کا کھیل جاری تھا کہ اب دیامر بھاشا ڈیم حدود کے تنازعے کی شکل میں نیا محاذ کھل گیا ہے۔کوہستان اور دیامرکے لوگ جو صدیوں سے زبان و ثقافت اور خونی رشتوں کی زنجیر میں بندھے ہوئے ہیں حکومتی مشنری کی ناقص پالیسیوں اور سیاسی وسماجی راہنماؤں کی نادانیوں اورغیر سنجیدہ و غیر دانشمندانہ بیان بازی کی وجہ سے نفرت اورمحاذآرائی کی جانب مائل ہورہے ہیں۔جس کا لازمی نتیجہ پورے خطے میں بے چینی اور افراتفری کی صورت میں سامنے آئے گا۔شاہرائے قراقرم جو کہ گلگت بلتستان کے لیے لائف لائن یعنی شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے اسی علاقے سے گذرتی ہے۔خدانخواستہ اس علاقے میں تصادم اور فساد کی صورت میں یہ اہم سڑک بلاک ہوجائے گی یوں جی بی کا زمینی راستہ پورے ملک سے منقطہ ہوجائے گا۔جس کے اثرات زندگی کے ہر شعبہ پر پڑیں گے۔شومئی قسمت کہ اس صورتحال میں غریب اور متوسط طبقہ زیادہ متاثر ہوگا۔طبقہ اشرافیہ آٹانہ ملے تو ڈبل روٹی کھاکر بھی گذارہ کر لیں گے۔
مقامی اخبارات اٹھا کے دیکھتا ہوں ہوں تو کف افسوس ملنے کے سواء کوئی چارہ نظر نہیںآتا۔بٹی اور سازشوں میں گھری ہوئی اس قوم کے پاسبان تاریخ بغداد سے سبق حاصل کرنے کی بجائے کفر و الحاد کی سرحدیں متعین کرنے میں مگن ہیں۔اس سے زیادہ عرض نہیں کر سکتا۔بقول شاعر
عجب دستور زباں بندی ہے تیری محفل میں
یہاں بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
دکھ اورحیرت اس بات پر ہے کہ سنجیدگی اورمعاملہ فہمی سے کو سوں دورہمارے لیڈرز(سیاسی)قومی ایشوز پر پارٹی پالیٹیکس کر رہے ہیں۔قومی مفاد سے زیادہ پارٹی مفاد کو ترجیح دی جا رہی ہے۔چند دن قبل گندم کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے جو بیان بازی اور الزام تراشی ہوتی رہی وہ ایک ٹریلر ہے اس مووی کا جو گذشتہ عرصوں سے جاری ہے اور نجانے کب تک یہ منظر آنکھوں کو خیرہ کرتے رہیں گے۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ زرداری صاحب ہوں یا میاں صاحب سب اپنی اپنی باری لگا کر چلے جائیں گے۔ہمارے جیالے اور متوالے ہونے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔چودھری قمرزمان کائرہ ہو یا چودھری برجیس طاہر سب ایک ہی ہیں۔انہیں ہمارے ایم ایل اے سے زیادہ اپنی یونین کونسل کا ایک ممبر زیادہ عزیز ہوتاہے کیوں کہ وہ اس کی ہار جیت میں کردار ادا کرسکتا ہے۔اس لیے
یوں ہی دنیا کے لیے ایک تماشا نہ بنے
جسے بننا ہو سمجھ سوچ کے دیوانہ بنے
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاستدان باہم دست و گریبان ہونے کی بجائے افہام و تفہیم سے قومی معاملات کو حل کرنے کی کوشش کریں۔غریب لوگوں کی زندگی آسان بنائیں اور اس خطے کے مسائل حل کرنے کے لیے اپنا ذاتی اور پارٹی اثرورسوخ استعمال کریں۔صرف اسی صورت آپ لوگوں کے دلوں میں راج کر سکتے ہیں۔علمائے کرام سے بھی التجا ء ہے کہ وہ غربت،جہالت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے آواز اٹھائیں۔مظلوم طبقہ آپ کی اعانت کا طلبگار ہے۔مصیبتوں اور آزمائشوں سے دوچار یہ قوم کسی مسیحا کی تلاش میں ہے۔
very informative and heart touching article.
dr siraj is a daring and courageous man.i m reading his columns for last many years on core issues of gb.his approach is logical and unbiased.i salute him on his efforts for peace and national cause.may he live long
many thanks dear ali raza for your comments
welldone dr siraj sb,nice article.keep it up.
well done dr siraj sb,keep it up will be waiting for your next article.u are a true man
excellent chaudhry sb.we proud on you.
DOCTER SARAJ KA KALAM PARH KER YAQEEN NAHI ARAHA HA KI GB MA B ASY BASHAOOR NOJAWAN MOJOD HAN JO INSANI LAVAL PER SOCHTY HAN WARNA YAHAN TO AAWY KA AWA HI BIGRA HA MAZHB KOA NAM PER INSANO KA KHON BAHANA TO QABIL E FAKHER SAMJA JATAHA THANX ONCE AGAIN DR AFZAL SARJ SAHIB ..,;NAEEM UDDIN GB PAKISTAN
janab naeem bhai hosla afzai ka shukria,,umeed ha aynda b apni qeemti raae se nawazain gy.Allah hm sb ka hami wa nasir ho.
well done,,a thought provoking article.