اصل مجرموں کو کون پکڑے گا ؟
محکمہ تعلیم بلتستان ریجن کی آشر باد پر ضلع سکردو اورگانچھے میں غیر قانونی طور پر بھرتی کئے جانے والے اساتذہ کی تحقیقات کے سلسلے میں قائم کمیٹی کی جانب سے 462 اساتذہ کی خلاف ضابط ،رشوت اور سفارشی کی بنیاد پر بھرتیوں کا انکشاف کرتے ہوئے چیف سیکریٹری گلگت بلتستان سے ان ملازمین کی برطرفی اور اس گیم میں ملوث آفیسران کے خلاف کارروائی کرنے اور خالی اسامیوں کو مشتہر کر کے نئی بھرتیاں عمل میں لائے جانے کی سفارش نے جہاں چور دروازوں سے ملازمین حاصل کرنے والے ہزاروں ملازمین کی نیند یں حرام کر دیں وہی پر پیپلز پارٹی کی نام نہاد صوبائی حکومت کی کارستانوں کا بھی ایک بار پھر بھانڈا پھوڑ دیا ہے ۔اس سے قبل محکمہ تعلیم گلگت میں بھی 183 ملازمین کی بھرتیوں کو ایک تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات پر خلاف ضابطہ قرار دیکر ان ملازمین کو فارغ کر دیا گیا جس کے خلاف متاثرہ افراد اور ان کے اہل خانہ نے احتجاجی مظاہرے ،ریلیاں اور ٹھٹھرتی سردی میں رات کو سڑکوں پر دھرنا دیا اور اعلیٰ حکومتی شخصیات کی حمایت حاصل کرنے کے باوجود بھی تا حال اپنی ملازمتوں پر بحالی میں کامیاب نہ ہو سکے ۔انہوں نے حتیٰ کہ اس مسئلے کو لیکر انصاف کی فراہمی کیلئے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا لیکن وہاں سے بھی ان کے حق میں کوئی فیصلہ نہیں آیا پھر بھی وہ کسی نہ کسی طریقے سے اپنی بحالی کی کوششوں میں مصروف ہیں اور ان کے حوصلے پست نہیں دیکھائی دے رہے ہیں۔یہ صورتحال صرف ان تین اضلاع کی نہیں بلکہ استور میں بھی غیر قانونی طریقے سے بھرتی ہونے والے درجنوں اساتذہ کی بر طرفی اور غذرمیں بھی سینکڑوں جعلی اساتذہ کی بھرتیوں کے حوالے سے تحقیقات شروع کرنے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔جبکہ ضلع دیامر میں اساتذہ کی خالی اسامیوں سے متعلق غلط بیانی کرنے پر ڈپٹی ڈائریکٹر اور سکردو میں غیر قانونی طور پر بھرتی ہونے والے اساتذہ کی تحقیقات کرنے والی ٹیم سے عدم تعاون پر ڈائریکٹر تعلیمات سمیت چند اہلکاروں کی معطلی کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں ۔دوسری جانب وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کے حلقے اور ان کے آبائی گاؤں سکیمدان سے درجنوں اساتذہ نے طویل عرصے سے تنخواہوں کی عدم فراہمی کے خلاف احتجاج کا آغاز کر دیا ہے اور انہوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ محکمہ تعلیم بلتستان کے چھ سو کے قریب اساتذہ کو گزشتہ چھ ماہ سے تنخواہوں کی ادائیگی بند کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے انہیں سڑکوں پر نکل آنا پڑا ہے اور صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ عوام وفاق کے حوالے سے پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس میں خصوصی عدالت کے فیصلے اور گلگت بلتستان میں محکمہ تعلیم کی کرپشن سے متعلق برکنگ نیوز پڑھنے کے لئے ہر صبح اخبارات کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں ۔بہر حال صوبائی حکومت کے دور اقتدار میں ہی کرپشن کے بے شمار سکینڈلز سامنے آئیں گے وہ وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا مگر افسوس اس بات پر ہو رہا ہے کہ آخر صوبائی حکومت کی پشت پناہی میں تعلیم جیسے اہم اور انتہائی مقدس ادارے کی وہ حالت کیوں کر دی گئی جو کوئی اپنے ازلی دشمن کے ساتھ کرنے کا بھی نہیں سوچ سکتا ۔نہ جانے ہمارے یہ نا عاقبت اندیشن حکمران محکمہ تعلیم کا بیڑا غرق کرنے اور علاقے کی نئی نسل کے مستقبل کو داؤ پر لگانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ویسے تو کرپشن ،اقربا پروری اور لاقانونیت کی آگ نے گلگت بلتستان کے تمام سرکاری محکمو ں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے مگر حکومتی ذمہ داران کی جانب سے محکمہ تعلیم میں لگنے والی اس آگ پر مزید تیل ڈالنے کی پالیسیوں کی وجہ سے اب تو یہ محکمہ مکمل طور پر جل کر راگ ہونے کا اندیشہ ہے جس کی مثالیں سرکاری تعلیمی اداروں کی انتہائی مایوس کن کارکردگی اداروں کے اندر تعلیمی سہولیات کا فقدان اور والدین کا اپنے بچوں کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں داخل کرانے کے بڑھتے ہوئے رجحان سے ملتی ہے ۔
چلیں ہم مانتے ہیں کہ وفاق میں پاکستان مسلم لیگ ن کے بر سر اقتدار آنے کے بعد گلگت بلتستان میں بھی غیر قانونی بھرتیوں کی تحقیقات کا عمل بڑے زور و شور سے جاری ہے اور چیف سیکریٹری محمد یونس ڈاگا کی سربراہی میں اعلیٰ انتظامیہ علاقے سے کرپشن کے خاتمے کے لئے پر عزم ہیں لیکن کیا یہ کارروائی صرف ان لوگوں کے خلاف ہی ہو رہی ہے جنہوں نے غربت اور بے روزگاری سے نجات حاصل کرنے کے لئے رشوت اور سفارش کی بنیاد پر نوکریاں ھاصل کر رلی ہیں یا اس پورے گیم کے اصل محرکات جو کہ سیکرٹیریز اور صوبائی وزراء کی شکل میں ان محکموں کی ذمہ داریاں سنبھال رکھے ہیں کیا ان وزراء اور بیورکریٹس کے خلاف بھی کوئی کارروائی کی جارہی ہے جن کی پشت پناہی اور رضا مندی سے یہ سارا کام ممکن ہو پایا ہے ۔کیا ان وزراء کے خلاف بھی کوئی تحقیقات ہو رہی ہے جو کرپشن اور رشوت کے عویض میں ملنے والی بھاری رقوم میں برابر کے حصہ دار ہیں کیا وہ لوگ بھی اس جرم کے مرتکب بن سکتے ہیں جن کی کرپشن کی داستانیں زبان ذد عام ہو چکی ہیں اور مسجدوں سے بھی ان کے خلاف فتوے جاری ہو رہے ہیں اگر نہیں تو محض غیر قانونی بریقے سے بھرتی ہونے والے ملازمین کی بر طرفی سے معاشرے سے کرپشن اور رشوت ستانی کا خاتمہ ہر گز ممکن نہیں کیونکہ کہا جا تا ہے کہ چور کو اگر پکڑنا ہو تو سب سے پہلے اس کے والدین کو پکڑا جائے اور ان والدین کو پکڑنا کوئی مشکل بھی نہیں اگر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (نیب) سمیت دیگر تحقیقاتی ادا رے چاہے تو کرپشن کے مرتکب بننے والے صوبائی وزراء کے اثاثوں کی تفصیلات اور ذرائع آمدن کا بھی کھوج لگا سکتے ہیں اور کرپشن کے حوالے سے ٹھوس شواہد بھی اکٹھے کر سکتے ہیں جس کی بنیاد پر راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی کی طرح ان کو بھی کورٹ کچہری میں گھسیٹا جا سکتا ہے لیکن اصل مسئلہ غیرت مندی ،ایمانداری اور خلوص نیت سے کام کرنے کا ہے ۔