حلق کی ہڈی یا گندم کا دانہ
شہزاد علی برچہ، گلگت
سیانے کہتے ہیں کہ ہر مشکل اور ہر مسئلے کے پس پردہ کوئی بھلا ئی چھپی ہوتی ہے۔ کئی برسوں سے فرقہ واریت ، علاقائی تعصب اور زات پات میں تقسیم گلگت بلتستان کی قوم اس وقت یکجا نظر آئی جب انہیں اپنے باہمی اختلافات اور دست و گریبا ں ہونے کا نتیجہ انکے بنیادی حقوق سلف ہونے کی شکل میں ملا۔ آئینی حقوق کے حصولی میں پہلے سے در پیش مشکلات کا سامنا کرنے والی قوم اب روٹی کا نوالہ چھننے پرتمام اختلافات بھلا کر ایک یک آواز نظر آرہی ہے۔ تا ریخ گواہ ہے کہ قومیں کسی بڑے سیاسی معاشی و معاشرتی نقطے پر اکھٹی ہو یا نہ ہو بنیادی حقوق کی پامالی نے ہر قوم کے نچلے طبقے کو ہمیشہ یکجا کر دیا ہے۔ اور کسی بھی تحریک کی کامیابی اور کہیں انقلاب برپاکرنے میں مظلوم اور محکوم طبقے کا اہم کردار رہا ہے۔
کرپشن بے روزگاری فرقہ وارانہ دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ کے عزاب میں مبتلاء گلگت بلتستان کی قوم کا صبر کا پیمانہ گندم پر سبسڈی کے خاتمے پر لبریز نظر آیا۔ دو سال پہلے جب اس معاملے پر غذر کے عوام نے احتجاجی تحریک شروع کی تو حکومت نے سب اچھا کا نعرہ لگایا ۔ اخبارات میں بڑے بڑ ے اشتہارات دیے گیے اور گمراہ کن بیانات دے کر حکومت کی طرف سے اپنی صفائی پیش کی گئی۔ اس کا نتیجہ صوبائی حکومت کو بہت منگا پڑھ رہا ہے۔ اور آج حکومت یہ موقف پیش کرہی ہے کہ عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے اور گندم سبسڈ ی پر کچھ لوگ سیاست کر رہے ہیں۔
اکتو بر میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں حکومتی جماعت کے پاس اپنی پانچ سالہ کارگردگی میں مہنگائی، کرپشن ،بجلی کا بحران، ترقیاتی پروجیکٹس کی حالت زار ، کنٹریکٹ ملازمین کی مستقلی کا معاملہ حکومت مخالف جذبات پیدا کرنے کے لیے کافی تھے لیکن اب ایک طرف گندم پر سبسڈ ی کا خاتمہ اور دوسری طرف کوہستان دیامر حدود پر خونی تنازعے نے حکومت کی پوزیشن عوامی عدالت میں مزید کمزور کردی ہے۔
اگر گندم سبسڈ ی کے معاملے پر حکومت اس وقت لاکھوں روپے خرچ کر کے عوامی رد عمل روکنے کی کوشش نہ کرتی اور عوام کو حقائق سے بروقت اگاہ کرتی تو شاید یہ وقت انکے لیے اتنا سخت نہ ہوتا ۔ اب گندم پر سبسڈی کے معاملے پر عوام سڑکوں پر نکل چکی ہے اور عوامی ایکشن کمیٹی جسے گلگت بلتستان کے اہم مذہبی و سیاسی شخصیات کی مکمل حمایت حاصل ہے اس تحریک کو مزید مستحکم کر رہی ہے جبکی گلگت بلتستان میں آنے والے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے بڑا خطرہ تصور کی جانے والی سیاسی و مذہبی تنظیم مجلس و حدت المسلمین اور دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے کرپشن کا خاتمہ اور گندم سبسڈی کی بحالی اہم سیاسی ایجنڈہ بن سکتا ہے۔ جبکی وفاقی حکومت کے لیے بھی ایک اچھا موقع ہے اگر نواز حکومت گندم پر سبسڈی کی بحالی کا اعلان کرے تو ان کی آئندہ انتخابات میں پوزیشن مستحکم ہو سکتی ہے۔ کیونکہ زولفقار علی بھٹو کے احسانات کے بدولت پاکستان پیپلز پاٹی گلگت بلتستان میں اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہے۔ اگر وفاقی حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے مثبت پیش رفت نہ کرے تو یہ مسئلہ آنے والے انتخابات میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ عوامی رد عمل گندم سبسڈی بحال کرانے میں کامیا ب ہو یا نہ ہو مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہے کی اس مسئلے نے پاکستان کی دو بڑی سیا سی جماعتوں کو ایک بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ آج عوامی اجتما عات میں دیگر مذہبی سیاسی و مقامی قوم پرست جماعتیں اور تاجر برادری عوامی ایکشن کمیٹی کی شکل میں ایک پلیٹ فارم پر نظر آرہی ہیں۔
آج دنیا میں اقوام مکمل انسانی حقوق کو جدید سہولیات کی حکومتی سطح پر فراہمی کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے کو شاں ہیں، مگر اس کے بر عکس گلگت بلتستان کے عوام دو وقت کی روٹی کے لیے صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی گلگت بلتستان کی عوام حکومتی بے حسی پر نو حہ کناں نظر آرہے ہیں۔ عوام کے معیار زندگی کو بڑانے کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی گئی۔ زراعت کی ترقی کے لیے کوئی انقلابی اقدامات نظر نہیں آرہے۔ آج صوبائی وزراء کو گندم کی سبسڈی پر عوامی رد عمل نظر آیا تو فر ما رہے ہیں کہ ہمیں خود گندم کی فصل اگا کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ ہم کب تک بیرونی امداد پر انحصا ر کررتے رہینگے۔ ان کے اس بیان ہر میں مزید تبصرہ نہیں کرنا چاہتا مگر اتنا ضرور کہونگا کہ ہمارے وزراء اور مشیر صاحبان کو یہ بات اقتدا ر کی کرسی پر بیٹھتے وقت سوچنی چاہیے تھی کہ ہم اس معاملے میں کس طرح خود کفیل ہو سکتے ہیں۔ گندم سبسڈی کا معاملہ مہدی شاہ حکومت کے لیے بہت سخت گزرے گا۔ یہ ان کے حلق میں پھنسی ہوئی ہڈی کی مانند ہے جسے یہ نہ نگل سکتے ہیں نہ اگل سکتے ہیں۔