کالمز

انتخابات اور تعصبات

شاہ عالم علیمی
گلگت بلتستان میں ایک بار پھر انتخابات کا موسم ہے۔ ہر طرف سیاست سیاست ہورہی ہے۔ سیاست میں عام عوام کی شمولیت اور انتخابات کا انعقاد یقیناً ایک بہتر معاشرے کے عکاس ہیں۔ کسی بھی نظام حکومت سے جمہوریت بہر حال بہتر رہی ہے۔ جن ممالک میں جمہوریت صیح معنوں میں نافذ العمل ہے وہ ممالک اجتماعی انسانی ترقی،  انسانی حقوق سائنس و ٹیکنالوجی اور علم و ادب کے میدان بہت ترقی کرچکے ہیں۔
ہمارے ہاں چونکہ جمہوریت نسبتاً ایک نیا طرز حکومت ہے اسی لیئے جمہوری روایات ابھی مضبوط نہیں ہوئے۔ پورے برصغیر پاک و ہند میں وہی لوگ اس نظام کی کمزوریوں میں ہیرا پھیری کرکے برسر اقتدار اتے ہیں جن کے اسلاف کا گوروں کے ساتھ براہ راست رابطہ تھا۔ وہ ان کے ملازم تھے یا ان کے لیے بالواسطہ یا بلاواسطہ کام کرتے تھے۔ یہی لوگ پورے سسٹم پر اب قابض ہیں۔ تاہم جب بات گلگت بلتستان جیسے خطے کی اتی ہے تو وہاں بمشکل دو فیصد کے باقی ابادی وہی غریب اور متوسط طبقے پر مشتمل ہے۔ سماجی روایے کلچر ثقافت قبائلی، ادب اور تفکر ترقی پذیر اور علم و تعلم کا معیار مضبوط نہیں۔
ایسے پس منظر میں جب انتخابات جیسے معرکے منعقد ہوتے ہیں تو اس میں اجتماعی مفادات، مستقبل، ترقی اور خوشحالی کے موضوعات تعصبات انفرادیت اور اپسی چپقلش کے نذر ہوجاتے ہیں۔ ائیں دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں کس کس قسم کے تعصبات پائے جاتے ہیں:
1- (قوم پرستی)
یہاں قوم سے مراد ایک باپ کی اولاد یا سادہ الفاظ میں ایک خاندان ہے۔ یعنی خاندان کو قوم اور خاندان پرستی کو قوم پرستی کا نام دیا گیا ہے۔ اپ نے بالکل صیح سمجھا عصبیت عروج پر ہیں۔ اس سے یہاں کے لوگوں کی جھوٹی انا کی تسکین بھی ہوتی ہے اور کچھ لوگ سیاسی معاملات میں بھی اس سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایک صاحب مجھے بتا رہے تھے کہ میں اپنے بھائی کے ساتھ الیکشن کمپئین کے سلسلے میں ایک گاوں گیا۔ اتفاق سے وہاں ایک اور امیدوار ملا۔ اس نے بڑے ادب سے میرے بھائی سے اتحاد کرنے اور ملکر ایک دوسرے کو موقع دینے کو کہا۔ بھائی صاب نے بڑے رعونت سے ان صاب کو ترکی بہ ترکی سناتے ہوئے بولنے لگا کہ دیکھ بھائی تم نے (انتخابات) میں کھڑے ہونا ہے یا بیٹھنا ہے تیری مرضی،  میری قوم ہے اور میں ہر صورت (الیکشن) جیتنے والا ہوں۔ بہر حال جب انتخابات کے نتائج ائے تو یہ دونوں صاحب بری طرح ہار گئے۔
اس سے اپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ  خاندان پرستی کیوں معاشرتی کینسر ہے۔ یہ انسان کو اندھا بنا دیتی ہے اور سوچنے سمجھنے اور صیح فیصلہ کرنے سے روک لیتی ہے۔ یوں اجتماعی اور انفرادی ہر دو طرف نقصان ہی ہوتا ہے۔
2- مسلک پرستی
سماج کی ایڈز مسلک پرستی ہے۔ اس بیماری کی بنیادی وجہ کم علمی اور نقص معلومات ہے۔ اسی وجہ سے ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنا اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد عام ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ میرے مشاہدے کے مطابق ہمارے ہاں لوگوں کو خود ان کے اپنے مذہب مسلک اور فرقے کا صیح علم نہیں۔ سونے پہ سہاگہ باہر سے انے والے نام نہاد موسمی مذہبی لوگ کچھ نکتوں پر وہاں کے لوگوں کی برین واشنگ کرتے اور اپنی مذہبی دکان چمکاتے ہیں۔ ہمارے لوگ ان چاپلوسوں کی اندھی تقلید کرکے گمراہی کی زندگی گزارتے ہیں۔ ایسے میں نقصان علاقے کا تو ہوتا ہی ہے ساتھ ساتھ ان مخلص اور باکردار لوگوں کا بھی ہوتا ہے جو علم و شعور اور علاقے کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ مگر اس سماجی و مذہبی بیماری کی وجہ سے بلاوجہ نقصان اٹھاتے ہیں۔
3- علاقائی تعصبات
ہمارے ہاں ہر گاوں کے باسیوں کا خیال ہے کہ ان کا گاوں ایک الگ ملک ہے۔ اور یہ کہ ان اور ان کے گاوں کے بیغیر کسی کے بس کی بات نہیں کہ کوئی کام ہوسکے۔ ‘مقامی’ اور ‘غیر مقامی’ عام رائج الوقت الفاظ ہیں جن سے مراد گاوں سے باہر کے لوگ ہوتے ہیں۔ اپنے ہاں ان الفاظ کے معنی میں عام اردو زبان کے معنی کی نسبت وسعت ہے۔ جس سے ‘غیر مقامی’ کے ‘منفی’ اوصاف زیادہ مراد لیے جاتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر ‘اپنا’ بندہ انتخابات جیت جائے تو وہ زیادہ بہتر ہوگا۔ حالانکہ ایک پتھر سے نہ عمارت بن سکتی ہے اور نہ ہی دیوار۔ اگر سوچ کو وسعت دی جائے اور علمی و منطقی سوچ کو فروغ حاصل ہو تو جو امیدوار وسیع القلب روشن دماغ صاحب علم اور صاحب جذبہ و ایمان ہوگا وہ پورے علاقے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے فائدے مند ہوگا۔ ورنہ اونٹ پر سامان لاد کر اپ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ خود چل کر منزل تک پہنچ جائے گا۔ جو شخص تنگ نظر کم علم پست ہمت اور عدم اعتماد والا ہوگا وہ اپ کے لیے کچھ نہیں کرسکتا چاہئے وہ اپ کا باپ ہو یا بیٹا۔
4- لسانی تعصبات
‘لقپا’ ‘گجر’ ‘جاہل’ ‘پوریو’ ‘شیطان’ جیسے تراکیب سے بالکل واضح ہیں کہ یہاں کے لوگوں میں لسانی تعصبات نہ صرف عروج پر بلکہ معاشرے اور سماج کی گہرائی میں پیوست  ہیں۔ ایک دوسرے کے لئے واضح کردہ یہ تراکیب بتاتی ہیں کہ ہم ہمارا معاشرہ ثقافت علم و ادب کس قدر تنگ نظر ہیں۔ اپنے پر بے جا فخر اور دوسروں کو پست و نیج سمجھنا ہماری تنگ نظری کم علمی عدم برداشت تاریک القلبی اور چھوٹی سوچ کا واضح ثبوت ہے۔
اگر ہم اقوام عالم میں بہتر تشخص اور دنیا میں ترقی کرنے کے خواہاں ہیں تو ہمیں صیح علم حاصل کرنا ہوگا اور سوچ کو وسعت دینی ہوگی۔ مسائل و معاملات کو  منطقی سوچ اور علمی بنیادوں پر حل کرنے ہوں گے،  عدم برداشت و شک و گمان کو ترک کرنا ہوگا۔ اپنے خاندان گاوں رشتوں فرقوں اور زبان کے بجائے اجتماعی فائدے کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی ایسے بھائی بہن کا ساتھ دینا ہوگا جو صیح علم رکھتا ہو۔ جسے سیاسی معاملات،  جدید دنیا کے کاروبار تاریخ جغرافیہ زبان Language, Tongue پر عبور ہو اور وہ انفرادیت کے بجائے اجتمایت پر نظر رکھتا ہو۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button