گلگت بلتستان کی مالی مشکلات اور افسران کے غیر ضروری اخراجات
گلگت(مون شیرین) ایک طرف صوبائی حکومت فنڈ کی کمی کا رونا رو رہی ہے جبکہ دوسری طرف سرکاری اداروں کے اعلیٰ آفسیران فنڈز کا بے دریغ استعمال کرنے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ تیل کی مد میں سالانہ کروڑوں روپے بلاضرورت استعمال کیا جارہا ہے، جس سے سرکاری خزاںے کو لاکھوں کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے. افسران کے علاوہ ان کی بیگمات اور بچے بھی سرکاری گاڑیوں کا بے دریغ استعمال کرکے سرکاری فنڈز ضالؑع کر رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق محکمہ برقیات سمت کئی ایسے اداروں میں ایسی گاڑیوں کے نام پر ماہانہ 500 سےزاہد لیٹر تیل حاصل کر رہے ہیں جو محکمہ میں موجود نہیں بلکہ کباڑ خانے یاورکشاپس میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور بعض سرکاری آفسیران سرکاری گاڑیوں کو اپنے گھروں کے تعمیراتی کا م میں سامان کی ڈھلائی کے لیے بطور ٹریکٹر بھی استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان سرکاری آفسیران سے کو ئی پوچھنے والا کوئی نہیں۔ جبکہ سرکاری ادارےپٹرول پمپس کےکروڑوں کے مقروض ہیں۔
ان سرکاری گاڑیوں کے چیک انیڈبیلنس کا نظام نہ ہونے سے گلگت بلتستان کے لئے مختص بجٹ کے نصف ان سرکاری اداروں کے آفسیران اور ان کے اہل خانہ عیاشی میں اُڑا دیتے ہیں۔ عوامی رائے کے مطابق چیک اینڈ بیلنس کا نظام بہترکر کے تیل کی مد میں خرچ ہونے والے کروڑوں روپے گلگت بلتستان میں پاور سیکٹر پر خرچ کرکے سکتے ہیں ۔ چونکہ گلگت بلتستان کے عوام پہلے سے ہی بجلی کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ اب عوام کی نظریں چیف سکرٹیری گلگت بلتستان محمد یونس ڈاگھا پر لگی ہے کہ وہ ان سرکاری اداروں میں تیل کی بجٹ میں کمی کرکے جی بی کے ترقیاتی کاموں پر خرچ کرے۔