کالمز

عوامی ایکشن کمیٹی ۔۔ایک بہتر حکمت عملی

عوامی ایکشن کمیٹی کے نام سے سیاسی مذہبی اور قومی پارٹیوں کاایک مخلوط پلیٹ فارم گلگت بلتستان کی تاریخ کا ایک منفرد باب ہے اس نومولود کمیٹی کا پورے خطے کی سطح پر اپنے اعلامیے کے مطابق حکمت عملی میں کامیابی بھی قابل ذکر عمل ہے۔ابتدائی طور پر اس کمیٹی کا مقصد گندم کی سبسڈی کے فیصلے کو واپس لینے کے حوالے سے بتایاجاتا ہے مگر چارٹر آف ڈیماند کا مطالعہ کرنے معلوم ہوتا ہے کہ اور بھی کئی قومی ایشو کے حوالے سے اقدامات بھی نکات میں شامل ہے اس کمیٹی کی ایک اور بڑی کامیابی یہ بھی ہے کہ خطے کی تاریخ میں پہلی بار اپنے مسائل اور حقوق کی مطالبے کیلئے تمام مذہبی اور قوم پرست جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہو گئی ہے جو کہ مستقبل کی سیاست کے حوالے سے اچھی پیش رفت ہو گی کیونکہ یہاں کے عوام وفاقی جماعتوں کو چند نوٹوں کے عوض ووٹ دیکر اب تھک چکے ہیں لہذا ایسے پلیٹ فارم کی معرض وجود میں آنے سے عوام کو ایسے مفاد پرستوں کی چنگل سے آذاد کرانے کیلئے بھی سودمند ثابت ہو گا۔لیکن یہاں ایک بات جو راقم کو بھی پرنٹ میڈیا سے معلوم ہوا کہ بلتستان ریجن سے تعلق رکھنے والے بابائے قوم پرست محترم سید حیدر شاہ رضوی صاحب کو کچھ خدشات ہے کہ انکی کچھ تجاویز کو چارٹر آف ڈیمانڈ میں گزارش کرنے کے باوجود شامل نہیں کیا گیا۔لہذا یاد رہے کہ اس قومی سپوت کے کسی بات کونذرانداز کرنا یقیناًخطے کی مفاد میں نہیں ہوگا۔

my Logoشاہ صاحب کا گلگت بلتستان کی حقوق کیلئے ایک جہدمسلسل ہے انکی خطے کیلئے قربانیاں روز روشن کی طرح عیاں ہے لہذا عوامی ایکشن کمیٹی کے اراکین کو چاہئے کہ اس سفر کی کامیابی کیلئے ان شخصیات کی تجاویز اور مشوروں کو اولین ترجیح دیں تو منزل حاصل کرنا کوئی مشکل عمل نہیں۔ کیونکہ عوامی طاقت کے سامنے حکومتیں ڈھیر ہوا کرتی ہے اور اگر کوئی بھوکے پیٹ کے ساتھ انقلاب کی بات کریں تو سمجھ لو کہ انقلاب لازمی امر ہے تاریخ میں ہم دیکھا کہ جہاں جس ملک میں بھی انقلاب آیا انکی وجوہات بھوک رہی ہے ہم اگر مضمون کی وسعت اشاعت کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام میں اگہی کی خاطر انقلاب فرانس پر کچھ روشنی ڈالنے کی کوشش کریں تو1789کی بات ہے فرانس کی حکومت مفلوج ہو کر طبقاتی ظلم ستم عام ہو چکی تھی قانون اور انصاف بدنظمی کا شکار ہو چکا تھاجاگیرداروں کی اپنی عدالتیں قائم تھی عدالتوں کے عہدے انکی مرضی سے بکتے تھے دولت مند افراد ایسے عہدوں کو خرید کر اپنے اولادوں کو ترکے میں دیا کرتے تھے ٹیکسوں کا نظام ظالمانہ تھا غریبوں سے ٹھیکداروں کے ذریعے زبردستی غنڈہ ٹیکس وصول کیا جاتا تھا،امراء اور پادریوں کو ٹیکس کے تمام معاملات میں مکمل چھوٹ تھی عوام بھوک سے مر رہے ہوتے تھے لیکن امیروں کے پالتوکتوں کو مرغن غذواں سے سیراب کیا جاتا تھا ۔اس بدتر صورت حال کے خلاف وا لٹیئر،مانٹییگو نامی کچھ لوگوں نے عوام میں فکری انقلاب برپا کیا توہم پرستی رجعت پسندی کے خلاف جہاد کیا یوں چند لوگوں کی مخلصانہ کوشش اور جدوجہد سے عوام میں عقل فہم کا سورج طلوع ہو کر عوامی انقلاب پرپا ہوا ۔بلکل یہی صور ت حال گلگت بلتستان کا بھی ہے یہاں غریب کی غربت پر امیروں کے محفل میں قہقہے لگتے ہیں انصاف اور قانون عوام کیلئے الگ اشرافیہ طبقات کیلئے الگ ہے پولیس کا سپاہی محلے کا خادم ہونے بجائے حاکم ہوا کرتا ہے ایک پٹواری اپنے علاقے میں بادشاہ سمجھے جاتے ہیں آج بھی اس خطے میں عام آدمی کو بولنے کا حق نہیں ظلم دیکھتے ہوئے نظام میں خرابی کی وجہ سے سہنا پڑتا ہے گندم کے اس دانے نے آج خطے کے عوام کو یکجا کیا کیونکہ عوام محسوس کرتے ہوئے بھی اظہار نہیں کر پا رہے تھے ، خطے کے عوام مقامی ڈوگروں کے ہاتھ آج بھی مجبورہے ایسے میں اس طرح کی تحریک کا سامنے آنے خطے کی سیاست میں ایک ہلچل سے کم نہیں۔

لیکن یہاں ایک بات بھی عرض کرتا چلوں کہ اس تحریک کی کامیابی عوامی اعتماد سے مشروط ہے لہذا ضروری ہے کہ عوام ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے مستقبل کیلئے لائحہ عمل طے کریں اور قومی ضرورت کے حوالے سے جس کسی کو بھی کسی حوالے سے خدشات ہو اسے دورکرنے کی کوشش کریں۔ساتھ ہی جیسے پہلے ذکر کیا کہ اس طرح کی تحریک کا معرض موجود آنا بین مسالک ہم آہنگی کیلئے ایک اہمیت رکھتی ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں بدقسمتی سے جب بھی حقوق کے حوالے سے معاملہ اُٹھایا جاتا ہے تو ایک سازش کے تحت مذہبی منافرت کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں لہذا بہترین موقع ہے جہاں تمام مسالک کے نمائندے قومی مسلے کیلئے اکھٹے ہوئے ہیں ۔کیونکہ مسلک مذہب اس خطے کا اصل مسلہ نہیں مہذب قومیں ترقی اور تعمیر کیلئے مذہب سے ہٹ کر سوچتے ہیں کیونکہ کوئی بھی قوم مذہب کے خول میں رہ کر حقوق کی حصول کیلئے جدوجہد نہیں کر سکتے اور مختلف حالات میں کامیابی کے امکانات بھی نہیں ہو تے ۔لہذا اس سنہرے وقت کو اپنے حقوق کی جنگ سمجھ کر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ آگے قدم بڑھائیں سرحدی تنازعے میں جس طرح پختون خواہ نے عوامی طاقت کا مظاہر کیا بلکل اسی طرح اس مسلے کے حوالے سے عوامی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیامر کے عوام کا ساتھ دیں کیونکہ اس تنازعے کی دفاع میں اس وقت صرف دیامر کے لوگ پیش پیش ہے لہذا عوامی ایکشن کمیٹی کا اگلا ہدف سرحدی تنازعے کا مستقل حل کی طرف ہونا چاہئے ۔بدقسمتی سے ایک طرف سرکاری سطح پر گلگت بلتستان کے اراضی دوست ممالک کو تخفے میں دینے کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے تو دوسری طرف شندور جیسے اہم علاقے گلگت بلتستان سے چھینے کی تیاری ہو رہی ہے لیکن ہمارے وفاقی کنٹریکٹ سیاسی ملازمین سرکاری فنڈز کی بندر بانٹ سے فرصت نہیں مگر لگتا ہے کہ وہ وقت جاچکا ہے جہاں خطے کی عوام کو مسلکی لڑائی میں الجھا کر ہمارے قسمت کے فیصلے کئے جاتے تھے ۔اللہ کرے یہ سلسلہ جاری رہے کیونکہ ابھی ابتداء ہے اور حکمرانوں کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح اس تحریک کو سبوتاز کیا جائے کیونکہ اس تحریک سے انکی مستقبل کی سیاست میں تاریکی نظر آرہی ہے ایسے میں یہی عناصر کوشش کریں گے کہ اس حوالے عوام میں اپنے خاص کارندوں کے ذریعے منافرت پھیلائیں گے جس کیلئے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ایک اور اہم پہلو اس تحریک کے حوالے کرناچاہوں گا کہ اس وقت کارگل سکردو روڈخطے کی معیشت کی بہتری اور عوامی ضرورت کے حوالے سے اولین ضرورت سمجھی جاتی ہے لیکن پاکستان سرکار ہاں جی اور نا ں جی میں اس مسلے کو الجھائے رکھا ہوا ہے لہذا اس اہم قومی ضرورت کو بھی اپنے ڈیمانڈ میں شامل کر کے عوامی ترجمان ہونے کا حق ادا کریں۔ساتھ ہی کہاجاتا ہے کہ شملہ معاہدہ اور اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق مسلہ کشمیر سے جڑے تمام علاقوں کیلئے بہت سے غذائی اشیاء پر خصوصی سبسڈی حاصل ہے میرے معلومات کے مطابق اس وقت حکومت بھارت کارگل لداخ اور جموں میں 30کے قریب غذائی اشیاء پر سبسڈی دے رہے ہیں لیکن جب پاکستان کی طرف دیکھیں تو ایک گندم کی سبسڈی بھی چھینے کی تیاری ہو رہی ہے لہذا دیکھا جائے کہ کیا خطے کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق وہ تمام اشیاء پر سبسڈی مل رہی ہے جس کی نشاندہی اقوام متحدہ نے کی ہوئی ہے اگر نہیں تو اس پہلو پر بھی دیکھا جانا چاہئے ۔ یہاں ایک اور بات بھی لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ گلگت بلتستان کے عوام اب 66سالہ محرومیوں سے دل برداشتہ ہو چکے ہیں یہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ انقلاب کے راستے ہموار ہو رہے ہیں لہذا وفاق پاکستان کو بھی اس معاملے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کیونکہ وہ وقت اب ختم ہو چکی ہے کہ یہاں کے عوام اپنے حقوق کیلئے کسی وزیر کے سامنے بینرز نہیں اُٹھا سکتے تھے اب تو یہاں کے عوام جینوا اور اقوام متحدہ کے صدردروازے پر کھڑا ہو کر اپنے مطالبات اور حقوق کے نعرے لگانے شروع کر چکے ہیں لہذا گلگت بلتستان کی دفاعی جعرافیائی اور عصر حاضر کی اہمیت کو ملحوظ خاطر رکھ کر یہاں کے عوام کے ساتھ ہونے والی ذیادتیوں کا ازلہ کریں۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ یہاں کے عوام انقلاب کا نعرہ لگاتے ہوئے ایوان صدر کے بھی صدر دروازے تک پونچ جائے۔کیونکہ یہاں تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب عوام ایکشن میں آجائے ڈوگروں کی مضبوط حکومت کو بھگادیا تھا لہذا عوامی ایکشن کمیٹی کی اہمیت کو عوامی طاقت سمجھ کر انکے مطالبوں پر عمل درآمد کیا جائے۔ 

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button