کالمز

جشنِ نوروز

تحریر: الواعظ نزار فرمان علی

نوروز  فارسی کے دو الفاظ سے مل کر بنا ہے ، یعنی نو   "نیا” اور روز” دن”. ۔سالِ نو کی آمد یا موسم بہار کے آنے سے روئے زمین پر رونما ہونے والی ہریالی، تازگی و فرحت پر خوشیاں منانا روایات کا حصہ رہا ہے۔ دور قدیم کے ماہرین فلکیات نے آسمان کو بارہ برجوں میں تقسیم کیا ہے اور ہر برج کا مخصوص نام رکھا ہے۔ ۲۱ مارچ کو سورج اپنی سالانہ گردش مکمل کر کے برجِ حمل میں داخل ہوتا جاتا ہے ۔ شمسی کیلنڈر کے اعتبار سے یہی دن نوروز کہلاتا ہے۔ماضی بعید کے تناظر میں اہلِ یونان و روم، اہلِ عرب و مصر ، ایران و شام اور ہندوستانی تاریخ میں جشن نوروز کے گوناگوں رنگ نظر آتے تھے۔ جبکہ آج بھی دنیا کے بیشتر علاقوں میں بسنے والی مختلف اقوام میں ثقافتی گوناگونی اور مذہبی تکثیریت کے ساتھ انجام دیا جارہا ہے جن میں سنٹرل ایشیا(تاجکستان و آذربائیجان) ،پاک و ہند ، مصرو شام ایران و عراق اور افغانستان وغیرہ شامل ہیں۔ ایرانی تاریخ و ادب کے مطابق تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل عظیم ایرانی بادشاہ جمشید نوروز کو قومی تہوار کے طور پر منایا کرتا تھا جس میں وہ اپنے وزراء، مشیروں، دانشوروں ، دلیر سپاہیوں اور وفادار شہریوں کو انعام و اکرام سے نوازتا تھا۔ تاریخ اسلام میں ہمیں نوروز کا تہوار دور نبویؐمیں ملتا ہے جب دربار رسالت ؐ میں ایران سے صحابہ کرامؓ کا آنا جانا ہوا۔

pmgجب بھی نوروز کا دن آتا تو عظیم صحابی حضرت سلمان فارسیؓ کھیر پکا کر آنحضرت ؐ کی خدمت میں پیش کرتے آپؐ اسے قبول فرماتے اور مبارکباد دیتے۔ مسلم دنیا میں اس جشن کو تقویت اس وقت ملی جب نواسہء رسولؐ حضرت امام حسینؑ کی شادی شہنشاہِ ایران یزدگر کی صاحبزادی حضرت بی بی شہر بانوؓ سے ہوئی تھی۔ یوں بین الاقوامی تہوار اسلامی رنگ میں ڈھلتا ، نشونما پاتا ایک ملّی وحدت و خوشی کا باعث بن چکا ہے۔ مسلم تاریخ کے طویل سفر میں اموی، عباسی ، فاطمی ، مغل سلطنتوں ، ترک عثمانیہ ، ، صوفی سلسلوں میں جا بجا نوروز کی خوشیاں جگمگاتی نظر آتی ہیں ۔ اہم شیعی روایات کے مطابق زمین و آسمان کی پیدائش، عہدِ الست کا روح پرور واقعہ ، تخلیقِ آدمؑ ، جلیل القدر نبیوں کی باطل قوتوں پر تائید ایزدی سے فتح و ظفر، کعبہ کو بتوں سے پاک کرنے ، نبی آخرین ؐپر پہلی وحی اور شاہِ مردان، شیر یزدان حضرت علی المرتضیٰ ؑ کی ولایت کا اعلان ، عید نوروز کے خصوصی حوالے ہیں۔ مشیتِ خدا وندی سے جب ارض و سما اور آفتاب و ماہتاب تخلیق ہوئے اور روئے زمین پر سورج کی روشنی پہلی بار نمودار ہوئی اس وقت زمین کا جو حصہ روشن ہوا یہی اس کا نوروز تھا یہ قدرتی سال کا پہلا دن کہلایا۔

\” بیشک آسمان اور زمین کی پیدائش اور رات و دن کے اختلاف میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں\” (القرآن۱۸۹:۳)

\” عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں دکھلائیں گے اور ان کی اپنی جانوں میں بھی تا آنکہ ان کے لئے ظاہر ہو جائے گا کہ یقیناًیہ حق ہے\” ( القرآن ۵۳:۴۱)

چنانچہ قدرتی موسم میں خوشگوار تبدیلی یعنی خزاں کے چھٹنے اور بہار کے ابھرنے کی نہ صرف نوعِ انسانی بلکہ دیگر مخلوقات کے لئے بھی شادمانی کا باعث ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے نوروز فطرت کی عید کا دن ہے۔ بہارِ نو کے آتے ہی ماحول میں عجیب سی ہلچل ہونے لگتی ہے ہر سو گنگناتے پرندے ، مہکتی ہوائیں ، مینا کی رم جھم، لہلہاتی زمین، کھلکھلاتے درخت، تتلی و بھنورے رقصاں ، منجمد جھیل و چشمے پگھلتے ہی آبی حیات نئی زندگی کا دلربا راگ الاپتے ہیں۔ نباتی زندگی فرسودہ لباس چھوڑ کر نیا لباس زیب تن کر لیتی ہے فطرت میں جدت و تازگی انسانی افکار و اعمال پر عمدہ اثرات مرتب کر تی ہے۔ موسم سرما کی سردو بے کیف زندگی کے بعد بہارِ گُل و گُلزار کا آغاز نیم مردگی سے مکمل زندگی کی جانب، نیند سے بیداری، جمود سے حرکت ، خاموشی سے گویائی، مایوسی سے اُمید، جہل سے علم ، بدی سے نیکی اور شکوک و شبہات سے نورِ ایمان کی دولت کی طرف لوٹنا یقیناًایک انسان کے لئے سب سے بڑی خوشی کا ذریعہ ہے اسی صورت میں فطرت میں واقع ہونے والا بہار ہماری اندرونی دنیامیں روحانی بہار لانے کے لئے مثال ثابت ہو سکتا ہے۔

جیسا کہ عظیم صوفی بزرگ فرماتے ہیں ظاہری نوروز کا تعلق سال اور مہینوں کے آنے جانے سے ہے مگر باطنی نوروز اندرونی تبدیلی کا نام ہے۔ دینداروں کا نوروز تو بُرے عمل سے اپنے آپ کو بچانے کا نام ہے اور نا سمجھ لوگوں کا نوروز دنیاوی مال و اسباب کی نمائش ہے اور حقیقی نوروز تو ایسانوروز ہے جو ہر قسم کی شکست و زوال سے محفوظ ہو۔ یعنی یہ دن فقط ماہ و سال ، موسمی تغیرات اور مال و اسباب کے ردّو بدل تک محدود نہیں ہے یہ رسمی سے زیادہ عملی نوعیت کی حقیقت ہے جو قول و فعل، علم و عمل، اور اخلاقی بڑائی، روحانی بالیدگی اور عقلی پختگی کی صورت میں جلوہ گر ہوناچاہیئے اسی صورت میں نوروزکے ظاہری و باطنی فیوض و برکات حاصل کر سکیں۔ جیسا کہ حضر ت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں ۔ ہر گزرنے والا دن بنی آدم سے یہ کہتا ہے کہ میں نیا دن یعنی نوروز ہوں اور تمہارے اوپر نگران ہوں۔ پس تو نیک باتیں کیا کرو ، نیک اعمال بجا لاؤ اس لئے کہ میں ایک دفعہ گزر گیا تو دوبارہ ہاتھ نہیں آؤں گا۔بلاشبہ زندگی ایک متبرک و انمول نعمت خداوندی ہے۔انسانوں کو عطا کردہ قویٰ یعنی سمع، بصر،افئدہ اور عقل واختیار سے نوازا گیا ہے جس کے تحت مختصر و محدود زندگی میں بڑی تیزی سے تسخیر آفاق و انفس کی جستجو میں لگے رہنا ہے۔اس امانت الٰہی کی بجا طور پر ادائیگی کے لئے وقت قیمتی سرمایہ کی حیثیت رکھتا ہے ہر روز رب کریم کی طرف سے ہماری زندگی کے بینک اکاونٹ میں چوبیس گھنٹوں کی ضروری کرنسی ملتی ہے ۔ اب یہ ہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اس کے عوض ایمانی و اعمال صالح کی لافانی دولت حاصل کرتا ہے یا اپنے فرائض دینی و دنیوی کو فراموش کرکے ہوائے نفس کے خاطر اپنی دنیا و عاقبت کو خراب کرتا ہے۔

سر امام سلطان محمد شاہ آغاخان کائنات کو خدا کی زندہ کتاب قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔’’دنیا کسی قید خانے کا نام نہیں یہ تو ایک باغ ہے نہایت خوبصورت نادرالوجود باغ جسے ہم اللہ تعالی کا باغ کہہ سکتے ہیں۔میں مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ زمین کے معجزہ نما حسن پر نظر ڈالیں،اس کے اندر دریا ؤں اور سمندوں سے نظریں سیرکریں، جو زمین کی جنم جنم کی پیاس بجھاتے ہیں،ان پہاڑوں کو دیکھے جو کسی بہت بڑے پڑاؤ کے خیموں کے مانند ہیں،جنگلوں پر نظریں جمائیں جو کسی علمبردار فوج کی طرح ہیں،یہ وسعت خلاء طلوع و غروب آفتاب کے مناظر اور آسمان کی یہ غیر مغلوب لامحدود محراب کیا یہ سب قابل دید نہیں ہیں‘‘۔ انسان کا ئنات صغیر اور دنیا کائنات کبیر ہے بظاہر انسان کائنات میں محدود و مجبور نظر آتا ہے مگر دین حق کی تعلیمات کے مطابق پوری کائنات کا عکس انسانی ذات میں شامل ہے۔لہذا جب انسان ایمان و یقین کے ساتھ فطرت کے سمندر میں غور و فکر کا غوطہ لگاتا ہے تو اسے اپنی ذاتی دنیا اوروسیع و عریض دنیا میں حیرت انگیز توازن و مطابقت محسوس ہونے لگتا ہے۔بلا شبہ یہ کیفیت روحانی نشونماء، سکون قلب،قوانین فطرت کی بہتر سمجھ اور اجتماعی ہم آہنگی کے لئے انتہائی ناگزیر ہے۔اس کے ساتھ ساتھ فطرت کے متعلق ہمارے رویے کے بارے میں ازسرنو جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔فطرت میں خاص طور پر زمین جو ہماری جنم گاہ اور جائے سکونت ہے اور اس فانی دنیا کو چھوڑنے کے بعد ہمارے خاکی وجود کو اپنے سینے میں دفن کرتی ہے۔اللہ کی مہربانی سے ہماری تمام جسمانی ضرورتوں کی تکمیل بھی روئے زمین سے ہوتی ہے اس کے باوجود ہم اسے کیا دے رہے ہیں ۔ جو زمین رحمت الٰہی کا ذریعہ ہے اُسے کوڑا کرکٹ،استعمال شدہ گندگی،گاڑیوں ،کارخانوں اور دیگر مضر صحت دھواں،درختوں کی کٹائی اور قدرتی وسائل کا غیر معیاری استعمال،مصنوعی اشیاء پر بے جا انحصار قدرتی حسن، فطری وسائل و موسمی اعتدال کے دشمن ہیں۔لہذا ہمیں حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے نمود و نمائش اور ایک دوسرے سے بے رحم مقابلے کی بجائے سادگی ،قناعت ،میانہ روی اور صاف صفائی کے رہنما دینی اصولوں پر عمل پیرا ہو کرزمین کو جنت نظیر بنا ئیں اور آئندہ نسلوں کے لئے ایک اچھا ورثہ چھوڑ جائیں۔جشن نوروز کی دلی مبارکباد، اللہ تعالٰی ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین!

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button