’’قحط حکمرانی‘‘
از ابو اِنشال
کل بھی تھر میں قحط تھا۔آج بھی ہے اور اُس وقت تک رہے گاجب تک اِس ملک سے حکمرانی یعنی Governanceکا قحط ختم نہیں ہو جاتا۔بھوک اور موت کے اس عا لم میں ہمارے حکمران جس طرح بریانی ،کوفتے ،سنگاپوری چاول اور ملائی بوٹی وغیرہ کی دعوتیں اُڑاتے رہے۔اِس سے آپ کو اصل قحط کا اندازہ ہو گیا ہوگا۔
حکمران طبقہ اپنے علاوہ اپنے کتوں ،گھوڑوں اور بلیوں کو بھی اِس طرح کی خوراک فراہم کرتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کے مجاز میں بھی یہی جانوروں اور درندوں والی خصوصیات سرائیت کر چکی ہیں۔مثلاًاِن کے ملکی اثاثے جس طرح بڑھ رہے ہیں اُس کی رفتار کسی ریس میں دوڑنے والے گھوڑے کی رفتار سے کم نہیں ہے ۔ اِن کو اکثر اوقات ایک دوسرے کے ساتھ کتوں کی طرح لڑتے بھی باآسانی دیکھا جا سکتا ہے اور ایک شیر کی طرح عوام کی چیر پھاڑ پچھلے 67سال سے جاری ہے۔
عقل کے اعتبا ر سے یہ حکمران طبقہ اکثر گدھوں کے با لکل قریب پایا جا تا ہے اور عوام کو بھی اُنہوں نے اُس لومڑی کی طرح رکھا ہواہے جو اِس درندے کے پچھے اِس اُمید سے چل رہی ہے کہ شاید اُس کے بدن سے کوئی ٹکڑا گرے اور کھانے کو مِل جائے لیکن 67سال کی بھوک کے سوا اُس کے ہاتھ کچھ نہیں لگا۔
سو یہاں تھر آباد ہیں اور بہت تیزی سے آباد ہو رہے ہیں ۔40ملین لوگو ں کا غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنا تھر نہیں تو اور کیا ہے؟ تو انتظار فرمائیے۔مستقبل کے کسی تھر میں شاید میرا اور آپ کا بچہ بھی اِن درندوں کے لیے بریانی اور نہاری کھانے کا موقع فراہم کرے کیو نکہ ہم سب تھر میں آباد ہیں۔
دہشت گردی ،دونمبری،ملاوٹ جیسے فیلڈز میں ترقی کی بلندیو ں پر پہنچ چکے ہیں۔خطرناک حد تک بڑھتی آبادی ،خوراک کی کمی ،پولیو،صاف پانی کی قلت جیسے سنگین مسائل کا حل ہم نے چند تعویزوں کے ذریعے نکالا ہواہے اور اِن تعویزوں کے اندر درج ہے کہ
*ہم ایک سُپر پاور ہیں۔
*ہمارے خلاف گہری سازشیں ہو رہی ہیں۔
*پاکستان ایک مُشکل دور سے گزر ر ہا ہے67)سال سے)
*ہم 57مسلم ممالک کے سردار ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ کوئی ہمیں گھاس نہیں ڈالتا کیونکہ لومڑی گھاس نہیں کھاتی۔