سلیمیؔ ، جاگتے ہوئے احساسات کے امین
’’حدیث دِل‘‘ کی صورت میں دردِ دِل اور اس دِل کی پکار دونوں میرے سامنے ہیں۔ مجھے اپنے دوست احمد سلیم سلیمیؔ صاحب کی تحریریں آنکھ ملتے ہوئے شعور، جاگتے ہوئے احساسات، اُمڈتے ہوئے جذبات اور درونِ خانہ کے ہنگاموں سے لبالب نظر آئیں۔ بیناؔ حسن کے ان اشعار کے بمصداق
وہ رنگ و نور کی روشن کتاب سے چہرے
سما گئے ہیں نظر میں گلاب سے چہرے
نئے نئے سے تکلّم کے سلسلے دیکھے
سوال کرتی نگاہیں جواب سے چہرے
سلیمیؔ صاحب کی تحریروں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تحریر لکھتے نہیں بلکہ تحریر خود کو اُن سے لکھواتی ہے۔ سلیمیؔ صاحب کو میں بہت قریب سے جانتا ہوں۔ ہمارے درمیان صرف دوستی کا نہیں بھائی بندی کا رشتہ ہے۔ زندگی کو جتنے قریب سے انہوں نے دیکھا ہے شاید کسی اور نے دیکھا ہو۔ زیادہ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ سلیمیؔ صاحب جو کچھ دیکھتے ہیں اُسے دوسروں کو دکھانے کا ہنر بھی خوب جانتے ہیں۔ بالکل اِن اشعار کی طرح
روشن ہے اِک الاؤ مرے دِل کے آس پاس
جذبوں کا اِک بہاؤ ہے ساحل کے آس پاس
دِل کو ہے اِک تلاش مسلسل نہ جانے کیوں
ڈوبی ہے کوئی ناؤ مرے دِل کے آس پاس
زیرتبصرہ کتاب ’’حدیث دِل‘‘ سلیمیؔ صاحب کی تیسری قلمی کاوش ہے۔ جو ان کے اخباری کالموں کا مجموعہ ہے۔ قبل ازیں ان کی دو کُتب ’’شکست آرزو‘‘ اور ’’دشت آرزو‘‘ (افسانوں کے مجموعے) شائع ہوکر اہلِ دانش و بینش سے داد وصول کرچکی ہیں۔ سلیمیؔ صاحب کی تحریر میں جاگتے ہوئے احساسات بینائی کو ملتے ہیں۔ میں ان کی تحریر جب بھی پڑھ رہا ہوتا ہوں۔ مجھے کسی ادیب کا قول یاد آتا ہے۔ کسی نے بڑے پتے کی بات کی ہے:۔
’’میری لکھی ہوئی ہر بات کو کوئی سمجھ نہیں پاتا کیونکہ میں احساس لکھتا ہوں، لوگ الفاظ پڑھتے ہیں۔‘‘
سلیمیؔ صاحب بھی احساسات لکھتے ہیں الفاظ نہیں۔ ان کے قلم میں ایک کاٹ ہے جو کسی بھی تحریر کی جان سمجھی جاتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں بھی آپ کو قدم قدم پر یہ کاٹ محسوس ہوگی۔ اتفاق سمجھ لیجئے گا یا بدقسمتی جس معاشرے میں، میں اور سلیمیؔ صاحب رہ رہے ہیں وہاں اخلاقی اقدار زوال پذیر ہوچکی ہیں۔ جس کی وجہ سے ہماری تحریروں میں بھی قدرے مایوسی اور نااُمیدی نمایاں ہوتی ہے لیکن ان سب کے باجود سلیمیؔ صاحب کی تحریر میں روانی اتنی کہ دریا دھیان میں آتا ہے………… اللہ رے روانی اس کی………… ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے………… سلیمیؔ صاحب کی زیرتبصرہ کتاب میں شامل ان تحریروں ’’شہر تمنا میں اجنبی‘‘، ’’میرے دِل میرے مسافر‘‘، ’’ماتم یک شہر آرزو‘‘، ’’شام اور بسمل فکری کا کہرام‘‘، ’’احوال ایک تقریب کا‘‘، ’’شندور میلہ‘‘، ’’اسلام آباد کی ایک شام‘‘ اور ’’دھنک رنگوں کا سفر‘‘ کو ضرور پڑھ لیجئے گا۔ آپ کو میری مؤقف کی تائید کرنی پڑے گی۔
یہ ناممکن ہے کہ کسی ادیب یا نقّاد کی تحریر میں گرد و پیش کی جھلک نظر نہ آئے۔ ماسوا ایسے افراد کے جو مشقّت کے طور پر کچھ تحریر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اربابِ فکرونظر نے اُردو کے اوّلین ادیبوں اور قلمکاروں کی تحریروں سے بھی اُن کے دَور کی سیاسی، سماجی اور معاشرتی حقائق اخذ کئے ہیں۔ اس ادبی روایت کی طرف فیض احمد فیضؔ نے بھی اشارہ کیا ہے، فرماتے ہیں
جان جائیں گے جاننے والے
فیضؔ فرہاد و جم کی بات کرو
ہر زمانہ اپنے لکھنے والوں سے پہچانا جاتا ہے۔ بعض ادیبوں کا تخلیقی سرمایہ یا ان کی اہم تر کتابیں اس قدر وسیع الشان اور محیرالعقل معلوم ہوتی ہیں کہ ہم خود بخود ان کے لیے مظاہرِ قدرت سے مخصوص الفاظ استعمال کرنے لگتے ہیں۔ جیسے پہاڑی چوٹیاں، دریا اور سمندر………… سلیمیؔ صاحب کے ہمزاد بسمل فکری کا کیا کہنا۔ سرشام اُن کی آمد کے ساتھ غم و خوشی کی ملی جلی کیفیات کا اظہار، اُن کے ساتھ طویل بحث، معاشرتی ناہمواری پر گریہ و زاری اور ان مسائل کے لیے دلچسپ تجاویز یقیناًنئی پود کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
سلیمیؔ صاحب کی اکثر تحریروں میں ان کی پہلی کتابوں ’’شکست آرزو‘‘ اور ’’دشت آرزو‘‘ کی کسک موجود ہے۔ ان میں جہاں یاس ہے، تشنگی ہے، محبت ہے، جمال ہے وہاں ایک تھکی تھکی سی آس کا بھی گمان گزرتا ہے۔ یہ مصنّف کی ذات کی بھول بھلیاں ہیں یا کھوئے ہوؤں کو یاد کرنے کا ایک بہانہ………… کہ شام ہوتے ہی کہرام مچ جاتا ہے۔ کھوئے ہوؤں کی یاد تڑپاتی ہے۔ اب ذرا بادل چھٹنے لگے۔ سلیمیؔ صاحب اپنی کتاب کے صفحہ 32؍ میں ’’ماتم یک شہر آرزو‘‘ کے عنوان سے رقم طراز ہیں:۔
’’یہ جذبے جن میں کبھی شعلوں سی لپک ہوتی ہے تو کبھی شنبم سی ٹھنڈک، کبھی بے بسی تو کبھی بے دلی، کبھی اُداسی چراغاں کی طرح دِل کی منڈیروں کو روشن کرتی ہے تو کبھی سرگوشی چاندنی کی طرح دِل کے صحراؤں کو جگمگ کر دیتی ہے۔ کبھی یہ خیال کی نرمی سے پگھلتے ہیں تو کبھی تصورِ جمال کی گرمی سے سلگنے لگتے ہیں، کبھی ان سے گرمیوں کی شامیں لالہ زار بن جاتی ہیں تو کبھی سردیوں کی چمکتی دوپہریں مسالہ دار بن جاتی ہیں۔ یہ جذبے کبھی چاندنی راتوں میں چاند چہرہ بن جاتے ہیں تو کبھی اماؤس کی بے چاند راتوں میں چراغِ رُخِ جاناں…………‘‘
پھر ’’شام اور بسمل فکری کا کہرام‘‘ کے عنوان سے صفحہ 113؍ پر لکھتے ہیں:۔
’’شام سمے بھی کیا غضب ہوتا ہے۔ ہر ادا قاتل، ہر کیفیت سوز و ساز کی حامل، کبھی یاد قرار بن جائے تو شام مہک اُٹھتی ہے اور جب یہ یادیں قرار چھین لیں تو یہی شام سلگ اُٹھتی ہے۔ یہ شام سمے کبھی سکوتِ جاں میں بھونچال بپا کردیتے ہیں۔ کبھی ان سے آتش بہ داماں دِل دھمال کرنے لگتا ہے۔ ایک دِل اس کے بے شمار ڈھنگ، ایک شام اس کے بے شمار رنگ۔ دِل ہر ڈھنگ میں داغ دار، شام ہر رنگ میں کاٹ دار، دِل کا دامن جتنا جتنا بھر دو، خالی خالی ہی رہے گا اور شام کا دامن کبھی خالی نہیں رہتا، ہمیشہ سلگتا ہی رہتا ہے۔ دِل زندہ ہو تو شام کے رنگ گہرے ہوتے ہیں۔ دِل افسردہ ہوتو شام کے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں۔‘‘
مندرجہ بالا اقتباسات پر سلیمیؔ صاحب کی دانش و بینش دونوں کی گواہیاں ثبت ہیں، صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کائنات کا مشاہدہ توجہ سے کرتے ہیں اور حواسِ خمسہ کے وسیلے سے جو کچھ حاصل کرتے ہیں اسے اپنے غور و فکر کا جزو بنا لیتے ہیں۔ یہی نہیں غور و فکر کے بعد وہ اپنے حسی تجربوں کو لاشعور کے خانے سے اُٹھاکر شعور کی سطح پر لاتے ہیں اور انہیں فن کاری کے درجے پر فائز کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اس ہنرمندی کی نمائش میں کوئی دقّت نہیں ہوتی۔ اپنی تحریروں کی بنت کاری میں خصوصاً مجھے اور سلیمیؔ صاحب سے لوگ شاکی ہیں کہ ہم دبے الفاظ میں اپنے محبت کا اظہار کرتے ہیں اور برملا کرتے ہیں۔ ان کے بقول ہماری تحریروں میں چاند چہروں اور ستارہ آنکھوں کا تذکرہ کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ مجھ سے تو کچھ زیادہ شاکی ہیں کہ میں نے جو دیکھا، سنا، محسوس کیا وہ صفحۂ قرطاس پر منتقل کر دیا۔ تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے کہ مجھ کو ملنے والی اس چھوٹی سی زندگی میں دُکھ درد کے سوا ملا ہی کیا ہے؟ نگاہیں جو دیکھیں گی، دِل پر جو گزرے گی، احساس پر جو بیتے گی اور ذہن جو محسوس کرے گا وہی تو لکھا جائے گا نا؟ اس میں میرا کیا دوش………… شاید مجھے اور میرے دوست سلیمیؔ صاحب کو بقول احمد فرازؔ محبتیں کرنی ہی نہیں آئیں۔ فرازؔ کہتے ہیں
یہ کیا کہ سب سے بیاں دِل کی حالتیں کرنی
فرازؔ تم کو نہ آئیں محبتیں کرنی
المختصر………… ’’حدیث دِل‘‘ قرطاسِ ابیض پر احمد سلیم سلیمیؔ صاحب کے قلم سے ثبت ہونی والی ایک شاہکار کتاب ہے۔ بس میری دُعا ہے کہ میرے بہت ہی پیارے دوست سلیمیؔ صاحب کو خداوند علم و ادب حاسدوں کی نظربد سے بچائے اور وہ اپنی شاہکار تحریروں سے وطنِ عزیز کی نظریاتی سرحدوں کی پاسبانی کرتے رہے۔
این دُعا از من و از جملہ جہاں آمین باد!