غیرآئینی جمہوریت کے پانچ سال
2009سے پہلے گلگت بلتستان شمالی علاقہ جات کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ اُسوقت چونکہ سوات اور اس سے ملحقہ علاقوں میں طالبان کا اثر رسوخ تھا جس کی وجہ سے ملکی و بین الاقوامی میڈیا اُن شورش زدہ علاقوں کو ناردن ایریاز کے نام سے پکارتے تھے اس وجہ سے گلگت بلتستان کی ثقافت سیاحت اور معاشرے پر کافی منفی اثر پڑا۔ لیکن سلیف امپاورمنٹ آرڈر کے بعد ایک طرف خطے کے نام کی تبدیلی کے حوالے سے مثبت پیش رفت ہوئی تو دوسری طرف یہاں کے باسی اس امید میں تھے کہ شائداعلان کے بعد عوام کی زندگیوں میں بھی کچھ تبدیلیاں آئیں گے کیونکہ خطے کی بجٹ میں بھی پہلے کی نسبت خاطر خواہ اضافہ کیا گیا تھا تاکہ نئے سیٹ اپ کی عمل درآمد کیلئے کوئی مالی مشکلات پیش نہ آئے۔ اس پیکج کے حوالے سے یہ بھی بتایا گیا کہ خطے کوپاکستان کے پانچواں صوبے کا درجہ ملا ہے لہذا اب یہاں ترقی اور تعمیر کی نئی راہیں کھلیں گے ۔دوسری طرف کشمیری رہنما سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس لالی پاپ کے خلاف سراپا احتجاج رہے کیونکہ انہی لوگوں نے 1949میں عوام کی مرضی کے بغیرکشمیر کی استصواب رائے میں ووٹ بڑھانے کی خاطر معاہدہ کراچی کے ذریعے ایک آذاد اور خود مختار خطے کو دوبارہ قید کیا تھا۔
جو لوگ کل تک گلگت بلتستان جانے والی راستوں کا بھی خبر نہیں رکھتے تھے مگر اس اعلان کے بعد خطے پر ایک نئے سرے سے دعوے کرنے لگے کیونکہ یہی عناصر اس یقین سے بیٹھے تھے کہ انہوں نے گلگت بلتستان کو مسلہ کشمیر کے تصفیے تک کیلئے قید کیا ہے لہذا کوئی بھی گلگت بلتستان کو انکی چنگل سے آذاد نہیں کرا سکتا۔ لیکن صدر زرادری کی محبت یا حکومت پاکستان کی مجبوری کہیں یا یہاں پر بڑھتی ہوئی انقلابی تحریکوں کے پیش نظر گلگت بلتستان کیلئے صدارتی آرڈنینس کے ذریعے داخلی خودمختاری کا اعلان ہوا۔ ان تمام معاملات میں اُس محسن گلگت بلتستان کا بھی بڑا کردار رہا جو ہر وقت ملکی اور غیرملکی فورم پرخطے کی ترجمانی کرتے رہے ہیں لہذایہاں کے عوام کو محترم افضل شگری جیسے محب وطن غیر سیاسی شخصیت کی خطے کیلئے خدمات کو فراموش نہیں کرناچاہئے۔
قصہ مختصر غیر آئینی صوبے کی اعلان کے بعد گلگت بلتستان میں پاکستان پیپلزپارٹی نے حکومت بنائی پہلی بارخطے کیلئے وزیراعلیٰ اور گورنر کی منتخب کا اعلان ہوا قانون ساز اسمبلی میں نشست کا اضافہ ہوا ہر طرف پھولوں کی بارش ہو رہی تھی لوگ خوشی سے پھولے نہیں سماء رہے تھے یوں پاکستان پیپلزپارٹی کا ایک جیالا محترم سید مہدی شاہ صاحب کو پارٹی طویل سے وفاداری کے سبب گلگت بلتستان کا پہلا وزیر علیٰ بننے کا اعزاز ملا۔اس سلیکشن سے اہل گلگت میں ناراضگی بھی دکھائی دی کیونکہ گلگت میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بلتستان کے کسی وزیر یا مشیر کے ماتحت رہنا پسند نہیں کرتے تھے لیکن پارٹی پالیسی کی وجہ سے مجبور ہوئے یوں تمام تر مبارک بادیوں کے بعد ایک نئے نظام کی تشکیل کا عمل ایک چلینج تھا ۔ لہذا وزیرعلیٰ صاحب نے اپنی کابینہ میں شامل چند لوگوں کو اپنے معتمدین میں شامل کیا کیونکہ شاہ صاحب جیالا ضرور تھا مگر حکومتی امور چلانے کے طریقہ کا رسے بلکل ناآشنا تھے۔ان کی نا تجربہ کاری کو مشیران نے خود غرضی کیلئے استعمال کیا اور شاہ صاحب کو گڈ گورنینس کے بجائے کرپشن اور اقرباء پروری کے نت نئے طریقے سکھا دئے جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کے عوام کی وہ سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔اسکے علاوہ 2009 پیکج کے بعد اس خطے میں امن مان کی صورت حال بد سے بدتر ہوتے گئے اس خطے کے عوام کو کئی بار اپنے عزیزوں کی گردن کٹی لاشیں اُٹھانی پڑی لیکن کوئی ملزم کیفرکردار تک نہیں پونچ سکے بلکہ کچھ مجرموں کوپکڑنے کے بعد بھی رہائی مل گئی۔ اسی طرح تعلیم کے ادارے میں غیرقانونی بھرتیوں نے پارٹی کی ساکھ کو بلکل تباہ کردیا۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ مہدی شاہ سرکار نے خطے کے حوالے سے پی پی پی کی خدمات کا بلکل بر عکس کام کیا کیونکہ قائد عوام شہید ذولفقار علی بھٹو کے دور میں یہاں سرکاری اسکولوں کا جال بچھایا تھا لیکن جیالوں نے علم دشمنی کی انتہا کر کے تعلیم کو کاروبار کا درجہ دیاسرکاری سکولوں میں بنیادی سہولیات تو کہیں دیکھنے کو تو نہیں ملاالبتہ جہاں کہیں بھی رجسٹرڈ سرکاری اسکول نظر آئے وہاں رشوت کے عوض ضرورت سے ذیادہ بھرتیاں کی گئی اسی طرح دوسرے سرکاری محکموں میں نوکریوں کی بندر بانٹ لگا دی لیکن غریب پڑھے لکھے لوگ اپنے حق سے محروم رہے۔
اگر سیاحت کی بات کریں توجیسے اوپر ذکر کیا کہ اس صنعت پر سوات آپریشن اور میڈیا کی غلط رپورٹنگ کی وجہ سے بہت منفی اثر پڑا تھا لیکن امید کی جارہی تھی کہ حکومت اس صنعت کی بہتری کیلئے کچھ ٹھوس اقدامات کریں گے کیونکہ اس صنعت سے براہ راست یہاں کے عوام کی معیشت جڑی ہوئی ہے مگر اس حوالے سے بھی ناکام رہے ۔اگرحکومت سیاحت کی ترقی کے حوالے کچھ اقدامات کرتے تو خطے کی معیشت کے ساتھ پاکستان کی معیشیت پر بھی مثبت اثر پڑھ سکتا تھا لیکن یہاں کی سرکار کو کرپشن سے فرصت نہیں ملا۔اگر قومی ثقافت اور ورثے کی بات کریں تو یہاں کی ثقافت اور کلچر ایک انمول خزانے کی طرح ہے جس کے ذریعے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو خطے کی طرف متوجہ کر ایا جا سکتا تھا کیونکہ اس خطے کے تمام ریجن الگ ثقافت الگ رنگ کے ساتھ ایک منفرد حُسن رکھتی ہے لیکن یہاں کی ثقافت کو اجاگر کرنے میں بھی ناکام رہے۔ ترقی اور تعمیر کے حوالے سے بات کریں تو یہاں پر مختلف یونیورسٹیوں کے قیام کے حوالے سے کافی اعلانات ہوئے لیکن عمل درآمد نہیں ہو سکا ۔ جو اعلانات سکردو اور گلگت سٹی کے حوالے سے کئے گئے تھے وہ بھی داخل دفتر ہوگئے،سکردو گلگت روڈ کی اگر بات کریں تو اس روڈ کی خستہ حالی حکومتی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے یہ روڈ بلتستان ریجن کیلئے ایک اہم حیثیت رکھتی ہے مگر حکومت کی نظر سے اوجھل رہے جو کہ ایک بہت بڑا المیہ ہے ۔اسکے علاوہ بجلی کے حوالے سے بات کریں تو میڈیا رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان میں بجلی پیدا کرنے کے کثیر مواقع موجود ہے جس کے ذریعے پورا ملک کو مستفید ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ سوچ تو بہت دور کی بات ہے یہاں تو اپنے ہی خطے کے عوام کو بجلی فراہم کرنے ناکام رہے کیونکہ اس حکومت میں ترقی اور تعمیر کا کوئی سوچ ہی نہ تھااور ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ آنے والی حکومت کا حال بھی یہی ہوگا کیونکہ وہاں بھی یہی لوگ وفاداریاں بدل کر اکھٹے ملیں گے ۔ اگر دیکھا جائے تو کسی بھی معاشرے کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات کومعاشرتی ترقی میں شامل کرکے اقدامات کریں معاشرے کی ہر اکائی جب اپنا کردار ادا کر رہا ہوتا ہے تب جاکر وہ معاشرہ ترقی یافتہ کہلاتے ہیں مگر لگتا ہے یہ سبق ہمارے وزراء کو پڑھایا ہی نہیں گیا ۔ لیکن ہم نے خطے کے ایسے علاقوں کے بارے میں پڑا اور دیکھا جو اسی نظام میں رہ کر محدود معاشرتی ترقی میں یہاں کی حکومت کیلئے مشعل راہ ہے ۔
وادی ہنزہ ویسے تو کسی تعارف کے محتاج نہیں لیکن اس علاقے کی معاشرتی خوبیوں کو بیاں کرنا ضروری ہے کیونکہ شائد گلگت بلتستان کے بہت سے قارئین کو معلوم نہیں کہ اس معاشرے میں جہاں بچے سے لیکر بوڑھے تک انفرادی طور پر معاشرتی ترقی میں کردار ادا کر رہا ہوتا ہے جہاں تعلیم یافتہ خواتین بھی بڑے فخر کے ساتھ ترکھان کا کام سیکھتے ہیں جہاں اسکاوٹنگ کا ایک منظم سسٹم ہے جو معاشرے کے ہر نظام پر گہری نظر رکھتے ہیں،علاقائی تعمیر میں ہنزہ کے لوگ ایک دوسرے سے بڑھ کر کام کرتے ہیں انسان کی مذہب اور فرقے سے ہٹ کر عزت کی جاتی ہے تعلیم کے ہتھیار کو زیور بنایا ہوا ہے حالانکہ ہنزہ بھی اسی گلگت بلتستان کا حصہ ہے لیکن کبھی کسی کام کیلئے حکومت کا انتظار نہیں کرتے ۔مگرحکومتی ذمہ داریوں کی بات کریں تووفاق پرستی، پارٹی مفاد ،فرقہ پرستی اور اقرباء پروری میں پانچ سال گزار دئے جس کی وجہ سے گلگت بلتستان ترقی کے بجائے پستی کی طرف جارہے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم نئے اضلاع کی قیام کے حوالے سے بات کریں تو کھرمنگ اور شگر اضلاع کا اعلان ہونے کے بعد عمل درآمد نہیں ہوسکا لیکن اس ناکامی کو بھی کامیابی کی ابتداء کا نام دیکر یہی لوگ ایک بار پھر عوام سے ووٹ مانگنے کی تیاری میں مصروف ہے۔