کالمز

دیامر کی ڈائری۔۔۔

تحریر ۔محمد قاسم

 ضلع دیامر 1973میں معرض وجود میں آیا.اس سے قبل اسکی تقدیر کے فیصلے  گلگت ایجنسی میں ہوا کرتے تھے.اس ضلع کی بدنصیبی کے دروازے جو 1973 میں کھلے تھے بدقسمتی سے آج تک بند نہیں ہو سکے. وقت کے ساتھ ساتھ اسٹور کوضلع اور داریل اور تانگیر کو  بھی الگ الگ تحصیل کا درجہ دیا گیا.  مختلف ادوار میں بیوروکریٹس، سیاسی و مذہبی ،پنڈتوں نے اس ضلع کی تعمیر و ترقی کے لبادے کا گرین کاڑد خوب استعمال کیا.اور چورن و منجن بیچنے اور منافع کمانے کا لا متناہی سلسلہ جاری رکها .

 پانی ،صحت ، تعلیم اور بجلی انسانی زندگی کی بنیادی ضروریات ہیں ان کے بغیر انسان کو اپنی طرز زندگی گزارنا نہایت ہی مشکل اور دشوار ہوتاہے. مگر اس لاوارث ضلع کے مکینوں کے ساتھ سوتیلی ماں کا جیسا سلوک روز اول سے ہنوز جاری و ساری ہے. اس جدید دور میں بھی یہاں کے باسی اپنی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں.   ملک کے بیشتر علاقوں کو سیراب کرنے والے دریائے سندھ کے ساتھ رہایش پذیر چلاس کے شہری اس جدید دور میں بھی پانی  کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور پانی خرید کر پینے پر مجبور ہیں. پانی کی فراہمی کے حوالے سے منظور شدہ حکومتی منصوبے ٹھیکداروں اور محکمہ ورکس کی ملی بھگت اور عدم دلچسپی کی وجہ سے دس سالوں سے تعطل کا شکار ہیں.اس شہر نامراد میں بجلی کا محکمہ تو ہے پر بجلی نہیں. تعلیم کے حصول کے لئے عمارتیں تو شاندار ہیں پر معیاری تعلیم فراہم کرنے والے مدرسین کو خود ا ،ب ،ج د کا پتہ نہیں اس  مقدس شعبے کے ” ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے .انجام گلستاں کیا ہو گا” کے مصداق آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے محکمہ صحت میں 100 بیڈ ہاسپٹل کی زبوں حالی کے قصے بیان کروں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے. اور در و دیوار بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ پتہ نہیں ہر محکمے میں تعمیر و ترقی کے نام پہ آنے والے سالانہ اربوں کے فنڈز  کب کدھر کہاں اور کیسے خرچ ہوتے ہیں. اس کا آج تک کچھ پتہ نہیں چلا۔

سیاست جو خدمت انسانیت کا عظیم شعبہ مانا جاتا ہے. مگر انسانی خدمت کے اس ساکت سمندر کو سیاسی مگرمچھوں نے  تعصبیت، لسانیت، علاقائیت کے تعفن سے بدبو دار کردیا. دیامر کی آبادی کا اکثر حصہ چار قوموں پر اور قانون ساز اسمبلی کے 4 انتخابی حلقوں پر  مشتمل ہے شین، یوشکن کمن اور غیر مالک یہاں کے اکثریتی آبادی پر مشتمل ہیں.سیاسی اور مذہبی مگرمچھوں نے اپنی سیاسی مذہبی دوکان چمکانے  اور ذاتی مفادات کے حصول کےلئے یہاں کے سادہ لوح عوام کو بےوقوف بنانے کے لئے بہت سارے  نایاب نسخے استعمال کر کے قدم قدم پہ لسانیات  اور علاقائیت کے  جھنڈے گاڑ میں  کامیاب ہوئے ۔

 چلاس ہیڈ کوارٹر میں ماضی کے سیاسی دنگل میں کوئی ذات پات کا وجود نہیں تھا. گزشتہ 10 سالوں میں اس حلقے کی سیاست بھی تعصب کی بھنیٹ چڑھ گئی اور ایک دہائی سے باہمی شیر و شکر بنے  لوگ ایک دوسروں کے خون کے پیاسے ہو گئے. دیامر  کے ہیڈکواٹر چلاس کی سیاست میں نظریہ ضرورت کا فارمولہ عین وقت پہ استعمال کیا گیا اور تعصب کو اتنا پروان چڑھایا گیا کہ   لوگ دیوانہ وار تعصبی محبت کا شکار ہوتے چلے گئے.داریل میں شین یشکن کی سیاست کو ذندہ رکھنا وہاں کے مذہبی اور سیاسی لوگوں کی ضرورت ہے البتہ تانگیر میں وہاں کے قد آور سیاسی شخص نے نظریہ ضرورت کے تحت کچھ لو اور کچھ دو کےفارمولے کے تحت  تعصب کا خاتمہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے کے فارمولے کی چھتری میں اپنی زاتی  مفادات  کو سامنے رکھ کے کیا. یوں شین شکن  کے بلند و بالا نعرے یک دم خاکستر ہو گئے . غالب مرحوم کا شکوہ ایک بار پھرثابت ہوا . . "ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے”

 تهک اور گوہر آباد کے حلقے کی سیاست علاقائیت  کا تصور  پیش کرتی آرہی تهی اب یہاں بهی  تعصبی فصل کی کاشت کاری کے لئے  زرخیز اور موضوع زمین مناسب نرخوں پر ملتى ہے. ..

 مگر ا اس بہتی گنگا میں مذہبی پنڈت  بھلا کیسے پیچھے رہ سکتے تھے ایک ہی فرقے کے لوگ ہونے کے ناطے اس شہر نامراد میں مذہبی چورن،  منجن بیچنے کا کوئی بھی گاہک موجود نہیں تھا. عوامی نظریات اور خیالات کے نفس کو پکڑ کے مالک ‘غیر مالک اور علاقائی سطح کے چھوٹے مسائل کو  طول دے کر خوب داد وصول کی . یوں بٹوخیل اور سونی وال ، تهکوچے اور بوٹے نام کے ٹولے ان ہی کےمحنت سے معرض وجود میں آے.جب  اللہ ایک’ کلمہ ایک،قرآن ایک، رسول ایک،یہاں تک مسلک بھی ایک تو یہ مارو اور شہید ہو جاو کا جنون ان ناسمجھ اور کم فہم سادہ لوح لوگوں کے منہ میں  مذہبی حلقوں نے ٹهونسا. یہ عجیب کهلا تضاد ہے

 یہاں پہ ہر قوم اور ہر علاقے کے مذہبی ٹھیکیداروں نے اپنی الگ الگ مذہبی دوکان کھولنے سے گاہکوں کی لائن لگی ہوئی ہے اور قدم قدم پہ نفرتوں اور کدورتوں کی رانگ نمبر ڈائل کرتے رہتے ہیں۔ اور سادہ لوح عوام کے خوں پسینہ کی کمائی چٹکی میں سمیٹ کر دولت شہرت اور عزت کا مقام راتوں رات سمیت لیتے ہیں.

اب تانگیر میں سیاسی مقاصد کے لئے جب فائدہ نظر آیا تو  شین یشکن کا تصور ختم کرنے کا ڈرامہ سیاسی پنڈتوں نے کر دیکھایا .اور چلاس میں شین یشکن  مالک غیر مالک کرنے میں بہتری ہے جو پوری ہمت وطاقت کے ساتھ جاری ہے.جب تک یہاں بھی نظریہ ضرورت کا فارمولا درکار نہ ہوگا.. نام نہاد سیاسی لیڈر تعصبی بیچ بوتے رہینگے اور سیاسی زندگی کو دوام  بخشنے رہینگے. .

جس ضلعے میں علاقایت  تعصبیت اور مذہبی پنڈت صرف اور صرف اپی زات کی حد تک  محدود ہوں اور عوام میں نفرتوں کی دیواریں تعمیر کرنے کے فن سے ماہر ہوں آفیسر صرف اور صرف مال بنانے اس ضلعے آتے ہوں اور عوام دیہاڑی مار ہوں. وہ ضلع کیا خاک ترقی کرے گا…

یہ در و اپنے براہیم کی تلاش میں ہے

صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ

اگرچہ بت ہیں جماعت کے آستینوں میں

مجھے ہے حکم ازاں لا الہ الا اللہ

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button