علمی تبصرہ یا علمی خودکش حملہ!
تحریر۔ محمد نذیر خان
(غالبا )ضمیر جعفری نے کسی اناڑی مستری اور ناتجربہ کار معمار کا رونا روتے ہوئے بہت پہلے کہا تھا :
تری تربت پر مٹی کے گراں تودوں سے ظاہر ہے
کہ تو جو شئے بناتا تھا ، بہت بھاری بنا تا تھا
جہاں نصف اینٹ لگتی تھی، وہاں پتھر لگا تا تھا
نمک دانی بنانی ہو ، تو ا لماری بناتاتھا
مرحوم نے تو خیر مستریوں اور معماروں کی خبر لی تھی اور عین ممکن ہے کہ مرحوم کو اس طرح کے کسی ،،صاحب خیر،، سے پالا بھی پڑا ہو، جبکہ ہمیں اس کا تجربہ تو تاحال نہ ہو سکاالبتہ کھبی کبھار اخبارات اور نومولود رسائل میں ،،کچھ مبصرین کے ،،تبصرے ،، پڑھ کے محسوس یو ں ہوتاہے، کہ آج کل گلگت بلتستان کے ادبی اور تحریری افق پربھی مسلسل اسی "نمک دانی بنانا ہو تو الماری بناتا تھا”! طرح کے کارہائے نمایاں سرانجام دئے جارہے ہیں ! اور میرے جیسے ناتجربہ لکھاری جن کو ابھی اس میدان میں تشریف لائے ہوئے بمشکل جمعہ جمعہ اٹھ دن ہی ہوگئے ہیں، جو بمشکل ،،جبہ و دستار،، سنھبالے ،قلم چلاتے ہیں،پوری جرات بلکہ ڈھٹائی کے ساتھ مستند اہل علم اور برسہابرس سے قلم وقرطاس سے وابستہ لوگوں کی اصلاح،، فرماتے دکھائی دے رہے ہیں! اور صرف یہی نہیں بلکہ بے ہنگم الفاظ ،بے ربط جملے اور غلط سلط اردو کا منگل بازار سجاکر ،،دانشمندان فیس بک ،، کے سامنے پیش کرتے ہیں، اور ان سے داد وصول کرنے کیلئے ،،آج کے روزنامہ ۔۔۔میں فلاں۔۔۔کا ایک ادبی علمی اور زبردست کالم ،کا عنوان بھی لگادیتے ہیں اور کبھی کبھار تو نوبت بہ ایں جا رسید کہ ساتھ میں اپنی ایک آدھی تصویر بھی لگادیتے ہیں ۔۔۔فلاں۔۔۔ ،،مشہور زمانہ کالم ،نگار خانہ خود میں فروکش خامہ فرسائی فرمارہے ہیں! ،حالانکہ صرف چند تحریرین لکھ مارنا،یا کچھ جملے ،الفاظ رٹ لینا (یا کہیں سے ،،بطور حفاظت،، اٹھالینا) ہی کافی نہیں بلکہ ان کا استعمال ،موقع محل، اور طرفین (لکھاری اور جس کے بارے میں لکھ رہا ہے)کا قد کاٹھ بھی دیکھنا ضروری ہوتا ہے، ورنہ اہل دانش اس طرح کی تنقیدات اور تبصروں کو ،،ایڑیاں اٹھاکرقد اونچا،، کرنے سے تعبیر کرتے ہیں، کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ علمی وادبی اصطلاحات ،جملے اورتعبیرات اگر اپنے حقیقی محل استعمال کھو جائیں ،تو وہ فلمی ڈائیلاگ بن جاتے ہیں ،جو کسی مووی میں تو چل سکتے ہیں ،لیکن میدان علم وادب میں نہیں! اسی طرح اگر کوئی شخص ادبی الفاظ یاخوبصورت تعبیرات تو یاد کرلے لیکن ان کے موقع محل سے کما حقہ اشنا نہ ہو یا اس بات کا علم نہ رکھتا ہو کہ کون سا جملہ کہا ں استعمال کرناہے تو ظاہر ہے کہ اس کی مثال اس مستری جیسی ہوتی ہے جس کے پاس خوبصورت پتھروں کا ذخیرہ تو موجود ہود ہو لیکن اس کو یہ معلوم نہ ہو کہ ان کو کہاں اور کتنا لگانا ہے ؟ تو ایسے میں جہاں اپنی علمی غربت کا احساس ہونے لگتا ہے وہاں اپنی اور اخلاقی پسماندگی کا غم بھی گھیر لیتا ہے، اور محسوس ہوتاہے کہ اب ہماری زبان وقلم صرف آزادنہیں،بلکہ بے لگام بھی ہوئے جارہے ہیں، جن کو کسی انسان تو کیا خوف خدا اور یوم حشرکی گرفت کا بھی پاس نہین رہتا، دوسری طرف اخبارات والوں کی بھی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ اس کمر توڑ مہنگائی کے زمانہ میں باقاعدہ کسی لکھاری کے ناز نہیں اٹھا سکتے اس لئے مفت میں لکھی جانے والی ایسی تحریروں سے صفحات پورے کر لیتے ہیں!
آج اپنے ایک نہایت بے تکلف دوست جو اس طرح کے ،،کارخیر ،،میں ثواب کا کام سمجھ کر ،بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں سے میسیج لکھ دریافت کیا کہ : جناب اس تبصرہ نگاری کے کوئی اصول وضوابط بھی ہوتے ہیں،یا نہیں؟ ذرا چند ایک مجھے بھی بتادیجئے ،تو حضرت نے جواب میں جو لکھا ، وہ واقعی ،آب زر نہیں بلکہ ،،تیزاب ،، سے لکھنے کے قابل تھا،
فرمایا:صاحب ! میں تو بغیر کسی چیز(شرط ،ضابطہ ) کے لحاظ کئے جو جو دل ودماغ میں آئے لکھ دیتاہوں،پھر بنیادی طور پر پورا معاشرہ اپنی تعریف چاہتاہے ،اور ہھر مصنفین و موئلفین کابھی یہی حال ہے ،۔۔۔۔ چند سطروں کے بعد اپنی ناواقفی کوچھپاتے ہوئے یوں گوہرافشانی فرماتے ہیں: پھر تبصرے اخباری کالموں میں الگ نوعیت کے ہوتے ہیں،رسائل میں الگ، اورکتابوں کی تقریب رونمائی میں الگ قسم کے مجھے تو بس مشفق خواجہ اور عطا ءالحق قاسمی کے تبصرے اچھے لگتے ہیں جن میں کیونکہ وہ دونوں پہلووئں کوملحوظ رکھتے ہیں،۔۔۔۔!
ایک اور اسی طرح کے باتوفیق مبصر سے پوچھا:جناب یہ بتادیجئے کہ تبصرہ کیلئے مصنف کا اپنی کتاب کو اپ کے پاس بھیجنا ضروری ہے یا نہیں ؟
جوابا گویا ہوئے ، مفتی ! تم کبھی اپنی فقہ اور فتوی کے خول سے باہر نہیں نکل سکتے ! بھلا اس میں کسی کی اجازت یا خواہش کی کیا بات ہے ، اٹھاﺅ کتاب اور دوچار ورق پڑھ کے لکھ دوتبصرہ ۔۔۔ جب چھپے گا تو پتہ چل جائیگا! ہاہاہا،سمجھے !
مجھے اپنے ان دونوں دوستوں کی اس "صاف گوئی اور اقبال جرم” پر خوشی بھی ہوئی اور تعجب بھی ، کیونکہ انہی میں سے ایک نے میری ایک پرانی کتاب کے پس ورق پر یہ دستی حاشیہ چڑھایاتھا:۔۔۔بھائی تین چیزیں ہمیشہ سوچ سمجھ کر اٹھاﺅ،قدم ،قسم اور قلم!
اس لئے میری اپنے اصحاب قلم سے مودبانہ گذارش ہے کہ وہ ضروراپنی نگارشات اور رشحات قلم منظر عام پہ لائیں،خوب لکھیں،باربارلکھیں،لیکن ایڑیاں اٹھاکر قد اونچاکرنے کی کوشش نہ کریں،اور نہ اپنی شخصیت کی بنیادکسی کی آبرو پہ رکھیں، ورنہ پھر علم وادب کے اس حسیں گلستاں میں بھی نفرتوں کی جھاڑیاں اگیں گی،اور شوخی تحریر ،ادبی تبصرہ کی بجائے ،تیجة ،،علمی خودکش حملہ،،ہوگا!
تازہ ہوا کے شو ق میں اے ساکنان شہر
اتنے بھی درنہ بناﺅ کہ دیوار گرپڑے!
نوٹ! میری اس تحریر کا میرے پیارے دوست ،،امیرجان حقانی، کے تبصروں سے کوئی تعلق نہیں! قارئین خوب اطمینان کرلیں ورنہ بعد میں ،،کمپنی ،، کسی بات کی ذمہ دار نہ ہوگی!