عوامی ایکشن کمیٹی، وفاقی حکومت اور مہدی شاہ کے اختیارات
عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے زیر اہتمام تاریخی احتجاجی دھرنے کو آج تقریبا چار دن ہوگئے، گلگت، سکردو ، گانچھے، استور، ہنزہ نگراور دیامر میں روز بروز دھرنے کے شرکاء کی تعداد بڑھتا جا رہا ہے، گندم سبسڈی کی بحالی اور دیگر مطالبات پر مبنی 9نکاتی چارٹر اآف ڈیمانڈ کی منظوری تک عوام گھروں میں لوٹ جانے کو تیار نظر نہیںآرہے۔ مطالبات تو ہر صورت میں منظور ہو ہی جائیں گے لیکن عوامی ایکشن کمیٹی کی جدوجہد سے ایک لمبے عر صے کے بعدگلگت کے اندر مذہبی منافرت اور قتل و غارت گری سے متاثر شیعہ،سنی ، اسماعیلی اور نور بخشی مسلمانوں نے ایک ساتھ ایک صف میں اور ایک امام کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز ادا کی جس سے یہ ظاہر ہوا کہ گلگت بلتستان میں ایک عرصے سے ہونے والے مذہبی فسادات گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق سے دور رکھنے کے لئے مسلط کردہ حکمران اپنی مرضی و منشا سے کراتے ہیں تاکہ عوام آپس میں دست و گریباں ہو اور حکمران حکمرانی اور حکومت کے مزے لوٹتے رہے لیکن حکمرانوں کی اس بد دیانتی کو عوامی ایکشن کمیٹی نے ناکام بنا دیاجو کہ گلگت بلتستان کے عوام کی تاریخی کامیابی ہے جس پر عوامی ایکشن کمیٹی میں موجود تمام قوم پرست ، ترقی پسند ، مذہبی اور سیاسی جماعتیں خراج تحسین کے مستحق ہے۔
قارئین کرام ؛ اس تاریخی احتجاجی مظاہرے کے بعد سیلف گورننس آرڈر 2009 کا اصل چہرہ بھی بے نقاب ہوگیا اور اس کے علاوہ ایکشن کمیٹی کے دھرنوں نے نام نہاد وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے بلند و بانگ دعوے کو بھی عوام کے سامنے بے پردہ کردیا۔ اس موقع پر نام نہاد صوبہ گلگت بلتستان کے نام نہاد وزیر اعلیٰ مہد ی شاہ کاوہ بیان میرے ذہن کے سکرین پر بار بار ظاہر ہو رہا ہے ، وزیر اعلیٰ موصوف نے اپنے ایک اخباری بیان میں کہا تھا کہ وہ گلگت بلتستان کا باختیار وزیر اعلیٰ ہے اور اس کے پاس پاکستان کے دیگر صوبوں کے وزیر اعلیٰ کی طرح وہ بھی اپنی مرضی سے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ یوں تو سید مہدی شاہ ہوائی باتیں بہت کرتا ہے لیکن اس کا یہ بیان گزشتہ دنوں ظاہر ہی ہو گیا کیونکہ گندم سبسڈی کے معاملے پر ان کا رد عمل ایک بھکاری کی طرز کا تھا ، انہوں نے گزشتہ روز یہ واضح طور پر کہہ دیا کہ گندم سبسڈی خاتمے کا فیصلہ گلگت بلتستان حکومت کا نہیں بلکہ وفاقی حکومت کا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے قومی اسمبلی اور سینٹ میں گلگت بلتستان کی نمائندگی ہی نہیں تو وفاق میں بیٹھنے والا کوئی وزیر ، ایم این اے یا ایم پی اے گلگت بلتستان کی تقدیر کا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے لیکن گلگت بلتستان کے نام نہادعوامی نمائندے بالخصوص وفاق پرستوں کی نا اہلی ، نالائقی ، اور شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری نے گلگت بلتستان کو پاکستانی حکمرانوں کا چراگاہ بنا دیاہے۔ اس کے علاوہ چار دنوں سے جاری ان دھرنوں نے یہ بھی عیاں ہوگیا کہ پاکستان کے حکمران گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ کتنا مخلص ہے؟ مجھے حیرانگی اور افسوس اس بات کی بھی ہوئی کے گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں غریب عوام لاکھوں کی تعداد میں دھرنوں میں شریک ہو ئے، دھرنوں میں موجود مظاہرین نے نہ صر ف دن کو بلکہ راتوں کو بھی دھرنے دیتے رہے جو کہ نام نہاد صوبائی حکومت کے منہ پر تمانچہ اور ان کے خلاف ریفرنڈم تھا لیکن لاکھوں افراد کے دھرنے کے باوجو د پا کستانی حکمرانوں کے سر پر جوں تک نہیں رینگی ، ہونا تو یہ چاہئے کہ وفاقی حکومت اس مظاہرے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعظم گلگت بلتستان کا دورہ کرتے ہوئے ان کے نو نکاتی ایجنڈا کو تسلیم کرنا چاہئے لیکن افسوس صد افسوس کہ وفاقی حکومت کے کسی نمائندے نے گلگت بلتستان کا موجودہ دنوں میں دورہ کرکے چارٹر آف ڈیمانڈ پر عملدرامد کرنے کی بجائے خود کو موجودہ حالات سے بے خبر موج مستیوں میں مصروف نظر آرہے ہیں کیونکہ حکمرانوں کو گلگت بلتستان کے عوام کے بجائے اس خطے کے وسائل سے سروکار ہے ۔