ایک کالم اپنے ہی خلاف!
تحریر محمدنذیرخان
اللہ مغفرت فرمائے بہادرشاہ ظفر کی،سلطنت مغلیہ کے بادشاہ ، بڑی خوبصورت بات کہ گئے ؛فرمایا:
نہ تھی جب اپنے حال کی ہمیں خبر،
رہےدیکھتے لوگوں کے عیب وہنر،
پڑی اپنی برائیوں پرجو نظر
توجہاں میں کوئی برا نہ رہا!
آج دل چاہ رہا تھا کہ ”اپنےہی” خلاف کچھ لکھ ڈالوں،کیونکہ بزرگ فرماتے ہیں کہ انسان کو ہمیشہ اپنے عیب سامنے رکھنے چاہئیں،اس سے بندہ کو سدھرنے کا موقع مل جاتاہے، اور جس کی اپنے اوپر نظر ہو تووہ تکبر سے بچارہتاہے، لیکن جب لکھنے بیٹھا تو اپنے اندر اتنی برائیاں نظر آئیں کہ انسان ہونے کے ناطے خطا کا”پتلا” نہیں ،بلکہ "‘پتیلا” نظرآیا،!دسری طرف اپنے حلیم وپردہ پوش رب کی رحمت پر سوسوجان وارےجانے کو دل چاہا کہ اس کریم نے اتنے کچھ کے باوجود بھی اپنی رداءستاریت میں چپھارکھاہے، اللہ ھمیشہ ہی ایسارکھے،اب لکھوں تو کیا لکھوں؟کہاں سے شروع کروں؟ پھر اھل علم نے لکھا ہے کہ "جب کوئی انسان اپنی غلطیاں خود کسی کو بتاتا پھرے یہ کریم ورحیم رب کو ہرگز گوارا نہیں،کیونکہ اس نے چھپایا ہے تو کسی اورکو ایکسپوز کرنے کی کہاں اجازت ہے؟! اس لئے اپنی دیگر غلطیوں کا توذکرنہیں کرسکونگا،کیونکہ یہ میرے اورمیرے آقاکا معاملہ ہے،اس نے آج تک کسی کو نہیں بتایا ہے تو وہ آئندہ بھی کسی کو نہیں بتائےگا!(ان شاء اللہ) البتہ ادبی اور علمی لحاظ سے مجھ میں "جوکمزوریاں” ہیں ان کا تعلق چونکہ ثواب وگناہ سے نہیں ہے اس لئے ان کاتذکرہ کرلیتاہوں،تاکہ”اپنی” "اصلاح”‘ ہوسکے!
تو لیجئے بھائی ایک تو”‘میں” اردوبھی اکثر غلط لکھتا ہوں اوپرسے اگر کوئی نشاندہی کرے توناراض بھی ہوتا ہوں،تیسرا "محترم میں صاحب” نے جو آج سے قبل کئی کالمز اورتبصرے لکھے ہیں(بلکہ تحریرفرمائے ہیں) ان میں "محترم میں” نے جہاں جہاں ، جس جس کولتاڑا ہے ،اصلاح فرمائی ہےاسے ساتھ میں ٹالرینس اوربرداشت کرنےکادرس بھی دیاہے کہ برداشت کرو، اگرچہ وہ مجھے سے جتناہی بڑاہو،اب جب کسی نے میری گدی تھوڑی سی "گدگدائی” تو وہ داستاں سنائی کہ دامن بگھودیئے،! حالانکہ یہ ٹالرینس نامی”بلا”‘ میرےپاس بھی ہونی چاہئیے،۔۔۔۔۔۔لیکن کیاکریں؟ اس لئے میری "اپنےآپ”‘ سے دوبارہ گذارش ہے کہ "ایڑیاں اٹھاکر قد اونچاکرنے کی کوشش نہ کروں،اور نہ اپنی شخصیت کی بنیادکسی کی آبرو پہ رکھوں، ورنہ پھر علم وادب کے اس حسیں گلستاں میں بھی نفرتوں کی جھاڑیاں اگیں گی،اور شوخی تحریر ،ادبی تبصرہ کی بجائے ،نتیجة ،،علمی خودکش حملہ،،ہوگا!”
قارئین کرام دیکھئے یہ کالم میں نے”خالص اپنے بارے”‘میں لکھاہے، لیکن آپ لوگ پھر بھی خواہمخواہ”‘کسی اور” کے بارے سمجھنے لگ گئے ہیں!اب اس میں "اپنا” تو کوئی قصورنہیں نا؟
پاکستان میں تھا تو ایک دفعہ پشاور جانے کا اتفاق ہوا قسمتا ہم سے آگے ایک ٹرک جارہاتھا جس کے پیچھے لکھاتھا ” حاجی صاحب ستو پیاکرو ،ٹھنڈا ہوتاہے،اور مفید بھی”. دوسری طرف لکھاتھا،”پاس کریابرداشت کر! اور پشتو زبان میں لکھا ہوا تھا : یارانوکہ بنگڑی ماتی گی ( یعنی دوستی یاری میں چوڑیاں ٹوٹتی رہتی ہیں). ابھی کچھ دیر ہی چلا تھا، کہ قریب سے ایک ویگن دھاڑتی ہوی گذری، جس کے انجن میں "ہزاروں رکشوں” کا نوحہ تھا ، اور سینکڑوں خران شہر کی چنگاڑ تھی، آسمان پر چت کبرے بادل اٹھکیلیاں کرتے”آوارگردی” ‘کر رہے تھے، وہ ویگن کافی دیرہماری "رفیق سفر” بنی رہی، میں ہی کیا اس کی اس "ساتھ چلنے” کی عادت سے سبھی تنگ تھے، اتنےمیں اچانک اس نے ایک "اڑان” بھری اور ہم سے ”سبقت” لے گئی،! دق ہوکراس جانب دیکھا تو اس کی پشت پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا
اس طرح تو ہوتاہے اس طرح کے کاموں میں،
کیوں اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں؟
ظاہرھے کہ اس "سوئے اتفاق اور آپ بیتی "کا کسی کی تحریریا”تبصروں” سے کیا تعلق ہوسکتاہے؟؟ بس ایک قصہ سناکر اپنے خلاف ہی لکھنا مقصدتھا، سو لکھ دیا، شکریہ ، البتہ، ٹرک اور گاڑی پر لکھے گئے الفاظ نجانے کیوں بار بار گنگنانے کو دل کر رہاہے .
حاجی صاحب ستو پیاکرو ،ٹھنڈا ہوتاہے،اور مفید بھی …..
"پاس کریابرداشت کر!
اور پشتو زبان میں لکھا ہوا جملہ : یارانوکہ بنگڑی ماتی گی ( یعنی دوستی یاری میں چوڑیاں ٹوٹتی رہتی ہیں
اس طرح تو ہوتاہے اس طرح کےکاموں میں، کیوں اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں؟؟!
اللہ حافظ!