سبسڈی تحریک: عوام نے حکومت سے گندم بھی چھین لی اور امن بھی
گلگت بلتستان کی تاریخ کے تاریخ سازدھرنے ایک نئی تاریخ رقم کرنے اور کامیابی کے کئی معرکے طے کرنے کے بعدختم ہو گئے۔عوامی ایکشن کمیٹی کے ذمہ داروں نے اس کامیابی کو پہلی سیڑھی قرار دی ہے،اور آیندہ چارٹر آف ڈیمانڈ کے تمام مطالبات کے ساتھ ساتھ علاقے کے اجتمائی ایشوز پراس سے بھی منظم اور بڑے پیمانے پر جدوجہد کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ گلگت شہر کے تاریخی گھڑی باغ اور سکردو شہر کے یادگار شہداء پر عوامی سمندر اورآپس کے پیارومحبّت کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کو یقین نہیں آرہا تھا،گلگت شہر جو ایک ماہ قبل ہی خوف اور وحشت کی علامت تھی، لوگ شام کے بعد گھروں سے باہر نہیں نکل رہے تھے، دکانیں نماز عصرکے ساتھ ہی بند ہو جاتی تھی، لوگ گھروں میں اکثر شام کے بعد محصور ہو جاتے تھے، حکومت نے یہاں امن کے لیے تمام حربے اور فارمولے بھی استعمال میں لائے، تمام سیکورٹی ایجنسیز کو بھی بلایا، انسداد دہشت گردی کے تحت مقدمات بھی درج کروائے،ترقیاتی فنڈ امن وآمان کی خراب صورت حال پر صرف ہوتا رہا، علاقے کی ترقی رکتی چلی گئی، مقامی اور غیر مقامیوں کے ساتھ ساتھ غیرملکیوں کو بھی ناحق قتل کیا گیا، سیاحت مکمل تباہ ہوگی، ہوٹل مالکان دیوالیہ ہوگئے،ملکی و عا لمی سطح پر خطے کا ایک بہت برا امیج ابھر کر سامنے آگیا۔ اس دلخراش صورت حال کے باوجود حکومت دیکھتی رہی، چھے کلومیٹرزکا علاقہ ان کے لیے ایک امتحان بن چکا تھا، جس کاپیپر یہ ہر بارحل کرنے کی کوشش کرتے اور ہر بار بری طرح فیل ہو جاتے تھے،ہر ناخوشگوار واقعے کے بعد بس افسوس اور مذمت کے اخباری بیانات جاری ہوتے تھے۔
قصّہ المختصر حکومت اس مسئلے پر مکمل پسپا ہو چکی تھی،کئی عشروں سے مرکزی و صوبائی حکومتیں تماشا بن چکی تھی۔۔۔۔مگر جو کام یہ حکومتیں عشروں میں نہیں کر سکی تھیں، عوام اور عوامی ایکشن کمیٹی نے اس کام کو ایک ماہ سے کم عرصے میں کر کے دکھایا اور ایسے کر کے دکھایا جس پر صرف اندازے اور قیاس اراضیاں ہی کی جاتی تھیں۔۔۔ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز۔۔
بالکل عوامی ایکشن کمیٹی نے نہ صرف تمام مسالک کے لوگوں کو ایک صف پر لا کھڑا کیا بلکہ پورے گلگت بلتستان کے عوام کو ایک ہی لڑی میں پروو دیا،سارے اپنے حقوق کے یک زبان ہو گئے، کچھ نو سرباز،عوام کی ووٹوں سے اقتدار میں جا کرعوام کو ہی بیوقوف سمجھنے والے نادان، اقتدار کے نشے میں بدمست ہاتھیوں کے علاوہ کوئی ایسا بندہ اور شخص سامنے نہیں آیا جواسطرح کی عوامی یکجہتی،پیار محبّت کی مخالفت کرتا،اور ایسے تمام چہرے اب کھل کر عوام کے سامنے بھی آگئے ہیں۔ سبسڈی کی بحالی کے بعد جب گھڑی باغ میں رات کو تقریباً دس بجے اعلان ہورہا تھا، اوراس کے بعد مولانا سلطان رئیس نے جب عوام سے مخاطب ہو کر کہا کہ ان ظالموں، احسان فراموشوں،اور اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کو کبھی دوبارہ ووٹ مت دینا مگر معاف ضرور کرنا، مولانا صاحب اپنی بات بار بار دوہرارہے تھے،اسی دوران مجمے میں موجود ایک سفید باریش شخص اونچی آواز میں بولنے لگا، \”ہم نہ ان کو معاف کرینگے نہ ہی دوبارہ ووٹ دینگے.
عوام کے جذبات اور حکمرانوں کے کردار کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ عوام کس قدرحکمرانوں سے تنگ ہیں اورحکمران کس طرح عوام سے اپنا منہ چھپائے پھررہے ہیں۔
میں سبسڈی کی بحالی کو عوام اور عوامی ایکشن کمیٹی کی کامیابی نہیں سمجھتا بلکہ اس سے کہیں زیادہ اس بات کو اہم اور مقدم سمجھتا ہوں کہ کس طرح عوام کو متحد کیا گیا،کس طرح گلگت شہر سے نو گو ایریاز ختم کر دیئے گئے، کس طرح گلگت کے بازار رات گئے تک کھل گئے، کس طرح شہر کی رونقیں بحال ہوگئے، کس طرح سیاچن سے لے شندور تک، خنجراب سے لے کر قمری تک،تا نگیر سے لے کر شگرتک کے عوام اپنے حقوق کے لیے متحد ہو گئے۔کس طرح گھڑی باغ کے مقام پر تمام مسالک نے اجتما ئی نمازیں پڑھیں،کس طرح عوام، تاجروں، علماء4 ،ٹرانسپورٹرز و دیگر اداروں و حلقوں نے اس تحریک کا ساتھ دیا، کس طرح ایک دن پہلے تک ایک روپے کی کمی نہ کرنے کا اعلان کرنے والے حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ رسید کر دیا اور بتا دیا کہ ہم حق چھین کے لینا جانتا ہیں،کس طرح سکردو میں ساٹھ ہزار افراد روڈ پر نکل آئے، کس طرح بارہ روز تک عوام اور رہنما روڈ پر رہے اورحوصلہ روز جواں اور تازہ دم رہا،کس طرح تمام مسا لک کے لوگ اور رہنما ایک ساتھ کھاتے پیتے اور نمازیں ادا کرتے رہے،کس طرح حکومت میں موجود تمام وقتی اور بائی چانس رہنما اپنے اپنے بلوں میں چھپ گئے، کس طرح اس تحریک سے نہ کسی مذہبی جماعت کا بو آیا نہ ہی کسی مذہبی جماعت کا،بس صرف ایک ہی خوشبو آیا وہ بھی پیار محبت اور پر امن اور خوشحال گلگت بلتستان کا.
مجھ اس تحریک سے اس سے زیادہ کوئی امیدیں بھی نہیں تھی…میں یہ بات سمجھ سکتا تھا کی اگر گندم کی بوری 2600 تک بھی جاتی تو ہم خریدنے اور کھانے کی ہمت کسی نہ کسی صورت ضرور کرتے مگر ایک باپ،ایک ماں،ایک بہن،ایک بھا ئی اپنے پیاروں کی خون میں لت پت لاش نہ ہی اٹھا سکتے ہیں نہ ہی دیکھنے کی مزید جرات رکھتے ہیں،اگر حکومت گندم کے دانے پرمکمل پابندی بھی لگاتی توکوئی راستہ نکالا جا سکتا تھا، مگر یہاں خوں ناحق کے گرنے کے کے خلاف اور علاقے کی اجتمائی ترقی خوشحالی کے لیے جو پہلی اور مضبوط قدم اٹھائی گئی ہے، یقیناً یہ انتہائی ہی خوش آیند ہے۔.
اس تحریک کے بارہویں روزچند اہم، اور قا بل غور پوائنٹس دوران خطاب مقررین کی طرف سے سامنے سامنے آئے،جوکچھ یوں تھے.
آج کے بعد گلگت میں کوئی بھی شخص قتل ہوا تو اسکی ایف آئی آر کسی سنی یا شیعہ کے خلاف نہیں بلکہ حکومت کے خلاف کا ٹی جائے گی۔
جتنے جھنڈے پاکستان کے دفاتر پر لگے ہیں اس سے کہیں زیادہ جھنڈے ہمارے شہیدوں کے مزاروں پر لگے ہیں، پھر بھی ہماری محبّت پر شک اور اور دیوار سے لگانا حکومت کی بھول اور اسکی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
ہمارے اباؤاجداد نے چھبیس ہزار مربع کلو میٹر کے علاقے کو آزاد کرایا جو اب سمٹ کر اٹھارہ ہزار مربع کلو میٹرتک محدود ہو چکا ہے، دس ہزارکا ہمارا علاقہ کہاں گیا، اس کا جواب عوام کو کون دے گا۔
تمام پاکستانی بشمول مشرقی پاکستان(بنگلادیش)پاکستان میں بائی چانس جبکہ واحد گلگت بلتستان ہے،جو بائی چوائس پاکستان کا حصہ بنی، ہماری قربانیوں کا صلہ ہمیں چھے دہایوں سے محرومیوں کی شکل میں مل رہا ہے۔
ہم پہلی بار مکمل، مسلکی،علاقائی، لسانی ودیگرتعصبات سے بالاتر ہو کر میدان میں اترے ہیں، ہماری کوشش ہوگی کہ ہماری یہ جدوجہدمکمل آئینی و زمینی حقوق کے حصول تک جاری رہے گی۔
برجیس طاہر نے اس خطے کو متنازعہ قرار دیا ہے، اگر متنازعہ ہے تو سبسڈی ختم کیوں کر رہے ہو، اگر جھوٹ بول رہے تو انکے خلاف ایف آئی آر درج کر وا دی جائے۔
اس تحریک میں شرکت کرنے پر اگر سکردو کے ملازمین کو نکالا گیا تو یہ عوامی سمندر سکردو کی طرف لانگ مارچ کرے گا۔
مقررین کی طرف سے ان باتوں کے سامنے آنے اورہزاروں لوگوں کی طرف سے ان باتوں کی تائید اورحمایت بتا رہی تھی،کہ عوام اب باشعور ہو چکے ہیں، سابقہ سازشوں کو سمجھ چکے ہیں، اس گھٹن کے ماحول کو ختم کرنا چاہتے ہیں، دنیا کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں، یقیناً یہ سب ہر کسی کے لئے نیک شگون ہونا چاہیئے۔
میں عوام کے گل ملنے اور اس پائیدار امن کے باضابطہ اعلان کے بعد گلگت بلتستان کو مستقبل قریب میں پوری دنیا نہیں تو کم از کم ایشیا کا ایک پر سکون، پر امن، خوشحال اور مہذب خطہ سمجھتا ہوں،بشرطیکہ یہی جوش و جذبہ عوام اور عوامی لیڈران میں ہمیشہ رہے، مسلکی، لسانی، علاقائی تعصبات کے بجائے علاقے کی اجتمائی مفادات کو مقدم رکھا جائے،بالعموم گلگت بلتستان اور بلخصوص گلگت کی دونوں بڑی مساجد میں نماز جمعہ و دیگر خطبوں میں مذہبی رواداری، بین المسالک ہم آہنگی کے فروغ پر مزید توجہ دی جائے،آغاراحت حسین اور قاضی نثاراحمد سمیت دیگر اہم رہنما نگر، ہنزہ،چلاس، استور،سکردو،گھا نچھے،غذر،اوردیگرعلاقوں کے دورے کریں،اجتمائی حقوق پر باتیں کی جائیں،اپنے اندر چھپی ہوئی کالی بھیڑوں کو با ہرپھینکے،ایک پرامن اورخوشحال پاکستان کے لیے ایک دوسرے سے پانچ قدم آگے بڑھنے کی کوشش کریں،پوری دنیا کو بتا دیں، ہم ایک قوم تھے ایک قوم ہیں ایک ہی قوم بن کرپیارمحبت سے جی کردکھائیں گے۔