کالمز

آئیں، ہم بھی ہڑتال کرتے ہیں

 تحریر : آصف حسین

سیاست دانوں کے ریڈیوٹاکس ہوں یاٹی وی شوز یاپریس کانفرنس یاعوامی اجتماعات میں تقاریر یاایوان بالا اور زیریں میں تقاریر ۔چندالفاظ فخریہ اندازمیں بولے جاتے ہیں کہ ان الفاظ یا جملوں میں عوام کی غربت کے خاتمے کی کنجی ہے۔ پاکستان کانعرہ سب الاپتے ہیں اوریہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بناہے۔ لیکن بدقسمتی سے اسلامی اقدارکوجمہوریت کے حسن یاجمہوری حق میں لپیٹ دیاگیاہے اور صدافسوس غیرمسلموں سے اسلامی اقدار وشعار کی تربیت لی جارہی ہے۔ جس پرحضرت علامہ اقبال کی روح بھی تڑپ رہی ہوگی کہ انہوں نے جس اسلامی اقدارکی طرف توجہ دلائی تھی وہ آج مسلم اُمہ بشمول پاکستان دور دور تک نظرنہیں آرہے۔ 

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر

کاش ہماری لیڈرشپ حُسن جمہوریت اورجمہوری حق کے استعمال کو برادر اسلامی ملک ملائیشیا میں دیکھتے اور مستفید ہوتے یاپھرترقی کے عمل کودوست ملک چین سے دیکھتے جو پاکستان بننے کے کئی سال بعدآزاد ہوا۔ جہاں پرمعاشی ترقی عروج پرہے اور بدعنوانی کے لعنت کوجڑسے اکھاڑ پھینکاہے۔ یورپ کودیکھیں خاص طورپر جرمنی جسے دوسری جنگ عظیم میں ملیامیٹ کردیاگیاتھا۔ وہاں بھی جمہوری نظام رائج ہے۔ جمہوری حسن اور جمہوری حق حقیقی معنوں میں غربت کے خاتمے اور عوام کے معیارزندگی بلند کرنے کاعملی نمونہ نظرآئیگا۔ 

مملکت خدادادپاکستان کو وجود میں آئے68سال گزرگئے اور عوام کو یہی سمجھایاجارہاہے کہ اختلاف رائے جمہوریت کاحسن اور ہڑتالیں جمہوری حق جبکہ پوری قوم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اختلاف رائے کہاں پرہے ۔کہاں ہورہاہے کس کے لئے ہورہاہے۔ کون کررہاہے اورکیوں کررہاہے اورکون اس اختلاف رائے سے عوام کے اَن گنت مسائل حل کررہاہے۔ جب ملک کی ترقی ، وقار اور غربت کے خاتمے کی بات ہوتی ہے توکہاجاتا ہے کہ 68سال گزرنے کے بعد بھی جمہوری حسن کے لبادے میں تجربات کاذکرکرتے ہیں اور یہ تجربات عوام کورشوت، بدعنوانی ،اقرباپروری ،جعل سازی،ملاوٹ ،زخیرہ اندوزی ، ناانصافی قتل وغارت گری ، اغوابرائے تاوان بھتہ خوری، دہشتگردی کے شکل میں نظرآرہے ہیں ۔انارکی عروج پر پہنچ چکی ہے ۔ عوام کے مسائل چاہے تعلیم کے ہوں یا صحت کے ،بنیادی حقوق کے ہوں یا انصاف کے یااسلامی اقدار ہوں یامعاشرتی اقدار ،سماجی اقدار ہوں یاتہذیبی اقداربزرگوں کے حقوق ہوں یاخواتین اور بچوں کے حقوق دُور دُور تک مسائل کاحل نظرنہیں آرہاہے۔ غریب عوام مسائل کے بھنور میں پھنسی جارہی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ایسی صورت حال میں حُسن جمہوریت اور جمہوری حق کی ایک اور جادو کی چھڑی تیزی سے گمائی جارہی ہے۔ اُس چھڑی کانام ہے ہڑتال اور اس کا استعمال کواپنے مسائل کاحل سمجھاجاتا ہے اور یہ وہ جمہوری ہے جو جمہوریت کالبادہ اوڑھ کر شطرنج کی چالیں چلی جاتی ہیں۔ نہ تو خودغریب عوام کی بہتری کے لئے کچھ کرتے ہیں اور نہ دوسروں کوکرنے دیتے ہیں۔ خود کروڑوں روپے سیاسی جلسوں میں اڑاتے ہیں اور ستم ظریفی یہ کہ سکیورٹی کے نام پر ملکی افرادی قوت اور قومی خزانے کوبھی سخت نقصان پہنچارہے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ملک کامفاد ، وقار اور نظم ونسق کاوجود بھی خطرے میں پڑسکتاہے۔ ایسی صورت میں ہرایک کی امیدیں ملک کی بہادر افواج پاکستان پرلگی رہتی ہیں کہ وہ اس جمہوری حُسن اور جمہوری حق سے پیداہونے والے خطرات سے نبردآزما ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہرمشکل گھڑی میں پاکستان کی بہادر افواج محب وطن عوام سے ملکر ملک کودشمنوں سے محفوظ رکھا ہے اوراپنی بے مثال جانوں کانذرانہ پیش کیا ہے۔اورجب سیاسی بادشاہت قائم ہوتی ہے تو بہادر افواج راتوں کو جاگتی ہے ۔ تب پوری قو م گہری نیند سوتی ہے۔ اسی طرح سکیورٹی کے دیگر ادارے خاص طورپر پاکستان رینجرز ،پولیس کی بھی قربانیاں قابل ذکرہیں۔ جبکہ ہماری غریب عوام اور میڈیابھی مختلف حکومتوں کے ادوار میں ہرقسم کی قربانی یعنی بھوک سے لے کر موت تک گلے لگانے میں کبھی پیچھے نہیں رہی۔ سیاسی اکھاڑپچھاڑ کے میدان میں عوام ہمیشہ معاشی اور سماجی انصاف سے محروم رہی ہے۔ نیز نوکر شاہی کابھی یہ طرہ امتیاز رہاہے کہ جہاں ہڑتال وہاں توجہ دیں اور جہاں ہڑتال نہیں بھلے جتنے بھی محب وطن ہوں ہروقت ناکام اور تسلی کے لئے اتناکافی ہے کہ صبرکا اجر ان کو دوسری دنیامیں ملے گا۔ نہیں یہی کافی نہیں ہے بلکہ ایک اور ہڑتال کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے سے رشوت خوری، ناانصافی ، بدامنی اور دہشتگردی کاقلع قمع ہو اور ایک ایسی مثال قائم ہوکہ آئندہ ہرکوئی ان برائیوں سے بچنے کی دعاکرے۔ یہ تب مملک ہوگاجب سخت اور کڑا احتساب کاعمل تیزی سے ہو ۔ عوام کو سستا انصاف ملے۔ تعلیم مفت ملے۔ بیماریوں سے بچاؤ اور عوام کے معیارزندگی کوبلند کرنے کے روایتی منصوبہ بندی کے بجائے حقیقی معنوں میں عوامی اشتراک سے منصوبہ بندی کی جائے۔ افرادی قوت اور قدرتی وسائل کو بہترانداز میں ترقی کے لئے استعمال میں لایاجائے۔ اچھے اور قابل ماہرین کے زیرنگرانی قابل عمل منصوبہ بندی اور نگرانی کے لئے معقول حکمت عملی مرتب کی جائے۔ ان مطالبات پرعمل درآمد کرنے کے لئے ایک اور ہڑتال کی ضرورت یقیناًپڑے گی۔ چونکہ ہڑتال جمہوری حسن ہے جیسی بھی شکل میں بھی کی جائے توآئیں ہم بھی ہڑتال کریں۔ مگر ایک انوکھے اندازمیں کیونکہ سابقہ تقریباً تین چوتھائی صدی میں جمہوری حسن کے تجربات کام نہیں آئے ۔ آزمائے ہوئے طبقوں کودوبارہ ہڑتال کے لئے آزمانہ دانشمندی نہیں ہے۔ اس ہڑتال میں جہاں بھی رشوت خوری ، اقرباپروری اور دہشتگردی اورناانصافی کا چوہانظر آئے اُسے پکڑکربلی کے منہ میں تھمادیاجائے۔ مذہب، قومیت ،لسانیت اور بھتہ خوروں کوسلاخوں کے پیچھے ڈال کر کیفرکردارتک پہنچانے میں مددکریں۔ آئیں ہم ہڑتال کریں جہاں نہ پیدل چلنے والے کوتکلیف ہو نہ گاڑی پرچلنے والے کو۔ نہ مریضوں کی آمدورفت میں رکاوٹ ہونہ تعلیمی ادارے ،کاروبار بندہو ، نہ سیاسی عزائم ہوں، نہ سیاسی نعرہ بازی۔ اس ہڑتال کوکامیاب بنانے کے لئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاپر بھاری ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ عوام میں مسلسل شعور اجاگر کریں اور عوام کے ساتھ ملکر انہی کے تعاؤن سے اس ہڑتال کوکامیاب بنائیں ۔ خاص طورپر نوجوان طبقہ جوپاکستان کاسرمایہ اورفخر فرزند پاکستان ہیں کو لیڈر شپ اپنے ہاتھ میں لینی ہوگی اور آئیں ہم بھی ہڑتال کریں تاکہ معاشرے سے رشوت اور ناانصافی کابت کو پاش پاش کردیں۔ ترقی کے عمل کی نگرانی کریں ۔ بے راہ روی ، نفرتوں کوپامال کردیں ۔احترام انسانیت کے اسلامی شعار کوفروغ دیں ۔ آئیں ہم بھی ہڑتال کریں اور ایسی ہڑتال کریں کہ پوری قوم یکجاہوکر صرف پاکستان زندہ بادکہے ۔ایک جھنڈے تلے جمع ہوں جس پر مسلم امہ توکیا غیرمسلم دنیابھی پاکستان زندہ باد کہے۔ آمین۔

صاحبِ مضمون انجمن ہلالِ احمر گلگت بلتستان کے سابق چیرمین ہیں۔ 

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button