کالمز

مسلماں کو مسلماں کردیا ،،گندم کے دانوں ،،نے !

 تحریر : محمد نذیر خان 

حسب معمول آج بھی جب درس وتدریس سے فارغ ہو کر کچھ دیر سستانے کی نیت سے اپنے کمرے میں آیا ، اور تھوڑی دیر کیلئے ،، چہروں کی کتاب،، ( فیس بوک) کا صفحہ کھولا تو، دیکھا کہ ایکشن کمیٹی کی کوشش سے، میرے گلستان وطن میں کھلے تمام پھول (سنی شیعہ ،اسماعیلیہ اورنوربخشی)ایک ہی گلدستہ میں سجے ہوئے ہیں ، جو ہاتھ اٹھا اٹھاکر حکومت پاکستان سے ،،گندم پر سبسڈی ،، (جو انہیں نسلوں کی آزادی اورحقوق کے عوض ملتی ہے) مانگ رہے تھے، یہ منظر دیکھ کر باوجود تھکاوٹ کے نہ صرف ایک نئی تازگی محسوس کی،بلکہ فرط جذبات،اورخوشی کے مارے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے ، اور انکھوں سے آنسوں رواں ہوگئے، اورزبان سے کلمہ شکر ادا کیا کہ الحمدللہ دیر آید درست آید آج میرے ہم وطنوں کو یہ احساس ہو نے لگا ہے کی جو قوم ہمیشہ آپس میں دست وگریباں رہے ،تواس کو گرد غلامی کی زنجیر یں مزید کس دیجاتی ہیں، اور ان کو حقوق نہیں بلکہ بھیک اور صرف بھیک مانگنے کی اجازت ہو تی ہے! صد شکر کہ گندم ہی سہی اسی بہانہ سے تو ایک ہوگئے نا!

ترس صیاد کو کچھ آچلا ہے پھڑپھڑاتا جا
کہ شاید صورت پرواز ہی پرواز بن جائے !

gandumورنہ تو ہمارا تعلق ایک ایسے خطہ سے ہے جہاں، فرقہ پرستی نے صرف مسجدیں ہی نہیں، ہسپتال ،بازار، علاقوں اور گاڑیوں تک کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر رکھا ہے ، بلکہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ بچپن میں ہم یہ سنا کرتے تھے کہ ،سرخ رنگ کی چیونٹی ،،شیعہ یا اسماعیلی ،،جبکہ کالی رنگ کی چیونٹی ،، سنّی،،ہوتی ہے، اور اس طرح ہم بھی دیگر بچوں کی طرح بصد شوق اپنے ،،مخالف شیعہ اور اسماعیلی چیونٹیوں، ، کیخلاف ، خوب جی بھرکر،جہاد،،کیا کرتے تھے ، جبکہ اسماعیلی لڑکے .بیچار مظلوم سنیّ چونٹیوں پر،،مظالم ،، ڈھاتے تھے ! (ممکن ہے کہ بعض دیہاتوں میں آج بھی یہ روایت مشہور ہو!) اور حال یہ ہے کہ ہمارے ہاں عموما ،اچھی( جدید یا قدیم) تعلیم سے لیکر عہدہ ومنصب تک حاصل کرنے کا مقصد دوسرے فرقہ کو دق کرنا اور نیچا دکھانا ہوتاہے،اور کسی دوسرے علاقہ سے (سوائے چند ایک کے) اکثر کسی عالم (جو کہ رحمت للعالمین، سراپا انس ومحبت ،محمد رسول اللہ ﷺ کا نائب و وارث ہے، )کو ، اس لئے بلایا جاتا ہے، کہ وہ فریق مخالف کی ذرا اچھی،، لتاڑ،، کرتا ہے! جہاں سیاست کی سنگھاسن ہو یاعلم وہنرکا غلغلہدونوں کے پیچھے انسانیت کی اصلاح وبھلائی نہیں اپنے فرقہ کی سپورٹ کارفرما ہوتی ہے، آپ تجربہ کیلئے (سوائے تبلیغ جماعت کے) کسی بھی مسلک کے ادارے میں جائیں اور وہاں زیرتعلیم بچوں سے پوچھیں کہ آپ پڑھ لکھ کر کیا کریں گے ،تو ایک بڑی تعداد کا فوری جواب یہی ہوگا کہ فلاں فرقہ۔۔۔ کے خلاف کام کی بہت ضرورت ہے لہذا وہی کروں گا( الا ماشاءٗ اللہ) اس لئے ایسی فضا میں کسی کو اپنے دیس و اپنے وطن کی محبت سمجھانا،اور یہ بتانا کہ صاحب ،، غیر کی آسمان سے سر ٹکراتی بلڈنگوں سے اپنا وہ مٹی کا کچا ،،جھونپڑا،، (جسے ہم شنا میں سومئی گوٹ اور کھوار میں چھوتی او دورکہتے ہیں)زیادہ بہتر ہے جو زندگی میں تمہارا ،، گھر،، اور مرنے پہ تمہارا ،،مقبرہ،تو بن سکتاہے، یقیناً اونٹ کو رکشہ میں بٹھانے کی کوشش کے مترادف ہے! اس لئے اس لحاظ سے ایکشن کمیٹی کے ارکان ، پورے گلگت بلتستان کے تمام فرقوں کے علماء کرام اور نوجوان نسل صدمبارکباد کے مستحق ہے کہ انہوں نے ایسے ماحول میں ایک اتحاد و یگانگت کی ایک عمدہ مثال قائم کی ہے ۔

امن و آشتی کے حوالہ سے اگربات کی جائے تو یہاں پاکستان پیپلزپارٹی، اور جمعیت علماء اسلام کا نام لینا یقیناًناانصافی ہوگی ، کیونکہ ( دیگر معاملات سے قطع نظر)کہ ان دونوں جماعتوں نے انتہائی جدوجہد ،اور اخلاص کے ساتھ،امن کمیٹی ،ومسجد بورڈ کے تعاون سے ،گلگت بلتستان کی اسمبلی سے ،فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ایک دوسرے کی دل آزاری کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا قانون پاس کر واکر ایک قابل تعریف مثال قائم کی ہے، جوکہ اب ایک تلخ،ناقابل انکار حقیقت اور تاریخ کا سنہرا باب بن چکا ہے، وہ الگ بات ہے کہ اس بل کے منظور کروانے میں ان کے قلب وبدن پر غیروں کی نفرتوں سے زیادہ اپنوں کی ،،محبتوں،،نے نشتر زنی ،، کی!

غیروں کی نفرتوں کا گلہ ہم نے کب کیا؟
اپنوں کی،، شفقتوں،، کے ستائے ہوئے ہیں ہم!

علامہ اقبال (مرحوم ) نے ایک موقعہ پر عالم کفر کے مقابلہ میں عالم اسلام کے یکجا و متحد ہونے پر خوش ہو کر کہاتھا:

مسلماں کو مسلماں کردیا طوفان مغرب نے !

آج میں بھی (گلگت کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں )علامہ کے یہی الفاظ دوہراتا ہوں ،تاہم ان کی روح سے معذرت کرتے ہوئے اور ان کے ،، طوفان اور مغرب،، کو اپنے ،،گندم کے دانوں سے،، بدلتے ہوئے گنگنارہا ہوں :

مسلماں کو مسلماں کردیا،، گندم کے دانوں نے!

اور ایکشن کمیٹی سمیت اپنے دیگر بہن بھائیوں سے اپیل کرتاہوں کہ وہ مستقبل میں بھی اپنے اس مثالی اتحاد ویگانگت کو برقرار رکھیں، آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے انتہائی پرامن اور مثبت انداز میں اپنا احتجاج کریں ، لیکن اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ہمارے احتجاج سے کسی بھی مسلمان، بلکہ انسان کو بھی ہرگز تکلیف نہ پہنچے،نیز ہماری یہ محنتیں کسی ،،خاص جماعت یا فکر کی سیاسی مہم نہ ہو ، اور کوئی اندرونی یا بیرونی ،،خفیہ قوت،، ہمیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے نہ پائے! نیز حکومت سے بھی گذارش ہے کہ وہ پر امن مظاہرین کے جائزمطالبات کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ،،کبھی کبھار،، ہماری ،،دال روٹی،، بند کیا کرے ، کیونکہ اب ہمارے درمیان یہی ،،گندم کا دانہ،، ہی مشترک رہ گیا ہے ! جو ہمیں متحد کر سکتا ہے، ورنہ تو ہم اللہ و رسول ﷺ دین ،ایمان، قران ،وطن کسی ایک پہ بھی متفق نہ ہوسکے تھے!! اس لئے ،،گندم کے دانو تمہارا بہت بہت بہت شکریہ!

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button