اپنے من میں ڈوب کر پا جا سُراغِ زندگی
تحریر: نا ہیدہ غالب
ایک با ت بہت مشہو ر ہے ؛ ’’ چر ا غ خو د جل کر دو سر و ں کو رو شنی فر ا ہم کر تاہے تودل جلا نے سے کیا حا صل ، چر ا غ جلا ؤ کہ رو شنی آ جا ئے‘‘کئی دنو ں سے ایک خیا ل ذہن میں گر د ش کر رہا ہے کہ آ خر لفظ ضمیر کے معنی کیا ہیں؟ اور انسا ن کے سا تھ اِس کا کو ن سا گہرا تعلق ہے؟کیا انسا ن کی شخصیت پر اِس کا کو ئی گہر ا اثر ہو تا ہے؟سوچنے کی ضر و ر ت ہے۔
ضمیر کے معنی اگر لغت میں دیکھا جا ئے تو اِ س کے کئی معنی ہیں دل ، بھید ، اندیشہ ، خیا ل وغیر ہ۔یہاں اصل با ت یہ ہے کہ انسا نی ز ند گی میں اِ س کے اصل معنی کیا ہیں؟ کیا آ ج تک کسی نے لفظ ’’ ضمیر ‘‘ کو لغت سے با ہرنکا ل کر جا ننے یا سمجھنے کی کو شش کی ہے؟ شا ید چند ایک کے نز دیک ہا ں اور چند کے نز دیک ناں۔جہا ں تک میں سمجھتی ہو ں میر ے نز دیک ضمیر کے اصل معنی اپنی اندر و نی اصلا ح کے ہیں۔انسا ن کا اپنے با طن کی درستگی کر نا ، اُ سے صحت مند بنا نا ، منفی سو چو ں سے دور ر کھنا ، حق کاسا تھ دینا ، سچ کا سا منا کر نا المختصر اپنے اندر ایک ایسے انسا ن کو جنم دینا جو اپنی تخلیق ہو نے کے مقا صد کو جا ن سکے ،ضمیر کی خصو صیا ت میں آ تی ہیں۔
ضمیر کے حو الے سے انسا نوں کی مختلف اقسا م سا منے آ تی ہیں۔جیسے ایک انسا ن ایسا ہو تا ہے جسے اپنے ضمیر کی کو ئی خبرہی نہیں ہے ؛ اُس کے سا منے کیا سچ ہے ، کیا جھو ٹ ہے ، ان چیز و ں کی کو ئی اہمیت ہی نہیں ہے۔چا ہے اُس کے سا تھ کو ئی کتنا ہی بُر ا کیو ں نہ کر ے اُسے محسو س ہی نہیں ہو تا اور اپنے حقو ق کے لیے آواز بلند کر نا جا نتا ہی نہیں اور وہ بجا ئے اپنے ضمیر کو جگا نے کی ’’ تو نہیں اور صحیح، ا ور نہیں اور صحیح ‘‘پر یقین رکھتا ہے ۔المختصر یہ گروہ اس با ت پہ اند ھا یقین رکھتے ہیں کہ اپنی دنیا میں مست رہو اور خو شی سے اپنی زندگی جیواور کسی بھی حا ل میں اپنے ضمیر کو جگا نے کی اور للکا رنے کی کو شش نہ کر و۔اور میں سمجھتی ہو ں کہ ایسے انسان یا تو بہت معصو م ہو تے ہیں یا پھر بہت ہی عا قل۔ انسا نو ں کی دو سر ی قسم ایسی ہے جنہیں یہ تو پتہ ہے کہ انسا ن کا ضمیر کیا ہے اور اِس کی آوا ز سننا چا ہیئے یا نہیں ۔لیکن انسا نو ں کی یہ قسم کسی بھی صو ر ت اپنا نقصا ن نہیں چا ہتے اور سچ کو سچ کہنے اور جھو ٹ کو جھو ٹ کہنے سے یا تو ڈر جا تے ہیں یا پھر ا پنے ذا تی مفا د کی خا طر جا ن بو جھ کر سچ اور جھو ٹ سے منہ مو ڑ لیتے ہیں۔ایسے انسا نو ں کے لیے اردو کے پہلے نا و ل نگا ر مو لو ی ڈپٹی نذ یر احمد نے ایک خا ص نا م ’’ ابن الو قت‘‘ استعما ل کیا ہے(ابن الو قت اُ س انسا ن کو کہا جا تا ہے جو مو قع پر ست ہو)لیکن یہ کہا ں کا انصا ف ہے کہ فر دِ وا حد اپنے ذا تی مفا د کی خا طر معا شر ے کا استحصا ل کر تا ہے اور اِس سا ری تحر یک کا خمیا زہ معا شر ے کے ہر فر د کو بہت بڑ ے نقصا ن کی صو ر ت میں بگھتنا پڑ تا ہے۔ شا عر مشر ق کے شعرکا یہ مصرع اس مخصو ص گر وہ کے لیے بہت مو ز و ں لگتا ہے۔
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیر ا ، نہ من
البتہ انسا نو ں کی اِ س قسم میں ایسے لو گ بھی آتے ہیں جو معا شر ے کی بہبو د کے لیے ابن الو قت بنتے ہیں بھلے انفر ا دی طو ر پر اُن کا کتنا ہی نقصا ن کیو ں نہ ہو،ایسے لو گو ں کو جہا ں تک میر ا خیا ل ہے عقلمند کہیں گے۔کیو ں کہ معا شر ے کے شہر ی ہو نے کی حیثیت سے وہ اوّلین فر یضہ انجا م دے رہے ہو تے ہیں۔اور یہ و ہی لو گ ہیں جن کی و جہ سے معا شرے میں تر قی کی ر ا ہیں کُھل جا تی ہیں اور معا شر ہ کسی بھی بدنظمی کا شکار ہو نے سے بچ جا تا ہے۔کیو نکہ انسا نو ں کا یہ گر وہ اپنے ضمیر کی آ وا ز کو صر ف اور صر ف معا شر ے کی خا طر پسِ پشت ڈا ل دیتا ہے۔لیکن اِس گرو ہ کو وقتی طو رپر بہت کچھ سننا بھی پڑ تا ہے اِس کے با و جو د وہ ہر اُس با ت کو سننے کے لیے تیا ر ہو تے ہیں جس کا تعلق بے شک اُن کی ذات سے ہی کیو ں نہ ہو۔وہ اپنے انفر ا دی جذ با ت پر قا بو رکھتے ہیں کیو نکہ اِس مخصو ص گر و ہ کو یہ علم ہو تا ہے کہ وقتی طو ر پر معا شر ے کے جذبا ت ابتر ہو سکتے ہیں لیکن و قت گزر نے کے سا تھ ساتھ معا شر ے کو یہ احسا س بھی ہوجا تاہے کہ جو ہوا اچھے کے لیے ہو ا۔
انسا نو ں کا تیسر ا گر وہ ایسا ہے جو ہر حا ل میں اپنے ضمیر کی آ وا ز کوبا لا تر رکھتا ہے اور حق کے لیے لڑ نا چا ہتا ہے ۔حا لا نکہ اِ س گر وہ کو اِس کے سنگین نتا ئج کا پہلے سے ہی علم ہو تا ہے کہ انفر ا دی طور پر اس کو کتنے بڑے نقصا ن کاسا منا ہو سکتا ہے ۔ ہا ں البتہ یہا ں یہ با ت بھی و ا ضح کر نا بہت ہی ضر و ر ی ہے کہ فر دِ وا حد جب ضمیر کی جنگ لڑ تاہے تو اُس وقت ایک مخصو س گروہ ایسابھی ہو تا ہے کہ وہ اُس مخصو ص مو قع سے اپنا فا ئد ہ ڈھو نڈتا ہے اور بھر پو ر فا ئد ہ اُٹھا تا ہے۔
اب یہا ں با ت بے شک فر دِ وا حد کی ہے لیکن اس فر دِ و ا حد کا اصل مقصد کسی نہ کسی طر ح سے معا شر ے کی اصلا ح ہے۔بہت مشکل ہو تا ہے کہ کو ئی اِس کٹھن مہنگا ئی کے دور میں اپنا جی جلا کر معا شر ے کی اصلا ح کا سو چنا اور تین وقت کی روزی رو ٹی کو یوں ٹھو کر ما رنا۔ بھلا کو ن ایسا کر سکتا ہے۔ہم انسا ن ہیں اور ہما ر ی سو چ صر ف اور صرف تین وقت کی روز ی رو ٹی پر ہی مر کو ز ہو تی ہے۔کا ش کہ خدا نے پیٹ کا یہ پلندہ انسا ن کو نہ دیا ہو تا تو شا ید انسا ن اِس پیٹ کے بکھیڑ ے سے با ہر نکل کر معا شر ے کی تعمیر و تر قی میں اپنا حصہ ڈالتا۔