کالمز

جی بی سی سی اجلاس اور شاہ صاحب کی ناراضگی

تحریر:اقبال بجاڑ

فہیم اختر گلگت بلتستان کے قابل اور ابھرتے ہوئے نوجوان صحافی ہے،اچھے کالم لکھتے ہے،ان کے ساتھ اکثر ملاقات ہوتی رہتی ہیں، وہ میرے بہترین دوست ہے۔اکثر ملاقاتوں میں موزوں صحافت اور کالم نگاری کے حوالے سے ہوتا ہے وہ بہت آئیڈیاز رکھتا ہے۔ جس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں بھی لگا رہتا ہے۔پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے صوبائی صدر بھی ہے۔ کل کسی کام سے کرنل حسن مارکیٹ کیساتھ ایک فوٹوسٹیٹ کی دوکان میں جارہا تھا کہ اچانک کسی نے میرا بازو پکڑا، مڑ کے دیکھا تو فہیم بھائی تھے تو ہم فوٹو سٹیٹ کے دوکان کے ساتھ والی ہوٹل میں گئے۔ وہاں مختلف موزوں پر گپ شپ بھی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آج عیسیٰ حلیم صاحب نے مقامی ہوٹل میں تقریب/اجلاس رکھا ہے وہاں جانا ہے اور ساتھ مجھے بھی آنے کو کہا اور یوں میں بھی اجلاس میں شرکت کرگیا۔

اجلاس میں گلگت بلتستان کے صحافت کے چمکتے ستارے ایمان شاہ صاحب، عیسیٰ حلیم صاحب، طارق حسین بٹ صاحب تھے،اور اردو ادب کے بھی روشن ستارے مشہور شاعر جمشید دکھی صاحب، افسانہ نگار احمد سلیم سلیمی صاحب، اشتیاق احمد یاد صاحب اور حفیظ شاکر صاحب بھی موجود تھے۔اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کی سعادت طارق حسین بٹ نے حاصل کی۔اجلاس کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے عیسیٰ حلیم صاحب نے کہا کہ کونسل بنانے کا مقصد کالم نگاروں کو ایک ایسا پلیٹ فورم میسر کرنا ہے جہاں پر مل بیٹھ کر اپنی کمزوریوں کو دور اور مسائل کا حل ڈھونڈنا ہے۔اور اس فورم کے ذریعے آنے والے لکھاریوں کی رہنمائی بھی ہوگی۔یہ ایک خوش آئیندا قدام ہے اور ایک ایسے پلیٹ فارم کی اشد ضرورت تھی جہاں کالم نگاروں کو مل بیٹھنے اور سیکھنے کا موقع ملیں اور ایک لکھنے والے کے مسائل لکھنے والوں کے درمیان ہی حل ہونگیں اور ان کا حل بھی گلگت بلتستان میں ابھی تک لوگوں میں میچورٹی نہیں آئی کہ صحافت کے اہمیت سے آگاہ ہوسکے۔ملک کے دیگر صوبوں کی طرح یہاں لکھنا کسی بھی موزوں پر آسان نہیں ہمارے لوگوں میں برداشت کی وہ صلاحیت ابھی تک نہیں آئی کہ وہ حقیقت کو ہضم کرسکے اجلاس میں موجودہ افسانہ نگار احمد سلیم سلیمی صاحب کا کہنا تھا کہ ہمیں نیشنل لیول پر کیوں نہیں لیا جاتا اس کی بات بجا ہے کہ گلگت بلتستان کو نہ تو پرنٹ میڈیا اور نہ ہی الیکٹرونک میڈیا نے وہ جگہ اور اہمیت دی جو ہمارے حق بنتا ۔ہمارے پاس ملکی لیول پر لکھنے والے لکھاری بھی ہیں جیسے اقبال عاصی جن کے کالم رنگین پیج میں نوائے وقت میں چھپتے ہیں اسطرح مجاہد علی مجاہد کے کالم جنگ میں اور ڈاکٹرافضل سراج نیشنل اور انگریزی موتبر اخبارات میں کالم چھپتے ہیں۔لیکن وہ حصہ نہیں ہمارا ملکی میڈیا میں جو اصل میں ہونا چاہیے۔لیکن ہمارے مقامی اخبارات بھی تو کسی سے کم نہیں وہ نیشنل کالم نگاروں کے کالم تو کاپی کریں گے لیکن مقامی کالم نگاروں کے کالموں کیلئے بہانے تراشے گے۔ بعض مقامی اخبارات مقامی کالم نگارروں کو چھاپتے ہیں لیکن بعض اخبارات دعو ے تک رہتے ہیں۔ ب

ات ہورہی تھی گلگت کونسل آف کالمسٹ کی۔ اس اجلاس میں ہمیں بھی بات کرنے کا موقع ملا گو کہ مختصر بات کی مگراجلاس میں میں نے شاہ صاحب کی ناراضگی مول لی۔ان نے اظہار ناراضگی تو نہیں کیا اس کے چہرے اور اجلاس میں شرک دیگر دوستوں کی باتوں سے ہم نے یہ اندازہ لگایا کہ شاہ صاحب کو یقیناََ ہماری بات بری لگی۔لیکن اجلاس میں ایمان شاہ صاحب کے بات میں وزن تھا کہ ہر مہینے ایک نشست ہو جس میں ممبر کالم نگاروں کے چھپنے والی کالموں کوزیر بحث لائے تاکہ ہماری غلطیاں درست ہو اور اچھے لکھنے والے کی حوصلہ افزائی بھی۔ میرے خیال میں یہ ایک بہترین مشورہ تھا جس پر عمل کرنا چاہیے۔ میری تجویز یہ ہوگی کہ اس کونسل میں ممبر شپ قواعد کو سخت نہ رکھا جائے اور ان لکھاریوں کو اجلاس میں دعوت دی جائے جو اچھا لکھتے تھے اب کسی بھی وجہ سے نہیں لکھ رہے۔ انشاء اللہ یہ کونسل میں نیک مقصد کیلئے بنا ہے وہ ضرور پورا ہوگا۔اخر میں ایمان شاہ صاحب سے یہی گزارش ہے کہ وہ بہت اچھا لکھتے ہیں اور ایک ایسے مقام پر ہیں جہاں سے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کیساتھ ان کی رہنمائی بھی کرسکتے ہیں تو آپ کا اس کونسل کیلئے جو جذبہ ہے وہ ہم جیسے نادان لوگوں کی ناراضگیوں سے کم نہ ہوں اور امید ہے ہماری ایک استاد کی طرح رہنمائی فرمائے گے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button