میری ذات پر تنقید کرنے والوں کو معاف کرتا ہوں
تحریر ۔سید تنویر حسین
حال ہی میں وجود میں آنے والی عوامی ایکشن کمیٹی نے عوامی حقوق غصب کرنے کے خلاف12 روز کا طویل دھرنا دیکر تاریخ رقم کر دی جو کہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں بڑے دھرنے کے طورپر یاد کیا جائے گا ۔اس دھرنے میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام ،سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی ۔ دھرنے کا مقصد گلگت بلتستان سے گندم سبسڈی کی بحال سرکاری ہسپتالوں سے فیسوں کاخاتمہ ،لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات سمیت 7 دیگر نکات شامل تھے ۔ 12 روز مسلسل دھرنے گلگت بلتستان کے ساتوں اضلاع میں جاری رہے ۔ دھرنے کے باعث شاہراہ قراقرم بند رہا جس کی وجہ سے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ گلگت شہر اور دیگر اضلاع میں بھی ٹرانسپورٹ کی بند ش سے سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے ملازمین کو بھی سخت مشکلات سے دو چار ہو نا پڑا اور کاورباری اشخاص کو کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ۔
بہر حال اس طویل دھرنے کا اختتام اس وقت ہوا جب وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے گندم کی قیمت فی کلو14 روپے سے کم کر کے 11 روپے کرنے کا اعلان کیا۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر تمام اضلاع میں احتجاجی دھرنے ختم کر دئیے گئے ۔عوامی ایکشن کمیٹی کا یہ دھرنا تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا ۔عوامی ایکشن کمیٹی بل آخر کامیاب ہو گئی اور عوام کے دلوں میں اپنے لئے جگہ بنا لیا جس پر عوامی ایکشن کمیٹی مبارک باد کی مستحق ہے ۔اگر حکمرانوں کی جانب سے چارٹر آف ڈیمانڈ پر عملدرآمد نہ بھی ہوتا تو بھی میں عوامی ایکشن کمیٹی کے اس دھرنے کو نا کام نہیں بلکہ کامیاب قرار دیتا ۔ اگر گندم سبسڈی بھی نہ ملتی ،ہسپتالوں میں فیسوں کا خاتمہ بھی نہ ہوتا اور دیگر مطالبات بھی تسلیم نہیں کرتے تو بھی یہ دھرنا میرے نظر میں کامیاب ثابت تھا کیونکہ اس دھرنے سے گلگت بلتستان کا سبسڈی ،لوڈشیڈنگ اور دیگر مسائل سے بڑھ کربڑ امسائل حل ہو گیا.
ایکشن کمیٹی کے اس دھرنے میں گلگت بلتستان کے عوام جو کہ فرقوں میں بٹے ہوئے تھے اپنے حقوق کی حصول کیلئے متحد ہو گئے امن کسی نعمت سے کمی نہیں اس دھرنے نے گلگت بلتستان کے عوام کو امن کی دولت دے دی جس کیلئے گلگت بلتستان کے عوام صدیوں سے ترس رہے تھے اتحاد و اتفاق ہی وہ شے ہے جس کے ذریعے قوموں کی ترقی ممکن ہو سکتی ہے اور اپنے حقوق کی خاطر سنی ،شیعہ،اسماعیلی ،نوربخش نے اپنے حق کیلئے ایک ہو کر جدوجہد کی اور وہ اس میں کامیاب ہو گئے ۔ فرقہ واریت کی لعنت سے نکل کر ایک ہونا کسی کامیابی سے کم نہیں ۔امن کی فضا کو قائم کرنے میں عوامی ایکشن کمیٹی نے کلیدی کردار ادا کیا ۔اس دھرنے سے کاروباری اشخاص ،طلباء سمیت مسافروں کو مشکلات کا سامنا توکرنا پڑا لیکن ہر مشکل کے بعد آسانی ہوتی ہے اور یہاں کے عوام کو اتحاد و اتفاق کی نعمت مل گئی اس دھرنے سے حکمرانوں کو بھی سبق مل گیا اب حکمران ایسے اقدامات جو عوامی مفاد کے بر عکس ہو ں ایسی اقدامات اٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچنے پر مجبور ہو جائینگے اور 12 روز کا یہ دھرنا عوامی مفاد کے بر عکس اقدامات اٹھانے سے حکمرانوں کو کافی حد تک روک دیگا ۔بہر حال عوامی ایکشن کمیٹی کو ان کی کوششوں کا پھل مل گیا.
مگر ان دھرنوں کے دوران کچھ اشخاص اپنے خطاب کے دوران حکومتی اداروں ، وزراء خصوصاً وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کی ذات کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتے رہے میرے خیال میں کسی کی ذات کے خلاف باتیں کرنا غیر اخلاقی فعل اور قابل مذمت ہے ۔کارکردگی کی بنیاد پر تنقید اور اصلاح واحوال ایک مہذب معاشرے کی نشانی ہے لیکن کسی کی ذات پر کیچڑ اچھا لنے کی کوئی بھی معاشرہ بھی اس کی اجازت نہیں دیگا۔ ہمیں آئندہ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کسی کی ذات پر ایسے الفاظ کے استعمال سے گریز کیا جائے جس سے کسی کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچے ۔عوامی ایکشن کمیٹی کے دھرنوں میں مقررین کی جانب سے وزیر اعلیٰ کی ذات کو ہدف تنقید کا نشانہ بنانے اور ان کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے والوں کو معاف کر کے سید مہدی شاہ نے اپنی بڑا پن اور سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا ہے اس سے اندازہ ہو تا ہے کہ وزیر اعلیٰ ایک عوامی لیڈر ہیں اور عوامی مفاد کی خاطر ذاتی اختلافات پر بضد نہیں ہوئے جس پر وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کا کردار بھی قابل تعریف ہے۔