کالمز

اساتذہ کا احتجاج اور انا کی جنگ 

سرکاری اداروں سے وابستہ ملازمین کااپنے حقوق اور مطالبات کے حصول کیلئے ہڑتال اور احتجاج کا سلسلہ محکمہ واٹر اینڈ پاور ،پاپولیشن ویلفےئر ،لیڈی ہیلتھ ورکرز ،پیرا میڈیکل سٹاف ،ڈاکٹروں اور کنٹریکٹ کی بنیاد پر کام کرنے والے آفیسران سے ہوتا ہوا بالاخر سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ تک پہنچ گیا اور نہ جانے مزید کن کن اداروں کے ملازمین اس عمل کا حصہ بن جائیں گے ۔گزشتہ ماہ ڈاکٹروں کی ہڑتال کے حوالے سے اپنے ایک کالم میں راقم نے یہ ذکر کیا تھا کہ اگر صوبائی حکومت وفاق کے ذریعے ڈاکٹروں کے مطالبات حل کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر ڈاکٹروں کا یہ اقدام دیگر اداروں کے ملازمین کیلئے مشعل راہ بن جائیگا اور ہر کوئی ڈنکے کی چوٹ پر اپنے مطالبات منوا کر دم لینگے جو آج بالکل درست ثابت ہوا.

SAFDAR ALI SAFDARڈاکٹروں کی ہڑتال اور احتجاج ختم ہوتے ہی کنٹریکٹ آفیسران نے ملازمت کی مستقلی کیلئے ہڑتال کی ٹھان لی اور صوبائی حکومت کو ڈیڈھ سو کے قریب کنٹریکٹ ملازمین کی ملازمت کی مستقلی کیلئے قانون ساز اسمبلی سے خصوصی قانون منظور کرانے پر مجبور کر دیا اور عنقریب ان لوگو ں کے سروں پر سے کنٹریکٹ ملازمت کا خوف اتر جانے والا ہے اس سے قبل محکمہ واٹر اینڈ پاور کے ساڑھے چار ہزار ملازمین نے بھی ملازمت کی مستقلی کیلئے یہی حربہ استعمال کر کے کامیابی حاصل کی تھی ۔ اسی طرح لیڈی ہیلتھ ورکرز اور پاپولیشن ویلفےئر کے ملازمین کیلئے بھی یہی طریقہ نیک شگون ثابت ہوا لیکن افسوس کہ ایک محکمہ تعلیم ہی ہے جو ہر وقت تنازعات ،مسائل اور الزامات کی لپیٹ میں رہتا ہے ۔ بظاہر تو یہ ان سب سے مقدس اور با عزت شعبہ ہے مگر موجودہ حالات میں محکمہ تعلیم گلگت بلتستان ایک بد نام ترین شعبہ سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ صوبائی حکومت ہو، متعلقہ وزیر ہو، بیورو کریسی ہو یااساتذہ ہوں یا کوئی اور نام تو محکمہ ہذا ہی کا لیا جا رہاہے اس ادارے کے ساتھ شروع میں سیب سکولوں کے اساتذہ کی مستقلی کا معاملہ لٹک گیا جسے محکمہ ہذا کے ہوشیار وزیر نے دو سال قبل اسلام آباد سے ایک اخباری بیان کے ذریعے حل کرانے کا شو شا چھوڑ کر کچھ عرصے کیلئے ان اساتذہ کا منہ بند کروانے کی کوشش کی مگر جھوٹ تو جھوٹ ہوتا ہے آج نہیں تو کل اس کی حقیقت کھل کر سامنے آسکتی ہے اور وہی ہوا کہ دو سال تک ملازمت کی مستقلی کی آس لگائے بیٹھے ہوئے ملازمین کو وزیر موصوف کے جھوٹے بیان کی اصلیت کا پتہ چل گیا اور ایک بار پھر سیب سکولوں کے اساتذہ نے صوبہ بھر میں احتجاج کی کال دیدی. خدا جانے اب کی بار ان بے چار ملازمین کو کونسا جھانسا دیکر واپس بھیجا جائے گا؟

محکمہ تعلیم کی یہ کہانی یہاں تک ختم نہیں ہوتی بلکہ اب تو یہ ایک لمبی داستان بننے جا رہی ہے کیونکہ محکمہ ہذا کے زیر نگرانی چلنے والے سرکاری سکولوں کے سینکڑوں اساتذ ہ بھی اپنے مطالبات کے حق میں ان دنوں سڑکوں اور چوراہوں پر احتجاج میں مصروف ہیں اور بعض مقامات پر تو سکولوں کو تالے لگا کر طلباء کو بھی اپنے ساتھ احتجاج میں شامل کیا گیا ہے یوں محکمہ تعلیم کے اندر تدریسی عمل مکمل طور پر جمود کا شکار ہو کر رہ گیا ہے اس کے باوجود حکومتی ذمہ داران مسئلے کے حل کیلئے ٹس سے مس نہیں ہیں دوسری جانب لیکچرار اینڈ پروفیسرز ایسوسی ایشن بھی حکومتی وعدے پر کافی عرصہ خاموشی اختیار کرنے کے بعد ایک بار پھر مطالبات کے حصول کیلئے احتجاج کیلئے پر تول رہی ہے اور عنقریب کالجوں میں بھی نظام تعلیم درہم بر ہم ہونے والا ہے ۔ایسے میں خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مسائل کے گرداب میں پھنسے ہوئے ملازمین کی جانب سے مشترکہ مفادات کے حصول کیلئے عوامی ایکشن کمیٹی طرز کی کوئی تحریک جنم لینے کی صورت میں پاکستان پیپلز پارٹی صوبائی حکومت کیلئے اس سے کڑا امتحان اور کچھ نہیں ہو گا جس کے نتیجے میں حکمرانوں کیلئے اگلی پانچ سالہ حکومت کے خواب نا ممکن بن کر رہ جائیں گے ۔ لہذا وزیر اعلیٰ اور ممبران اسمبلی اناکی جنگ لڑنے کی بجائے اساتذہ کے مسائل پر توجہ دیں تا کہ علاقے کے ہزاروں طلباء کا مستقبل تاریک ہونے سے بچایا جا سکیں ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button