صدائے معلم۔برائے تعلیم
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ یونیسکو United Nations Educational, Scientific and Cultural Organization, UNESCO) )کے ۱۹۹۴ء کے سفارشات کے مطابق ۵اکتوبر کو سالانہ ’یوم استاد‘ کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ جس کا مقصد عالمی سطح پر اساتذہ کرام کے حقوق اور ضروریات کے متعلق اگاہی دی جاتی ہے۔ اس دن کو بھی نئی نسل کی تعلیم وتربیت کے لئے اساتذہ کرام کی خدمات اور ضرورت کے پیش نظر ان کی پیشہ ورانہ خدمات کیلئے حکومتی اور نجی سطح پر پروگرام تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ انٹرنیشنل ایجوکیشن(IE)کے۱۹۶۶ء اور ۱۹۹۷ء کے سفارشات کے عین مطابق عمل در آمد کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک سو سے زائد ممالک اور چار سو سے ذائد نجی تعلیمی ادارے اس عمل میں حصہ دار ہیں۔ اس عالمی تعاون میں پاکستان بھی شامل ہے اور اس معاہدے کی روح سے اساتذہ کے جائز حقوق کی پاسداری کا پابند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اس دن کو ’سلام ٹیچر ڈے‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس تمہید کا مطلب یہ ہے کہ اساتذہ کرام کے حقوق کے لئے عالمی سطح پر جدوجہد جاری ہے اور اس جدوجہد کا سہرا بھی یورپ کے باشعور قوم کا جاتا ہے جنہوں نے اپنی قوم کے مستقبل کی تعلیم کے لئے استاد کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ جنوبی ایشیاء کے حالات دنیا کے تیسرے ملکوں کی طرح تعلیم کے لئے مناسب نہیں۔ یہاں تعلیم پر بہت کم سالانہ بجٹ کا حصہ دیا جاتا ہے۔ اس خطے کے عموماََ ممالک فلاحی کم اور دفاعی زیادہ ہیں۔یہاں کے مذاہب کے اصول کو دیکھا جائے تو ان کی آفاقی تعلیمات تعلیم کے لئے وسیع ہیں۔ مثلاَاسلام معلم کی قدرومنزلت کو بہت اعلیٰ مقام دیتا ہے۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں تک فرمایا کہ’مجھے معلم بناکر بھیجاگیا ہے‘۔ قرآن پاک کے علاوہ دوسرے دینی کتب میں بھی تعلیم اور معلم کو بہت خاص اہمیت دی گئی ہے۔ لیکن اس تمام کے باوجود یہاں کے سیاسی حالات اور حکومتی اقدامات اساتذہ کے لئے کبھی نیک نہیں رہے ہیں۔ یورپ میں ایک استاد کی بڑی قدرومنزلت ہے اور حکومتی سطح پر تعلیم کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ ہمارے ملک میں محکمہ تعلیم کو کوئی خاص اہمیت نہیں۔ ہر نئی حکومت اپنے وجود کے ابتدائی دنوں میں ہر محکمے کے وزیر کا اعلان کرتی ہے لیکن تعلیم کو ایک مشیر کے حوالے کیا جاتا رہاہے وہ مشیر ترقی کرتے کرتے وزیر بن جاتاہے۔ وزیروں کو بھی اس محکمے کا شاید کم مزا(مراعات) ملتی ہونگی اس لئے کوئی خاص توجہ نہیں دیتے ۔ شازونادر ہی ان کا ایک بیان کسی اخبار میں دیکھا جاتا ہے۔ ہمارے ملک کی شرح تعلیم ایک اندازے کے مطابق ۵۷ فیصد بتائی جاتی ہے۔ جس میں نجی اداروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ گلگت بلتستان کی شرح تعلیم ۳۷ فیصد ہے۔ یہ شرح بھی چند علاقوں کی جہ سے ہے اگر ان کی خواندگی کو الگ کیا جائے تو شاید ۱۰ فیصد سے بھی کم ہوگی۔ خواتین کی تعلیمی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔خطے میں ناخواندہ لوگوں کا ہجوم ہے جو کسی بھی وقت امڑ سکتے ہیں۔ سرکاری سطح پر سکولوں کی یہ حالت ہے کہ آج تک کسی ’’بڑے‘‘ کی اولاد نے ان سرکاری سکولوں کی طرف قدم نہیں رکھا۔ شاید ملک میں کوئی چند مثالیں ہو۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے تعلیم کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس کے باوجود محکمہ تعلیم کو سرکاری سطح پر بہت کم ترجیح دی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں استاد کی کوئی قدر نہیں۔ پولیس‘ فوج اور سول سروسس کے مراعات اساتذہ سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ معاشرے میں استاد کو معمولی خادم سمجھا جاتا ہے۔ سرکاری تنخوہوں کے سکیل میں بھی اساتذہ کرام بہت کم مراعات کے حامل رہے ہیں۔ محکمہ تعلیم کے سکیل سولہ اور کسی اور محکمے کے بالکل اسی سکیل میں آسمان زمین کا فرق ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل کا احوال اساتذہ کرام سے سن کر حیرت ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ سوتیلی ماں کا یہ سلوک کیوں کیا جاتا ہے۔ معاشرے میں لوگ اساتذہ سے توقعات بہت زیادہ رکھتے ہیں لیکن ان کے مراعات اور سہولیات کا کسی کو کوئی اگاہی نہیں۔ چند دن پہلے کچھ اساتذہ سے ملاقات کی اور ان سے اس جدوجہد کے بارے میں سوال کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس محکمے میں ملازمت کا واضح نظام نہیں ۔ ایک استاد سکیل ۱۶ میں یا کسی اور میں بھرتی کیا جاتا ہے اور بیس بیس سال تک اسی سکیل میں کام جاری رہتا ہے۔ ان کی پیشہ ورانہ ترقی کے لئے کوئی خاص بندوبست نہیں۔ سکول سطح پر ہیڈ ماسٹر‘ ڈی ڈی او‘ ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن سمیت ادارے کے نچلی سطح پر کوئی واضح اختیارات بھی نہیں۔ سکول سطح پر کوئی تعلیمی مناسب بجٹ نہیں ۔ اساتذہ کی تدریسی تربیت کا بھی کوئی انتظام نہیں۔ کچھ سالوں سے نجی اداروں نے ان کی تربیت کا بیڑا اٹھایا ہے لیکن بہت ہی محددد سطح تک۔ گلگت بلتستان کے دور درراز اداروں میں دیوٹی پرمعمور اساتذہ کو مرکز میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ یہاں تک دور دراز کے ایک ٹیچرز سے جب سوال پوچھا گیا کہ کب اپنے ضلعے کے مرکزی دفتر تک گئے تھے؟ وہ بولے یاد نہیں شاید ملازمت جائن کرنے گئے تھے تب سے کوئی ضرورت نہیں پڑی ہے!سکول سظح پر انٹرنٹ اور اخبار کی سہولت نہیں۔ نصاب کی تبدیلی ہوتی رہتی ہے لیکن ان کی عملی عمل درآمد کے لئے تربیت نہیں۔ کئی سال پرانے سی ٹی یا بی ایڈ کی سند سے ہی تعلیم وتربیت کا مقدس کام جاری ہے۔ زمانے کی ترقی اور میڈیا کی تندوتیز معلومات سے لوگ گھروں مستفید ہیں لیکن اساتذہ کو یہ سہولت سکول میں نہیں۔
عظمت معلم اور ان کی صنعت گری
یہ فریضۂ علمی و شعبہ پیغمبری
اب سوال یہ ہے کہ سالانہ تعلیمی نتائج کیسے صحیح ہونگے؟ امتحانی پرجہ جات کے بارے کوئی بریفنگ کبھی کسی استاد نے زندگی میں نہیں لی ہے اب وہ بچوں کو کس پیٹرن پر درس دے گا۔ ہر محکمے میں کسی نئی ایجاد یا واقعے پر متعلقہ ادارے کے ملازمین کو تربیت دی جاتی ہے لیکن محکمہ تعلیم اس سہولت سے بہت کم مستفید ہے۔ نئے اساتذہ کی تعلیم وتربیت کوئی نہیں۔ بس! اللہ کا نام لیکردرس وتدریس جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سکول سطح پر فلپ چارٹ ‘ مارکر‘تدریسی مواد کا کوئی انتظام نہیں۔ معیاری تعلیم کہاں سے آئی گی جناب؟ ترقی یافتہ ملکوں میں کلاس روم سطح میں ملٹی میڈیا‘ الیکٹرانک پیزنٹیشن ہوتے ہیں۔ فٹو کاپی اور انٹرنٹ کی سہولت اور مسلح لباٹیز ہوتے ہیں۔ اساتذہ کی مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ رہائش سے لیکر ٹراسپورٹ تک کوئی سہولت نہیں۔ اس تمام صورت حال میں جو بچے ان تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کی کیا حالت ہوگی اور مستقبل میں ان کی منزل کیا ہوگی؟ الحمد للہ اب ان تمام ضروریات کو اساتذہ کرام نے خود ہی محسوس کیا اور پر امن احتجاج شروع کی ہے تاکہ اس قوم کو اور حکومت کو احسا س ہوجائے کہ محکمہ تعلیم میں کیا کیا ہورہا ہے۔ یہ محض تنخواہ کے لئے نہیں بلکہ اس ادارے کی بقا اور ترقی کی اگاہی کے لئے پہلی قدم ہے۔ حکومت وقت کو چاہئے کہ پہلی فرصت میں تعلیم کو ترجیح دے۔ جب لوگ تعلیم یافتہ ہونگے تو حکومت کے لئے افرادی قوت ملے گی اور اچھے لوگوں کی موجودگی میں حکومت کو مسائل کم درپیش ہونگے۔ پڑھے لکھے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہی سے قوم کی ترقی ممکن ہے۔ ’استاد قوم کا معمار ہے‘ اس اصول پر تب کچھ ہوسکتا ہے جب معمار اپنے صلاحیت اورتربیت کے ساتھ اپنے اوزار سے مسلح ہو ورنہ معمار کیا معماری کرے گا۔ سال میں ایک دفعہ ’سلام ٹیچرڈے منانا کافی نہیں آج کل خالی سلام سے کچھ نہیں مالی وسائل اور تربیت سے کام چلتا ہے۔ ایک مہینے کا قریب کا عرصہ گزرا ان معماروں کا ابھی تک کسی نے خبر نہیں لیا۔ ہمارا ملک فلاحی ریاست نہیں دفاعی ریاست ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کب تک ہم غیروں کے اسلحہ وتربیت پر اس ملک کو بچائیں گے۔۔۔ کیا اساتذہ کے ساتھ یہ سلوک ہوناچائیے؟ سہولیات اور مراعات کے بغیر معیاری تعلیم کی خواب کی تعبیر ہوگی؟ کیا حکومت کی پہلی ترجیح تعلیم نہیں ہونی چائیے؟ حکومت کو صرف چند اداروں کی فکر ہے کیوں ہے؟