کالمز

’’ دیوالی اور بدحالی‘‘

کل دوپہر میں بیٹھا ٹی۔وی دیکھ رہا تھا تو دو چینلز پہ نظر پڑی ایک پر میں نے دیکھا کہ جناب و زیر اعظم پاکستان محترم میاں نواز شریف صاحب ہندؤں کے مذہبی تہوار ’’دیوالی‘‘ کی نسبت منعقدہ ایک تقریب میں خطاب کر رہے تھے ۔
’’دیوالی ‘‘ہندوؤں کا مذہبی تہوار ہے جس میں رنگوں کے سفوف سے نقش و نگار کیا جاتاہے اس تہوار میں چراغا ں کی جاتی ہے ،گھروں کو سجایا جاتا ہے ،آتش بازی کی جاتی ہے اور عبادات کی جاتی ہیں تحائف، دعوتیں اور میٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں اس تہوار کو دیوالی ، دیپاولی اور عید چراغاں بھی کہا جاتا ہے ۔ لفظ ’’ دیپالی‘‘ سنسکرت زبان سے ماخوذ ہے اس کے معنی دیپ، شمع،چراغ کے ہیں او ر ’’ آولی‘‘ کے معنی قطار کے ہیں اس طرح ’’دیپاولی ‘‘ یا ’’ دپاولی‘‘ کا مطلب دیپوں کی قطار کے ہیں اس تہوار کو ہندؤں کے ساتھ ساتھ سیکھ اور جین مت والے لوگ مناتے ہیں ۔
دیوالی کی مناسبت سے اس تقریب کا انعقاد کراچی میں ہوا جس میں وزیر اعلی سندھ، گورنر سندھ اور وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے شرکت کی مجھے بہت خوشی ہوئی کہ بحیثیت وزیر اعظم پاکستان کسی نے پہلی اس مذہبی اقیلت کے تہوار میں شرکت کی ،وزیر اعظم کی تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ۔
’’ پاکستان سب کا ہے اور پاکستان میں سبھی آزاد ہیں کوئی مسلمان ہے یا غیر مسلم ہندؤ، سیکھ ہے یا کوئی پارسی ہے وہ اس ملک کے شہری ہیں خواہ وہ کسی بھی مذہب یا فرقہ سے تعلق رکھتا ہو میں اس کا وزیر اعظم ہوں کیوں کہ پاکستان سبھی کا ہے ۔
وزیر اعظم کی اس تقریر کا مجھ پر بہت اچھا اثر ہوا اور میں وزیر اعظم صاحب کی اس تقریب میں شمولیت پر بحیثیت پاکستانی شہری ممنون بھی ہوں جناب وزیر اعظم کی ان اچھی اچھی باتوں کو ہی سوچ رہا تھا کہ اسی دوران میری نظر ایک اور ٹی۔ وی چینل پر پڑی جہاں سندھ کے علاقہ نگر پارکر کے حوالہ سے ایک ڈاکو منٹری نشر کی جارہی تھی اس علاقہ میں ہندؤ ں اکثریت بستی ہے مگر میں نے دیکھا کہ اس علاقہ میں نا صاف پانی نا ہی صیحت کی سہولیات اور نا ہی وہاں کسی قسم تعلیمی سہولیات ہیں جبکہ اسی ملک میں لاہو رجیسا ایک ایسا بھی علاقہ ہے جہاں میٹرو بس سروس ہے اور اب اورنج ٹرین چلنی ہے مگر وہیں یہ علاقہ ہے جہاں پر آج بھی بچوں کے لئے پرائمری سکول تک کی بھی سہولت آسانی سے میسر نہیں ہے اور نا صاف پانی کی سہولت ہے اور لوگوں کو میلو ں کا سفر پیدل طے کر کے اپنے اعلاج کے لئے ہسپتال جانا پڑتا ہے اور اگر کہیں ہسپتال میسر بھی ہے تو وہ وہاں پر اعلاج نہیں ملتا اگراعلاج ملتا ہے تو انتہائی مہنگا ہے ۔ نگر کے علاقہ میں دیوالی بھی منائی جاتی ہو گی مگر دیوالی سے ذیادہ بدحالی نظر آرہی تھی جیسے دیوالی میں دیوں کی قطاریں ہوتی ہیں ایسے ہی یہاں بدحالی قطار در قطار ہے دیوالی روشنوں کا تہوار ہے اور یہاں اندھیرے ہیں جہالت کے اندھیرے سہولیات نا ہونے کے اندھیرے اور ایسی اندھیروں کی رات ہے بقول غالب ’’ رات کٹتی نظر نہیں آتی‘‘ اس ڈاکومنٹری میں انہیں مایوسی کی باتوں میں ایک خوشگوار خبر یہ تھی کہ اس علاقہ میں دو ہسپتال المہدی ہسپتال اور طاہر ہسپتال ہیں جو کہ حقیقی طور پر اس علاقہ کے عوام کی خدمت کر رہے اور اس کے ساتھ ساتھ گریس کمیوٹر کالج ہے جو کہ عوام میں کمپیوٹر کی جدید تعلیم کو عا م کررہا مگر اس علاقہ میں حکومتی مشنری کا کام نا ہونے کے برابر ہے میاں صاحب کو چاہیے کہ اگر وہ سندھ گئے ہیں تو تھوڑی سی مشقت اورکریں اور نگر پارکر جائیں اور جا کر ان لوگوں کے لئے عملی اقدامات کر کے اس بات کا ثبوت دیں کہ پاکستان اگر سب کا ہے تو اس کے وسائل پہ بھی سب کا حق ہیں اور میاں صاحب کو اس بات کا بھی نوٹس لینا چاہیے ہے آخر وہ کونسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک اور خصوصاً بھارت جا رہے ہیں ۔
اگر محترم وزیر اعظم صاحب یہ تینوں کام عملی طور پر کریں گے تو ہمیں اس بات کا عملی ثبوت ملے گا کہ واقعہ ہی یہ ملک سب کا ہے ورنہ ہندو برادری اور ہر پاکستانی آپ کی باتوں کو سیاسی اور جذباتی باتیں قرار دے گا ۔
اس تقریر میں وزیر اعظم صاحب نے یہ بھی گلہ کیا کہ کیوں میاں صاحب کو ’’ہولی‘‘ میں مدعو نہیں کیا گیااورساتھ ہی خواہش کا اظہار کیا کہ میرا دل کرتا ہے کہ آپ مجھ پر رنگ ڈالیں اور میں بھی ہندو برادری کے ساتھ ہولی کھیلوں۔
اس بات پر حال میں موجود لوگوں نے نعرہ لگایا ’’ آیا آیا شیر آیا‘‘ ۔ جناب میاں صاحب آپ کی خواہش قابل قدر ہیں۔ مگر شیر بنیں کبھی ان پاکستانیوں کا بھی حال پوچھیں جن کے خون کے ساتھ آئے دن ہولی کھیلی جارہی ہے ان کے غم میں بھی شامل ہوں ان کو بھی اس بات کا احساس دلوائیں کہ یہ وطن ان کا بھی ہے ان ہزاری براری کے لوگوں ان احمدیوں ان شیعہ لوگوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلے والوں کا نوٹس لیں۔ ایسے اقدام بھی کریں کہ ان تمام اقلیتوں کو بھی لگے کہ یہ میاں صاحب ان کے بھی وزیر اعظم ہیں۔ یہ وطن پاکستان ان کا پاکستان ہے۔
جناب وزیر اعظم صاحب اگر آپ رنگوں کے ساتھ ہولی نا بھی کھیل سکیں تو کوئی بات نہیں مگر اگر آپ کے دور میں لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی رہے گی تو آپ ذمہ دار ہوں گے ۔ کیوں جتنا بڑا عہدہ ہوتا ہے ذمہ داری بھی اتنی ہی بڑی ہوتی ہے ۔
خدا کرے کے ہمارے وطن میں رنگوں کی ہولی ہوا کرے مگر خون کی ہولی کبھی نا ہو ( آمین)

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button