آئینی حقوق کامعاملہ پھر گول
10مارچ کوگلگت بلتستان کے عوام نے عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پرپورے گلگت بلتستان میں شرڈاؤن اورپہیہ جام ہڑتال کی یہ پہلی بارتھا جب گلگت بلتستان میں گندم کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف اورایکشن کمیٹی کے دیگر آٹھ مطالبات کے حق میں یہ ہڑتال کی گئی عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے کی گئی اس کامیاب ہڑتال کوحکمرانوں نے کچھ سنجیدہ نہیں لیا بلکہ وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہوگا کا راگ الاپتے رہے عوامی ایکشن کمیٹی نے گندم کی قیمتیں کم کرنے کے لئے صوبائی ووفاقی حکومت کوالٹی میٹم دیا اورتاریخیں دیتے رہے مگر اس پربھی حکمرانوں کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگی آخر کار 15اپریل کوعوامی ایکشن کمیٹی نے ایک بارپھرگلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں اپنے مطالبات کے حل تک مسلسل 12دنوں تک احتجاجی دھرنے دئیے یہ دھرنے گلگت بلتستان کی تاریخ میں پرامن اور طویل دھرنے تھے اس کی خاص بات یہ تھی کہ ان دھرنوں میں تمام مکاتب فکر کے لوگ شامل تھے جوکل ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملانے سے کتراتے تھے آج تمام اختلافات بھلاکراحتجاجی دھرنے میں ایک ہوگئے جو علاقے کے اس کے لئے اچھا ثابت ہوا گوان دھرنوں اورعوام کے باہمی اتحاد نے وفاقی اورصوبائی حکومت کوگھٹنے ٹیکنے پرمجبورکردیا اوران کا سب سے بڑا مطالبہ گندم کی قیمتوں میں کمی اوردیگر کچھ مطالبات حل ہوگئے.
عوامی ایکشن کمیٹی کے اس طویل دھرنے سے ایک طرف وقتی طورپرگلگت بلتستان کے عوام کوریلیف مل گیا دوسری طرف گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کا معاملہ ایک بارپھر سردخانے کی نظرہوگیا اورجبکہ گلگت بلتستان کے عوام کوگیارہ سوکی گندم ملنے سے یہاں کے کاشت کارجن کی زمینیں ہیں کاشت کاری چھوڑدیں گے اوریوں گلگت بلتستان کی زمینیں بنجرہوں گی اورعوام کام کاج نہیں کریں گے اگر عوامی ایکشن کمیٹی علاقے میں موجود بنجرزمنیوں کی آبادی کاری کے لئے حکومت کوہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کامطالبہ کرتی توکتنا اچھا ہوتا ہم کسی کے سامنے بھیک مانگنے کے بجائے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے مگر ایسا نہیں کیاگیا ہمارا المیہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو60سال تک 850کی گندم پنجاب سے ملتی رہی اوراب گیارہ سوکی مل رہی ہے جوکہ پاکستان کے دیگر صوبوں کی نسبت مفت ہے جبکہ ہم اتنے عیاش بن گئے ہیں کہ مانسہرہ سے سالانہ ساٹھ سے ستر کروڑ کی مرغیاں منگوائی جاتی ہیں اور پنجاب سے چالیس کروڑ روپے کا دودھ منگواتے ہیں آج ہم نہ غلہ بانی پرتوجہ دیتے ہیں اور نہ ہی مال مویشی پالتے ہیں اسی طرح اربوں کے حساب سے ہماری جمع بونجی علاقے سے باہر جارہی ہوتی ہے گلگت بلتستان کا سب سے اہم مسئلہ آئینی حقوق کامسئلہ تھا جوکہ بدستوراب بھی مسئلہ ہی ہے عوامی ایکشن کمیٹی نے جودھرنے گندم کی سبسڈی کے حصول کے لئے دئیے تھے اگر یہ دھرنے علاقے کے آئینی حقوق کے لئے دیتے تویقین سے کہا جاسکتا ہے کہ کوئی نہ کوئی حل ضرورنکلتا تھا اب چونکہ دھرنے صرف گندم کے لئے دئیے گئے تھے گندم تو ہمیں مل گیا جبکہ آئینی حقوق کا معاملہ مزید 50سال کے پیچھے گیا.
بذات خود مجھے کئی وزراء بیوروکریٹس اور سیاسی پارٹیوں کے رہنماوںُ نے بتایا کہ اب ہم گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کے بارے میں اس انداز کے ساتھ بات نہیں کرسکتے جس انداز کے ساتھ پہلے کرتے تھے جب بھی ہم آئینی حقوق کامسئلہ لے کرجائیں گے ہمیں وفاق یہ کہہ کرٹال دے گا کہ عوام کوحقوق مل گئے ہیں اورعوام کی ڈیمانڈگندم تھی وہ دے دی گئی ہے لہٰذا حقوق کی بات مت کریں قارئین ہم یہ فیصلہ آپ پرچھوڑتے ہیں کہ گندم کاحصول گلگت بلتستان کے لئے کتنا سودمند ثابت ہوگا افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری تاریخ گندم کے گرد گھوم رہی ہے یکم نومبرکوجب گلگت بلتستان آزادی کے اس وقت آزاد ریاست گلگت بلتستان کے پہلے صدر شاہ رئیس خان کوسول سپلائی ڈپوکاانسپکٹر بھرتی کرکے معاملہ گول کردیاگیا آج ایک بارپھرگلگت بلتستان کے عوام گندم کے لئے اپنے حقوق سے دستبردار ہوگئے یوں ایک بارپھر آئینی حقوق کامعاملہ گول ہوگیا۔