کالمز

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

دیہ زہرہ

آزادی کا مطلب سمجھنےوالوں کی سمجھ اور سوچنے والوں کی سوچ پہ منحصر ہوتا ہے. آزادی ایک ایسا مفہوم ہے جس کی مختلف معاشروں میں الگ الگ تشریحات کی گئی ہیںں-مختلف مفکرین کی مختلف رائے ہوتی ہیں ۔جس طرح میں اپنے ہاتھ کو حرکت دینے میں آزاد ہوں لیکن جہاں سے دوسروں کا ناک شروع ہوتی ہے میرے ہاتھ کی آزادی ختم ہو جاتی ہے ۔اصل آزادی کا مطلب یہ ہے کی قوم کے افراد اپنے افکار نظریے کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں۔آزادی تاریخی، سماجی، معاشی اور تہذیبی عوامل کے تحفظ اور بقا کا نام ہوتی ہے ۔کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ آزادی کا مطلب ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق سوچتا اور سمجھتاہے ہر جاندار جو پھلتا پھولتا ہے خواس خمسہ رکھتا ہے-مثال کے طور پرپرندے یقیناً آزادی کو دنیا کی خوبصورت فضا سمجھتا یے لیکن اس میں بھی مبہم ہےکیونکہ جب ہوا میں معلق دوسرے پرندے ایک دوسرے کا دشمن بن جائے تو پرندے بھی اپنے آپ کو آزاد نہیں سمجھتے۔۔اسی طرح زمین پر رینگنے والے حشرات بھی زمین پر آزادی چاھتے ہیں اس کا مطلب بھی دندناتے پھرنا نہی بلکہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے روزی روٹی کی تلاش اپنی مرضی سے کرنا ہے-اور یہاں تک کہ درختوں کو بھی بڑھنے کے لیے آزادی چاہئے درخت بھی صرف زمین میں گاڑھنے سے پھلتا پھولتا نہیں بلکہ کھلی فضا کی ضرورت پڑتی ہے اگر ارد گرد درختوں کی جھرمٹ ہو تو اُنھیں بھی آزادی میسر نہی آتی آہستہ آہستہ وہ سکڑنے لگتی ہے۔

جانداروں میں سے سب سے افضل جاندار اشرف المخلوقات جن کی نظر میں آزادی کے حوالے سے لاکھوں خیالات ہزاروں نظریات اور سینکڑوں بیانات اپنی اپنی سوچ کے مطابق پروان چڑھتے ہیں۔۔لفظ آزادی کے حوالے سے انسان منفی اور مثبت دونوں نظریہ رکھتے ہیں۔ اور معاشرہ دونوں نظریے کو بلا جھجھک قبول بھی کرتا ہے اورانسانوں نے آزادی کو کسی ملک وقوم کی چُنگل سے آزاد ہونا بھی قرار دیا ہے جہاں پر وہ اپنی مذہبی سیاسی اور نظریاتی آزادی کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔ مگر جب اس آزادی کے بعد اس آزاد ماحول میں رہنے والوں کو خود مختاری میسر نہ ہو اپنے گھر میں ہی بیگانگی کی زندگی گزرنے پہ مجبور کرے تو پھر اس آزادی کی زندگی میں بھی انسان کا دم گٹھنے لگتاہےجب انسان کے زبان پہ تالا لگا دیا جائے تو اس آزادی کی اہمیت کھو جاتی ہے-

آزادی کا مفہوم صرف دن بھر بے لگام پھرنا، اپنی مرضی سے زبان چلانا،ہر کسی کے پرواہ کیے بغیر مزاہمت کرنا’ انسانیت کی تزلیل کرنا ہرگز نہیں بلکہ آزادی کا اصل مطلب لب کا آزاد ہونا ہےآزادی تاریخی، سماجی، معاشی ولسانی اور تہزیبی عوامل کے تحفظ اور بقا کا نام ہوتا ہے۔۔ اپنے حق کےلیے آواز بلند کرنا، اپنے جائز حقوق کے لیے لب کو جنبش دینے کانام اصل آزادی ہے ۔آزادی کسی کے اوپر ظلم وجبر کرنا حق کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو دبانا حکمرانی کرنا نہی بلکہ ایک ایسا ماحول میسر ہونا جس میں ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی مرضی سے جینے کا ساماں میسر ہو ورنہ ظلم وجبر روز بروز بڑھتے چلے جایئں گے اور لب ایسے سل جایئں گے کہ آزادی کا نام و نشان بھی مٹ جائے گا ابھی بھی وقت ہے اے لب تو بول کیونکہ لب آزاد ہے اور میرا موضوع بحث بھی اصل میں لب کی آزادی ہی ہے آزاد پھرنا نہیں۔۔۔ ظلم و ستم کے خاردار راستوں کو کٹانے کے لیے آوازبلند کرنا آزادی ہے۔ آزادی کا جائز استعمال کرنا ہر طبقے کے لوگوں پر برابر کا ہے چاہے وہ زاتی معاملات ہو گھریلو، معاشرتی،یا ملکی۔۔ہر ایک کو لب کی آزادی ملے تو ناانصافی کا رونا کوئی بھی نہی رویے گا۔۔مگر افسوس لب کی آزادی صرف بدگمانی، لڑائی جھگڑا، تنقید برائے تنقید، معاشرتی بگاڑ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔آج لب کشائی کی ضروت ہر طبقے کو ہے مگر سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں گھر،ماحول ،معاشرہ سبھی میں ایک گُٹھن ہے کیونکہ زندہ انسانوں کی بھیڑ میں کوئی بھی حقیقت میں زندہ نہی ہے۔ حقوق کی پامالی کے باوجود بھی لوگ ایسے خاموشی اختیار کر رہا ہے جیسے کی مسعلہ بڑا نہی زخمی تو ہے مگر بھروانے والا کوئی ائے گا۔۔انسان ایسے پھر رہے ہیں جیسے اُڑتے ہوئے ایسے پرندے جو بغیر کسی نظم وضبط کے ہوا میں لڑکھڑاتے ہوئے پھر رہے ہو مگر اب کہ بار اے زخم دینے والو اب ہم سو نہی رہے جھاگا ہوا ہے اب لوگوں نے حق کے لیے بولناسیکھ لیا ہے لبوں پہ لگے تالے توڑ دیئے ہیں مگر آواز سننے والوں نے لگتا ہے پھر سے ان آوازوں کو دبانے کی کوشیش تیز کر دیا یے ۔لگتا ہے آنکھ مچولی کھیلنے والے پھر سے کھیلنا چاہتا ہے مگر اے لب تو خاموش مت رہنا تو بول کیونکہ لب آزاد ہے بول وگرنہ لبوں پہ ایسے تالے ٹیکس کی صورت میں لگا رہا ہےکہ قیامت تک اس علاقے کے عوام مل کےبھی اس تالے کو توڑ نہی سکے گا۔۔۔

قول وفعل میں تضاد کا کچھ عجیب سلسلہ یہاں پہ چل ریا ہے فضا میں کبھی کچھ تو کبھی کچھ افواہیں پھیل رہا ہے بیانات میں بھی تضاد اور سیاست ہیں ایسے سلسلوں کو پل میں ماشہ پل میں تولا سے تشبیہ دیا جائے تو بھی زیادتی نہی ہو گی رہی بات سیاست کی تو میرا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہی میں ان نا جائز ٹیکس میں پسنے والی غریب عوام کی بیٹی ہوں۔ لاکھوں غریبوں کی آواز ہوں۔۔ جنگ آزادی سے لیکر 65،71کی جنگ اور آج تک ہر محاذ اور باڈر پر جانوں کا نزانہ پیش کرنے والوں پر ظلم کا انبار لگا رہا ہے اپنے خون کو وطن پر قربان کرنے والوں پر ٹیکس لاگو کرنے کا فیصلہ کھلا تضاد سے کم نہیی۔۔
اس ظلم کے خلاف بول وگرنہ بقول فیض
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زبان اب تک تیری ہے
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم وزبان کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہ دے
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button