کالمز

اب جاگ میر ے اہل وطن جاگ خواب سے

احتشام علی (جامعہ کراچی) 

گزشتہ مہینے اسلام آباد میں ترقی پسند سوچ رکھنے والے طلبہ پر قا تلانہ حملہ ، اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ اس ملک میں معاشرے کے بھلاکے لیے سوچنا، اپنی موت کو دعوت دینے کا مترادف ہے۔ حالانکہ آئین پاکستان اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہاں کا ہر باشند ہ ،چاہیے وہ اُستاد ہو، طالب علم ہو، ڈاکٹر ہو،مزدور ہو یا کوئی بھی محنت کش، اپنے حق کے لیے اور ظلم کے خلاف آواز اُٹھا سکتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ کچھ اور ہی ہے ، یہاں حکمران آئین کی بات اُس وقت کرتے ہیں جب کوئی بات اُن کے ذات کے لیے نقصاندہ ہوتی ہے۔ حکمران بجائے عوام کو اُن کا حق دینے کے، وہ ایسے طریقہ کار سوچتے ہیں کہ جب کوئی اپنے حق کے لیے آواز بلند کرے تو اُس سے کیسے نِمٹاجائے۔ اس کا تازہ مثا ل ’’ قومی سلامتی بِل‘‘ کے ہے۔ جس میں اس بات کو بھی ذیر غور لایا گیا ہے، کہ اگر کوئی نوجوان اس نظام کے خلاف بغاوت پر اتر جائے تو اسکے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے گی۔

توجناب ، ذرا توجہُ فرمائیے، کیوں نہیں کھڑا ہو گا، وہ نوجوان، جس کا باپ بارہ گھنٹہ تپتی دھوپ میں مزدوری کے بعد گھر پہنچے تو بیوی اور بچے ایک وقت کی روٹی کے انتظار میں ہو۔ کیوں نہ بلند کریں وہ صدائے حق، جس کے چھوٹے بہن بھائیوں کے ہاتھ میں کتاب ہونا چاہیے وہ بھیک مانگتے پھر رہے ہو۔ کیوں نہ بنے آج وہ باغی ،جس کے ریاست نے اُس کو تعلیم،صحت او ر دو وقت کی روٹی دینے کا وعدہ کیا تھا وہ آج اُس سے چھینا جارہا ہو۔ کیوں نہ بولے وہ نوجوان جس کے ملک میں اس کی بہنوں کی عزت محفوظ نہیں، اور اس کے بھائی بھوک سے مر رہیں ہوکیوں نہ کرے وہ بغاوت جس کو آج تک فکری اورجغرافیائی آزادی نہ ملی ہو جس کو یہ معلوم تک ہی نہیں کہ وہ اُس ملک کا باشندہ ہے بھی یا نہیں، جس کے اُوپر اس ملک کا حکمران حکومت کرے رہے ہیں۔

قارئین اور دوستو! اگر غور کریں تو یہ سب کچھ ہم سب کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ ہم پر ظلم ہورہا ہے، ہم نے کبھی غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کی ہیں۔کس دنشور کا قول ہے۔ ’’ اگرکوئی شخص اپنے ظا لم کوطاقتور سمجھ کر اُس کے خلاف بغات نہیں کرتا، اُس سے بد ترین غلام کوئی نہیں‘‘۔ مولا علی ؒ فرماتے ہیں ۔’’ حق کے لیے لڑو کیونکہ نہ کوئی تمھیں رزق سے دور کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی تمھاری موت کو قریب لاسکتا ہے‘‘۔

اقتدار میں بیٹھے صاحب کردار آج ماضی سے وابستہ کچھ ایسے حالات اور واقعات کو اُچھال کر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں جن کی نہ حال میں کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی مستقبل سے اِس کا کوئی تعلق ۔۔۔یہاں عوام بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہے وہاں سابقہ امروں کے خلاف نام نہاد عدالتی کاروائیاں چلاکر خزانے سے کروڑوں روپے ہڈپ کر جاتے ہیں اور ملک دشمن عناصر سے مزاکرات کرنے کے لیے کبھی مطلبی اور سیاسی بیانات دے کر اہم مسائل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے اور دوسری طرف میڈیا اپنی مثال آپ ہیں ،اسی نااہل اسمبلی کے ارکان کو روزانہ ٹاک شوز میں بُلا کر اُن کی اختلافات کو تنزوح مزاح کی صورت میں عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

جہاں سرکار اور سرکار کے اداروں میں غفلت نظر آتی ہیں وہاں آزاد میڈیا بھی حقیقی معنوں میں اپنا فرض پورا نہیں کرتا ۔اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ گزشتہ دنوں گلگت بلستان کے لاکھوں لوگ اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ جو تقربیا دس دن تک دھرنے دیتے رہے ۔ اُس دوران ملک کی آزاد میڈیا کے چینلوں میں عمراکمل کی مہنگی شروانی پر بحث ہو تی تھی۔

ایسے میں ہم(عوام) مزدور ،کسان ،طلبہ اورتمام مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد اور محنت کش ، سب بہت سارے مسائل کے دلدل میں پھنسنے کے باوجود صرف ایک اُمیدلے کے بیٹھے ہیں کہ کوئی اچھا لیڈر آئے گا اور نظام ٹھیک کر یگا اور ہم سنورجاینگے لیکن ہم نے آج تک یہ نہیں سوچاکہ یہی امید پچھلے 67 سالوں سے ہمیں وراثت میں ملتی آئی ہیں ۔ کاش ہمیں اس بات کا علم ہو تاکہ خود کو سنوارنے کے لیے ایک اچھا لیڈر کی اتنی ضرورت نہیں جتنی ہمیں سماج کے مسائل سے آگاہ ہو نے کی ضرورت ہیں اور اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی طاقت سے ہی نظام ٹھیک کر سکتے ہیں اور خود کو سنوار سکتے ہیں ۔ آخر میں اس دُعا کے ساتھ قلم رکھتاہو کہ اللہ تعالی ہمیں علاقائی تعصب اور مذہبی تعصب سے بالاتر ہو کر قوم و ملک کی بہتری کے لیے جہدوجہد کرنے کا حوصلہ دے۔ آمین!

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button