ہم کتنے ذمہ دا ر شہر ی ہیں؟
تحریر ناہیدہ غالب
ہمار ے وطن عزیز مملکت پاکستان کو جہاں گوں نا گوں مسائل درپیش ہیں وہاں ایک سنگین مسئلہ آبادی میں بے تحاشا اضافے کابھی ہے ۔آبا دی جس قدر تیز ی سے بڑ ھ رہی ہے اُ سی قدر ما حو لیا ت پر اِس کے منفی اثرات شدید سے شدید تر ہوتے جا رئے ہیں۔اگر ہم وقت کے تقا ضوں سے نابلد رہے اور کو ئی مثبت حکمتِ عملی اپنا نے میں کو تا ہی بر تیں گے تو ہمیں بہت سنگین نتا ئج کا سا منا ہو سکتا ہے۔اِس سے پہلے کہ ہما را کل متا ثر ہو ہمیں آج کو سُد ھا ر نا ہو گا۔معز ز قا ر ئین ! میر ا اصل مقصدما حو لیا تی آ لو د گی کے با رے میں آ گہی ہے۔ہم سب بڑ ی آ سا نی کے سا تھ اِس با ت کا ذکر کر تے ہیں کہ صفا ئی نصف ایمان ہے۔کیا ہم اِس پر عمل بھی کر تے ہیں؟؟؟
اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ بازا رہو،سکو ل ہو یا کو ئی دفترہم گند گی پھیلا نے میں کو ئی کسر نہیں چھو ڑ تے ۔حا لا نکہ ہم یہ اچھی طر ح جا نتے ہیں کہ اِس سے ہما ر ا کر دا ر کُھل کر سا منے آ جا تا ہے اور اِس با ت کی بھی وضا حت ہو جاتی ہے کہ ہم کتنے تعلیم یا فتہ اورکتنے مہذ ب ہیں۔مگر رو نا یہا ں پر یہ ہے کہ ہم اِس حقیقت کو سمجھتے ہو ئے بھی خو د کی اِصلا ح نہیں کر تے۔ہم ایک با ت کے بڑ ے ہی ما ننے و ا لوں میں سے ہیں و ہ یہ کہ اپنی چا ر دیو ا ر ی یعنی کہ اپنے گھر کی صفا ئی کر و محلے،شہر یا ملک کی صفا ئی کی ذمہ دا ر ی ہما ر ی تو نہیں۔احسا سِ ذمہ دا ری کا پہلو کسی کے اندر نظرنہیں آتا کیو نکہ معز ز قا ر ئین !ہم اپنے گھر کی صفا ئی کرنے کے بعد کو ڑا کر کٹ با ہر گلی کے کسی نکڑ پر پھینک آ تے ہیں ۔جبکہ ہما ر ا یہ رویہ بہت سی بیما ر یو ں کو مد عو کرنے کا باعث بنتا ہے۔صر ف یہی نہیں بلکہ اگر با زا رکے اِ حا طے کا مطا لعہ اِس حو ا لے سے کیا جا ئے تو یہ امر بہت تکلیف دیتی ہے کہ کو ڑ ے دا ن تو رکھے گئے ہیں لیکن اِ ن کے اِستعمال سے لو گ کو سو ں دور اور بے بہرہ نظر آ تے ہیں ۔ ایک با ت کا سوچ کر بہت دُکھ ہو تا ہے کہ ہم ہر وقت دو سر وں کی خا میا ں تو نکا لتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ہو سکتا ہے کہ صفا ئی کے معا ملے میں بہت سے لو گ میو نسپل کمیٹی کو کو ستے ہو ں گے؛ کسی حد تک یہ بات تو درست ہے کیونکہ میونسپل کمیٹی کے نصب شدہ کوڑے دان جو بازار ایریے میں لگائے گئے ہیں وہ ناکافی ہیں اور یہ کہ کسی بھی محلے میں میونسپل کمیٹی کا نصب شدہ کچرادان سرے سے نظر ہی نہیں آتایہی وجہ ہے کہ ہر ایک اپنے گھر کا کچرا گلی میں پھینکنے پر مجبو ر ہو تا ہے۔۔۔۔مگر اس سے بھی زیادہ درست بات یہ ہے کہبجا ئے دو سر و ں پر تنقید کر نے کے کا ش ! ہم خو د کو سُد ھا ر نے کا کا م کرے ،۔
اگر کبھی با زا ر ایر یا کا بہ غو ر مطا لعہ کیا جا ئے تو پتہ چلتا ہے کہ کس طر ح سے ہم ہر طر ح کا کچر ا سڑک پر اور سڑ ک کے کنا ر ے پھینک جا تے ہیں نہ صر ف یہ بلکہ جہا ں پر سڑ ک کے کنا ر و ں پر چھو ٹی چھو ٹی ندیاں گند ے پا نی کے نکا س کے لیے بنا ئی گئیں ہیں وہ بھی غلا ظت اور تعفن سے بھر ی پڑ ی ہیں۔ایک با زا ر ہی کا کیا کہنا دفا تر ،سکو ل، کا لجز اور ہو ٹلز سبھی کا یہی حشر ہے۔اسکو لو ں کے با ہر ننھے منھے بچّو ں کے پھینکے ہو ئے مٹھا ئی اور بسکٹ کے ریپر وں کے ڈھیر اِس با ت کی شہا دت دیتے ہیں کہ ہم بحیثیتِ اسا تذ ہ اور وا لدین کے اِن معصو م بچو ں کی ذہنی نشو و نما کر نے میں نا کا م ہو ئے ہیں ۔حکو متی اور نجی محکوں کے آ س پا س ملا ز مو ں کا پھینکا ہو ا کچر ا اِ س با ت کا ثبو ت ہے کہ ہم پڑ ھے لکھے تو ہو ئے ،بڑ ے بڑ ے عہد ید ا ر اور افیسر تو کہلا ئے مگر یہا ں پر بھی ہم نے صفا ئی کے حو ا لے سے ذہنی بلاغت ثبو ت نہ دیا ۔کا لجو ں کے با ہر عا م حا لا ت میں بالعموم اور امتحا نا ت کے دنو ں میں بالخصوص گیٹ کے با ہر کا غذ کے پُر ز ے یہ گو ا ہی دیتے ہیں کہ ہم کالجیٹ تو کہلا ئے مگر ما حو لیا تی آلو دگی کا سبق جو ہم نے قا عد ہ سے بلکہ یہ کہنا منا سب ہو گا کہ گھر سے ہی سیکھ کے آ ئے تے کا لج پہنچتے پہنچتے وہ سب بھی را ستے میں بھو ل گئے۔
بازار کے حوالے سے ایک عرض کرنا بھول گئی وہ یہ کہ ہم دکانیں او ر مارکٹیں تو کھڑی کر لیتے ہیں اور کرائے کے مد میں پیسہ بھی وصول کرتے ہیں مگر اپنی اپنی مارکیٹوں میں لیڑین اور پارکنگ کے لئے تھوڑی سی زمین صرف کرنے میں غفلت اور کنجوسی کا مظاہرہ کر ہی لیتے ہیں۔
ایک شکایت مجھے گاڑی مالکان سے بھی ہے۔جو بڑی مہنگی گاڑیاں توچلاتے ہیں مگر چلاتے چلاتے اپنی گاڑی کی صفائی کا تو خیال رکھتے ہیں مگر پھل ٖفروٹ اور دیگر اشیائے خوردونوش کا کچرا ہمیں تحفے میں پھینک جاتے ہیں۔
مجھے یہ با ت بھی کھٹکتی ہے کہ سبز ی فر و شو ں کی دُکا نیں اور مُر غی فر و شو ں کی دُکا نیں مین ما ر کیٹ میں نہیں ہو نی چا ہئے جو کا فی حد تک ما ر کیٹ کے پُر فضا ما حو ل کو بد بو دا ر بنا نے کا سبب بنتی ہیں۔
المختصر یہ کہ ایک ذمہ دار شہر ی ہو نے کی حیثیت سے ہمیں اپنا پیدا کر دہ کچر ے کو خو بصو ر ت ما حو ل کا بو جھ نہیں نبا نا چا ہئے ۔اسکو ل ،کا لجز اور دیگر سما جی تنظیمو ں اور ادارو ں کی یہ ذمہ دا ر ی ہے کہ وہ صفا ئی سے متعلق شعو ر پیداکر نے کے لیے مختلف سیمینا ر اور ریلیا ں منعقد کر یں۔اور میو نپل کمیٹی سے یہ گزا ر ش ہے کہ وہ با زا ر ، گلی کو چو ں اور با لخصو ص محلو ں میں کچرا دا نو ں کے نصب کر نے کو یقینی بنا ئے۔ضلعی انتظا میہ کی یہ ذمہ دا ر ی ہے کہ وہ سبز ی منڈ ی اور گو شت منڈ ی کو مین ما ر کیٹ کی بجا ئے مین با ز ا ر سے پر ے کر دے ۔۔ آ ئے ہم سب یہ عہد کر یں کہ ما حو ل کو صا ف سُتھر ا رکھنے کے لیے جو بھی کا و ش بر و ئے کا ر لا ئی جا سکتی ہے اُسے سر انجا م دینے میں کسی پس و پیش کا مظا ہر ہ نہ کر یں اوربحیثیتِ شہر ی بلکہ بحیثیتِ پا کستا نی اپنے گلی ، محلو ں،شہر اور انپے پا کستا ن کوایک صحت مندملک بنا ئے۔