آفرین اہلیان گوجال
تحصیل گوجال کا شمار ملک کے بلند ترین اور دور افتادہ تحصیلوں میں ہوتاہے. یہاں کے باسی گزشتہ ساڑھے چار سالوں سے انتہائی تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہیں. ان کی مشکلات کا آغاز 4 جنوری 2010 کو اس وقت ہوا جب عطا آباد نامی گاؤں کئی سالوں تک زیر زمین سرکنے کے بعد زمین بوس ہوگیا. اس سانحہ کے نتیجے میں 20 افراد اپنے پیاروں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوگے اور ملبہ کے دریاے ہنزہ میں گرنے سے پانی رک کر جھیل کی صورت اختیار کرنے لگا جس نے جلد ہی 4 بڑی انسانی آبادیوں کو اپنی لپیٹ میں لیے لیا اور یوں گوجال کے عوام کی زندگیوں میں آزمائیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ھوا جو تاحال جاری ہے. بیتے ہوے برسوں کے دوران یہاں کے رہایشیوں نے اذیت ناک حالات کا مقابلہ جس صبر و استقامت سے کیا اس کی مثال میں نہیں ملتی.
سپل وے کی کٹائی حکومت کے لیے ایک چیلنج بن کر سامنے آئی. خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود یہ مسلہ اب تک حل طلب ہے. سانحہ عطا آباد کے بعد اہلیان گوجال پر جو گزری اور تاحال جو گزر رہی ہے وہ ناقابل بیان ہے.
اس سانحہ کے متاثرین آج تک اپنی چھت سے محروم ہیں ان کی مستقل آباد کاری نہ ہونے کی وجہ سے متاثرین دربدر ہیں با ائی ہنزہ کے باسی بنیادی انسانی ضرورتوں کے حصول میں بھی تکلیف دہ صورتحال سے گزر رہےہیں مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے بھی ان سے منہ موڈ لیا ہے.
اس نوعیت کا سانحہ ملک کے آئینی علاقے میں پیش آیا ہوتا تو حکمرانوں کا سکھ چین ختم ہوجاتا. لیکن یہاں صورتحال مختلف ہے اس لیے کسی کو بال برابر فرق نہیں پڑا.
اہلیان گوجال وطن عزیز سے محبت کرنے والے ہیں مصیبت اور آزمایش سے دوچار ہونے کے باوجود ان کے لبوں پر حرف شکایت تک نہیں جب سے سانحہ عطا آباد رونما ھوا ھے ھم کئی مرتبہ وہاں گئے اور ان کو درپیش مشکلات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور خود بھی ان کا سامنا کیا. ہم یہاں کے غیور اور محب وطن باسیوں کو آفرین کہتے ہیں کیوں کہ اتنی تکالیف کسی اور علاقے کے عوام کو پیش آتی تو وہ کب کے باغی بن چکے ہوتے.