کیا مال ہے یار …. (ایک افسانہ)
علی احمد جان
’’اوئے اجمل آ ج بھی ’’وہاں‘‘ چلتے ہیں۔‘‘ وجاہت نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ ، شرارت بھری نظروں سے اشارہ کیا. ’’ارے ہاں. اب تو میں روزانہ وہاں جاونگا. اتنی اچھی جگہ بھلا اور کہاں ہے۔۔۔۔ ہاہاہاہاہا؟‘‘، میراقہقہہ گونجا.
میں اور وجاہت ایک ہی کمپنی میں پچھلے سات سالوں سے نوکری کررہےہیں. وہ میرا ہم عمر ہے ، چالیس سال کا۔ اس کا اور میرا گھر بھی ایک ہی رُوٹ پر آتا ہے اسی لیے ہم دونوں میری بائک پر آفس آتے جاتے ہیں۔ ہم دونوں کی طبعیت کافی ملتی جُلتی ہے. کمپنی میں اکثر ڈانٹ بھی دونوں کو ایک ساتھ اور ایک ہی طرح کے "کارناموں” پر پڑتی ہے. ہماری "حرکتوں” کی وجہ سے باس کو اکثریہ کہتے ہوے سنا جاتا تھا کہ "یہ دونوں تو چالیس سال کے بچے ہیں”. کئی مرتبہ میں نے اس عادت کو چھوڑنے کا عہد کیا لیکن وجاہت سے ملتے ہی تمام باتیں اور وعدے بھول جاتا . ’’اجمل ادھر آ جلدی.۔۔۔۔۔۔ وہ دیکھ سامنے۔۔لال جوڈے میں آج تو بڑی ذبردست لگ رہی ہے‘‘۔ میرے بیٹے کی عُمر کا لڑکا۔ مجھے استقبالیہ کاونٹر پر آج آنے والی لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہہ رہا تھا.
یہ کوئی نئی بات نہیں تھی. کمپنی کے تمام لڑکے عمو ماً مجھ سے اور وجاہت سے اِسی انداز میں بات کرتے ہیں. اس میں اُن کا بھی کوئی قصور نہیں ، ہم خود بھی اسی طرح عُمر کی حدوں کو بالائے طاق رکھ کر "فری ماحول” میں بات چیت کرتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھار یہ عجیب سا بھی لگتا ہے. چھُٹی کے بعد ہم دونوں اُسی پرائیوٹ اسپتال کے پاس آگئے . حسبِ معمول یہاں بڑا رش تھا۔ ’’اُدھر کھڑی کر گاڑی چھاوں میں‘‘ وجا ہت نے سامنے اشا رہ کرتے ہوئے کہا۔ میں موٹر سائکل کھڑی کر کے آگیا اور ’ہم دونوں”چہل قدمی‘‘ کرنے لگے ۔
’’وہ دیکھ یاااااار ….وجاہت نے یار پر زور دیتے ہوے کہا…..” ۔۔۔سبحان اللہ ۔۔کیا مال ہے یار…..، چل اُدھر چل … چل نا یار جلدی….. ‘‘.
ایک سولہ سترہ سال کی لڑکی، ادھیڑ عُمر خاتون کے ساتھ ہمارے آگے آگے چل رہی تھی۔ وجاہت سر تا پا اس لڑکی کے بدن کا جائزہ لے رہا تھااورآنکھوں ہی آنکھوں میں مزے لینے کے ساتھ ساتھ چھٹخارنے دار کمنٹری بھی کر رہا تھا۔ ’’ اُف کیا چال ہی۔۔۔کیا نقشہ ہے ۔۔۔ بنانے والے نے کیا چیز بنائی ہے ……۔کاش۔۔۔۔۔۔۔‘‘.وہ بولتاجارہا تھا اور ساتھ ساتھ میں بھی داد دے رہا تھا۔ جواباً میں بھی ’’اچھے اچھے جملے‘‘ بتا رہا تھا حسبِ عادت۔ ۔۔۔۔۔ تھوڑی دُور جا کر وہ دونوں کسی وجہ سے پلٹ گئیں۔۔ میں تو دیکھتا ہی رہ گیا، جتنا جاذِب وپُرکشش اسکا بدن تھا ، اس سے کئی گُنا ذیا دہ خوبصورت اور دِلکش اس کا چہرہ۔ ۔۔۔میرے منہ سے بے اختیار ماشااللہ نِکلا۔۔ ۔ اسی لمحے میں نے وجاہت کو غشی کھا کر گرتے دیکھا اور دوسرے ہی لمحے وہ لڑکی بھاگ کر آئی اور وجا ہت سے لِپٹ کر پا گلوں کی طرح رو نے لگی.
وجا ہت بے ہوش پڑا تھا. اور وہ لڑکی دیوانہ واراس سے لپٹ کر رو تے ہوے کہ رہی تھی، ابو … ابو …. کا ہوگیا آپ کو … آنکھیں کھولو نا ابو … آنکھیں کھولو نا”……میرے حواس منجمد ہو گیئے. سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں؟؟ نظریں بچا فورآ وہاں سےنکل پڑا۔۔ اپنی ٹانگیں گھسیٹتے ہوے. زندہ لاش کی طرح.