سفرنامہ

استور اور بلتستان کا مطالعاتی و تفریحی سفر

استاد:دارالعلوم غذر

سفر کا ارادہ اور رکاوٹیں

بہت عرصے سے یہ خواھش تھی کہ استور اور بلتستان کا سفر ھو، سیر وتفریح ھو اور قدرتی مناظر سے لطف اندوز ھونے کا موقع نصیب ہو،

ھر سال سردیوں میں پروگرام بناتے اور پکا ارادہ کرتے کہ اس سال گرمیوں میں ضرور جائیں گے، لیکن ھر سال گرمیوں کی تعطیلات میں کچھ نہ کچھ رکاوٹیں پیش آتی اور یہ خواہش پوری نہ ہوتی، لیکن جو کام جس وقت مقدر ھوتا ہے اس سے پہلے وجود میں نہیں آسکتا۔

مہتمم صاحب کی شفقت

بہرحال سال جولائی 2023 میں عیدالاضحیٰ کی تعطیلات ھوئیں اور ہمارے مہتمم حضرت مولانا مفتی شیرزمان صاحب شفقت سے کچھ طویل ہوئیں، تو اس خواہش نے پھر انگڑائی لی. ھم نے مہتمم صاحب سے عرض کیاکہ سیرو تفریح کے لیے دل چاہ رہا ھے، تو حضرت نے حامی بھر لی اور مدرسین پر شفقت کرتے ہوئے کنوینس کا بندوبست کرلیاتوھم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی.

آغاز سفر

میرے ذمہ داری یہ لگائ گئی کہ ساتھیوں کو جلدتیار کریں۔تو ساتھیوں سے رابطہ،مشورہ کرکے ایک جماعت تیار کرلی،اور جلد ہی رخت سفر باندھنے کا پروگرام بنا لیا.

طے یہ ھواکھانے پینے ،اور خیمہ، بستر وغیرہ ساتھ لے جائیں گے۔

بروز جمعہ چودہ جولائی ھمارا قافلہ مکمل طور پر تیار ھوگیا۔گاڑی ھمارے نہایت ھی محترم ھردلعزیز شخصیت ھمارے مہتمم صاحب کے گہرے دوست جناب صابر غیاث صاحب نے فراھم کی ۔ڈبل ڈور مضبوط گاڑی ایسے پہاڑی سفروں کے لیے بہت ھی موزوں ھوتی ھے۔

رفقاء سفر

ہمارے قافلہ میں کل نو شرکاء تھے. مفتی شیر زمان صاحب مہتمم جامعہ دارالعلوم غذر،شیخ الحدیث مولانا سیف اللہ صاحب ناظم تعلیمات،مولانا زبیر احمد صاحب نائب مہتمم، مولاناعبدالرزاق صاحب ناظم البنات ،مولانا ضیاء اللہ صاحب استاد حدیث ،مفتی محمد اکبر صاحب ،مولانا عظیم اللہ اور راقم الحروف شاہ عبداللہ اور ڈرائیور چودھری عبدالوحید صاحب شریک سفر تھے.

پڑی بنگلہ میں پہلا پڑاؤ

صبح نو بجے ھمارا سفر شروع ھوگیا سفر کے امیر مولانا عبدالرزاق صاحب مقرر ھوئے اور سفری اخراجات کا برکت انہی کے پاس جمع کرادیے گئے، یوں اللہ کا نام لے کر چل پڑے ،پونے دو بجے پڑی بنگلہ میں مولانا حبیب اللہ بلتستانی کے مدرسہ میں رکے،

ارادہ یہ تھا وھاں اپنا کھانا بناکے کھائیں گے لیکن عجیب حسن اتفاق وھاں کے ناظم مولانا نثار صاحب نے فرمایا کچھ مہمان آنے تھے ان کے لیے کھانا تیار کیاگیا تھا لیکن وہ نہ آسکے، سالن بالکل تیار ھے۔روٹی ھم خرید کے ساتھ لے گئے تھے۔یوں تیار کھانا کھایا اور ظہر کی نماز ان کی خوبصورت مسجد میں پڑھی،

مولانا حبیب اللہ بلتستانی نے یہاں ایک خوبصورت مدرسہ بنایا ھے کافی بڑی عمارت بڑے سلیقے سے نقشہ کے مطابق تیار کی گئی ھے، فی الحال محلے کے بچے غیر رھائشی یہاں پڑھتے ھیں۔ساتھ مدرسۃ البنات بھی ھے۔

مرکز دارالایمان و التقوی پڑی گلگت

مولانا حبیب اللہ، ہمارے رفیق سفر مولانا عبدالرزاق صاحب اور گلگت بلتستان کے سینکڑوں علماء و حفاظ نے مولانا پیر مختار الدین شاہ صاحب مد ظلہ کے ہاتھوں بیعت کی ہیں اور کئی ایک کو خلافت بھی ملی ہوئی ہے. اس مرکز میں خانقاہ کاربوغہ سے مبلغین کی جماعتیں تشریف لاتی ہیں. یہ مسجد بھی شیخ مختارالدین شاہ صاحب دامت فیوضہم کی نگرانی و سرپرستی میں بنی ہے. یہاں تعلیمی اور تزکیہ نفس کے سلسلے شروع ہوچکے ہیں .

مولانا حبیب اللہ رازدی سے گوجرخان میں بنین و بنات کا بڑا ادارہ چلارھے ھیں۔

پڑی بنگلہ سے استور روانگی

پڑی بنگلہ سے تقریباً تیس کلومیٹر آگے جاکر استور کی طرف مڑ گئے جو شاھراہ قراقرم سے بائیں طرف کو مڑتا ھے. راولپنڈی کی طرف جاتے ھوئے بیسیوں دفعہ یہاں سے گذرے ھونگے مگر آج پہلی دفعہ اس طرف مڑنے کا موقع ملا.

استور روڈ پر سفری لطف اندوزیاں

کچھ ھی دیر میں پہاڑی سلسلہ ،چڑھائی والا راستہ شروع ھوگیا ۔سخت گرمی تھی تیز دھوپ لگ رہی تھی ۔چار ساتھی پیچھے کھلے ڈالے میں تشریف فرما تھے یہ مرحلہ ان کیلئے بڑا صبر آزما تھا لیکن سیر و سیاحت کی خوشی میں اس کو سہنا بہت آسان لگ رھا تھا، بہرحال پورے سفر میں ساتھیوں کی تبدیلی کے ساتھ سب ساتھی اس حصے سے لطف اندوز ھوتے رھے۔

سفر کے سارے ساتھی خوش مزاج گپ شپ کرنے والے تھے، یوں خوش گپیوں میں، بلند قہقہوں میں یہ سفر جاری رہا اور دیکھتے ھی دیکھتے استور کا پہلا گاؤں ڈوئیاں آیا، پھر معروف گاؤں ڈشکن آپہنچا ۔یہاں اترے کچھ فریش ھوئے ۔چائے پی. آم تناول کیا، کچھ دیر بیٹھے رہےچہھر آگے سفر شروع کیا. آگے بھی مسلسل چڑھائی۔

دو پہاڑوں کے درمیان تنگ راستہ

دوپہاڑوں کے درمیاں تنگ درہ،اونچے اونچے خشک پہاڑ،نیچے دریا ۔زیادہ تر خشک حصے،کہیں کہیں دونوں طرف میں چھوٹے چھوٹے گاؤں ،یوں چلتے چلتے عصر کے آخری وقت میں ساڑھے چھ بجے استور شہر پہنچے اور جامع مسجد امیر حمزہ میں پہلا پڑاؤ کیا.

استور شہر میں

ہفتہ 15 جولائی 2023

استور میں ہمارے مدرسے کے طالب علم سیف اللہ اور ان کے والد ہمارے منتظر تھے۔ان سے ملاقات ہوئی اور یہ حضرات اگلی صبح تک ھمارے میزبان تھے. استور جامع مسجد کے امام مولانا ظفر الحق صاحب ھمارے مولانا عبدالرزاق صاحب کے دوست اور پیر بھائی ہیں،ان سے پہلے سے رابطہ تھا لیکن ان کی بیٹی کے فوت ھونے کی وجہ سے وہ گاؤں چلے گئے تھے۔ان سے ملاقات تو نہ ہوسکی ۔البتہ ان کے شاگرد اور مدرسہ کے قاری صاحب نے یماری بہت خدمت کی اور بہترین خاطر مدارات کیا۔ھمارے کیلئے ایک کمرہ خالی کیا گیا۔استور جامع مسجد ابھی زیر تعمیر ھے،اور بہت شاندار انداز میں نقشہ کے مطابق کام جاری ھے۔

استور شہر ھماری تصورات کے بہت خلاف نکلا ۔چھوٹا سا شہر ھے جو پہاڑوں اور ٹیلوں میں گھرا ھوا ھے،البتہ ٹیلے سرسبز اور خوبصورت ہیں. فجر کی نماز کے بعد مسجد کی چھت سے شہر کا خوب نظارہ کیا۔

استور بازار بھی پہاڑی پر ہی مختلف موڑوں کی صورت میں بناھوا ھے اور قدیم عمارتیں بھی بہت ساری ہیں.

راما یاترا

بہر حال نماز فجر کے کچھ دیر بعد ھی احباب کا مشورہ ھوا کہ صبح صبح راما نکلنا چاہیے ۔

پھر سب ساتھی تیار ہوکر گاڑی پر سوار ھوئے، راما کافی بلندی پر شہر سے ایک ادھا کے فاصلے پر واقع ھے البتہ راما جھیل کافی فاصلے پر ہے.

اس طرح موڑ کاٹتے ھوئے چڑھائیوں پر چڑھتے رھے بہت خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ھوتے رھے،گنگناتے اور بل کھاتے ھوےنالے۔بہتے آبشار ،چاروں طرف سبزہ ھی سبزہ قدرت کے دلکش نظارے دعوت نظارہ دیتے رہے،جتن بلندی پر چڑھتے قدرتی حسن میں اتنا اضافہ ہوتا جاتا. قدرت کی ساری صناعیاں کام آئی ہیں۔سورچ کی کرنیں ظاھر ھونا شروع ھوئیں تو منظر اور بھی حسین ھوگیا آسمان بھی صاف تھا ایک موڑ پر آکر جب نیچے دیکھا تو رکنے پر مجبور ھوے،نیچے اتر کر کافی دیر تک بیٹھے رھے۔مناظر کی عکاسی کرتے رھے ۔اور قدرت کے حسین مناظر اور فرحت بخش فضا سے خوب محظوظ ہویے. یہاں آلو کی کاشت بہت زیادہ ہے اکثر اسی کے کھیت نظر آتے تھے۔سردی کی وجہ سے اور فصلیں بہت کم ھوتی ھیں،مزید آگے بڑھے تو اونچے اونچے سرسبزدرختوں سے ڈھکے پہاڑ ،خوصورتی میں اضافے کا باعث بنتے رھے،اگے چوٹی پر چڑھنے کے بعد پھر میدانی علاقہ آیا ۔لمبے لمبے چیڑ کے درختوں کے درمیان میں راستہ ھے راستہ میں سبزے سے ڈکھا ہوا خوبصورت میدان ھے ،رامافیسٹول یہاں منعقد ہوتا ھے۔یہاں مختلف سیاحوں کی گاڑیاں بھی تھیں۔جگہ جگہ ٹینٹ لگے ھوئے تھے۔ھم لوگ آگے بڑھتے رھے جاجا کے آخری نالے کے پاس پل کے قریب گاڑی روکی اور اتر گئے،راما جھیل کافی آگے ہے. ساتھی تقاضا کررھے تھے کہ جھیل تک پیدل جاتے ھیں،لیکن لگ یہ رھا تھا کہ کافی دیر ھوجائے گی واپس دیوسائی جانا تھا ھم وقت کی بچت کرنا چاھتے تھے.

راما جھیل کے دامن میں ناشتہ کی محفل

احباب میں مشورہ سے یہی طے ہوا کہ یہاں ہی اتر کر ناشتہ بناتے ھیں ۔مفتی اکبر صاحب اور مولانا عظیم اللہ صاحب نے خدمت میں لگ گئے۔چاے بنانا شروع کریا۔باقی ساتھی چٹائیاں بچھا کر دراز ھو گئے ۔جولائی کے موسم میں دھوپ میں بیٹھنے میں مزہ آرہا تھا۔ساتھ ھی چشمہ بھی تھا ،پانی اتنا ٹھنڈا تھا کی دو گھونٹ مشکل سے ھی پی سکے،ایک ساتھی نے چوپاٹی ساتھ لایا تھا۔ساتھ ھی ایک خیمہ ھوٹل بھی تھا اس میں پراٹھے اور انڈے کے آڈر دئیے گئے ۔100 روپے کا ایک انڈا اور 80 روپے کا ایک پراٹھا ملا۔

بہرحال ناشتہ بہت جلد تیار ںوا. چائے پراٹھے کی اشتہا بھی بہت بڑھی ہوئی تھی۔خوب مزے مزے سے ناشتہ کیا ۔چائے کے کپ کپ چڑھاتے رہے،ساتھ ساتھ خوشگوار موسم سے لطف اندوز بھی ہوئے ،گپ شب، ہنسی مذاق کا بھی بہت دور چلا، تقریبآ ایک گھنٹہ قیام کے بعد واپس روانہ ھوے،ساڑھے آٹھ بجے پھر استور شہر پہنچے۔تاکہ بروقت وقت دیوسائی تک پہنچا جاسکے.

استور شہر سے دیوسائی روانگی

جب مسجد پہنچے تو ساتھی بھی منتظر تھے ،انہوں نے بھی ناشتہ تیار کیا ھوا تھا،ھمارے انکار کے باوجود انہوں نے اصرار کیا تو دوسرا ناشتہ بھی کرنا پڑا،

ناشتہ کے بعد امیر صاحب نے کچھ ضروری کھانے پینے کے سامان خریدنے کا حکم دیا چونکہ سفر دور تھا اور ھوسکتا ھے کہ کہیں دکانیں نہ ملیں ۔تیاری کے بعد دیوسائی کی طرف روانہ ھوئے تقریبا ساڑھے دس دیوسائی کی طرف رخت سفر باندھ لیا.

دیوسائی نیشنل پارک کے دامن سے

دنیا کی بلند ترین سطح مرتفع ھے. اس کو نایاب بھورے ریچھوں کا مسکن اور سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے۔لیکن ہمیں ریچھ کہیں نظر نہ آئے.

یہاں کے علاقے اپنی خوبصور تی اور رعنائی میں لاثانی ہیں۔ یہاں دنیا کی بلند ترین چوٹیوں اور وسیع ترین گلیشئیر کے علاوہ دنیا کا بلند ترین اور وسیع ترین سطح مرتفع دیوسائی بھی موجود ہے۔ دیوسائی کی خاص بات یہاں پائے جانے والے نایاب بھورے ریچھ ہیں، اس نوع کے ریچھ دنیا میں میں کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ یہاں بھی یہ معدومیت کا شکار ہیں۔ دیوسائی سطح سمندر سے اوسطاً 13500َفٹ بلند ہے اس میں بلند ترین چوٹی شتونگ ہے جو 16000فٹ بلند ہے۔ دیوسائی کا کل رقبہ 3000 مربع کلو میٹر ہے۔ سال کے آٹھ تا نو مہینے دیوسائی مکمل طور پر برف میں ڈھکا رہتا ہے۔ یہاں تیس فٹ تک برف پڑتی ہے ۔ یہی برف جب پگھلتی ہے تو اس کا پانی دریائے سندھ کے ساتھ شامل ھوتا ھے۔ ان پانیوں کو محفوظ کرنے کے لیے سد پارہ جھیل پر ایک بند زیر تعمیر ہے۔

دیو سائی کا لفظ گلگت بلتستان میں بولی جانے والی شینا زبان کا لفظ ہے جو کہ اصل میں دیو سَے تھا بعد میں اردو لکھائی سے نا بلد لوگوں نے دیو سے سے دیو سائی بنا دیا، دیو سے مراد دیوتا یا جن ہے اور سے ، سے مراد آبادی یا سرزمین کی ہے، پس یوں دیوسائی کا مطلب دیو کی سرزمین ہے۔ جبکہ بلتی زبان میں اسے یہاں کثیر تعداد میں موجود پھولوں کی وجہ سے بھئیر سر یعنی پھولوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔

دیوسائی پہنچنے کے راستے

دیوسائی پہنچنے کے دو راستے ہیں ایک راستہ اسکردو سے ہے اور دوسرا استور سے۔ اسکردو سے دیوسائی 35 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور جیپ کے ذریعے دو گھنٹے میں صد پارہ جھیل اور صد پارہ گاؤں کے راستے دیوسائی پہنچا جا سکتاھے،سفر کے دوران خوبصورتی تھکن کا احساس نہیں ہونے دیتی۔ دوسرا راستہ دیوسائی پہنچنے کے لیے استور والا ہے . ھم چونکہ استور سے گئے تھے یہی راستہ ھم نے اختیار کیا۔ گاڑی جب استور سے نکلتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ دیوسائی کی بلندیوں سے آنے والا دریا ہوتا ہے۔ یہ دریا مختلف مقامات پر اپنا رنگ تبدیل کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ پکورہ گاؤں کے مقام پر یہ شفاف چمکتا ہوا نظر آتا ہے پھر اس کا رنگ نیلا ہوجاتا ہے۔ مزید آگے گدئی کا گاؤں ہے جہاں سے ایک رستہ بوبن کی طرف جاتا نظر آتا ہے جو ایک خوبصورت سیا حتی مقام ہے۔ دو گھنٹے کے سفر کے بعد چلم چوکی آتی ہے۔ یہ ایک مختصر سا گاؤں ہے جہاں کچھ دکانیں اور ایک ہوٹل ہے یہاں زیادہ تر فوجی جوان نظر آتے ہیں کیوں کہ یہیں سے ایک رستہ کارگل کی طرف نکلتا ہے۔ مزید پندرہ منٹ کے سفر کے بعد ہمالین وائلڈ لائف کی چیک پوسٹ آتی ہے یہاں سے دیوسائی کے حدود شروع ہوتی ہیں۔

دیوسائی میدان میں چائے نوشی

اس کے حدود میں داخل ھونے کے پندرہ منٹ بعد ھم ایک خوبصورت میدان میں اترے، ظہر کا وقت ھوگیا تھا۔ساتھیوں نے کڑک چائے تیار کی، چاے نوش کرنے کے بعد ھم آذان دی اور ظہر کی باجماعت نماز ادا کی۔کچھ دیر قیام کیا پھر آگے کوچل پڑے۔

بھورے ریچھ کا تحفظ اور جنگلی حیات

دیوسائی کو1993میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا جس کی رو سے یہاں شکار پر مکمل پابندی ہے تاکہ یہاں پائے جانے والے جانوروں خصوصاً بھورے ریچھ( گُورَو اِچ) کا تحفظ کیا جا سکے۔ ۔ یہ ریچھ سال کے چھہ مہینے سردیوں میں نومبر تا اپریل غاروں میں سوتا رہتا ہے اس دوران اس کے جسم کی چربی پگھل کر اسے توانائی فراہم کرتی ہے۔ جب برفیں پگھلتی ہیں تو یہ اپنے غار سے نکلتا ہے۔ ریچھ کے علاوہ یہاں مارموٹ (خرگوش کی ایک نسل جسے مقامی زبان میں ترُشونِہ کہتے ہیں) کئ جگہ دیکھنے کوملے۔ اس کے علاوہ یہاں تقریباً 150 اقسام کے قیمتی اور نایاب جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں، جن میں سے محض 10تا15 مقامی لوگ مختلف بیماریوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

دیوسائی کا وسیع میدان اور برفیلی چوٹیاں

چیک پوسٹ سے آگے دیوسائی کا اصل حسن آشکار ہو تا ہے۔ سرسبز ڈھلوان اور اور ان کے پس منظر میں، ۔ دیوسائی کے وسیع میدان پر ایک نظر ڈالیں تو طرح طرح کے رنگین پھول اور ان میں اکثر مقام پر اپنے پچھلی ٹانگوں پر کھڑے اور بازوؤں کو سینے پر باندھے مارموٹ آپ کا استقبال کرتے محسوس ہوتے ہیں مگر جیسے ہی گاڑی ان کے نزدیک پہنچتی ہے یہ اپنے بلوں میں گھس جاتے ہیں۔

دیوسائی چاروں طرف سے چھوٹی چھوٹی برف پوش پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے جب ان پر سورج کی روشنی پڑتی ہے تو ان کی چمک سے یہ پہاڑ سونے کے نظر آتے ہیں، مگر یہ پہاڑیاں ہرگز چھوٹی نہیں ہیں ان کی بلندی سترہ اٹھارہ ہزار فٹ تک ہے لیکن 12 ہزار فٹ کی بلندی سے یہ محض چھوٹی پہاڑیاں محسوس ہوتی ہیں۔ پورے دیوسائی میں بلندی کے باعث ایک بھی درخت نہیں ۔

شوسر پاس اور دیوسائی جھیل

کچھ ھی دیر میں شوسر پاس آتا ہے شوسر پاس کی بلندی سے نیچے نظر دوڑائیں تو گھاس کا ایک وسیع میدان نظر آئے گا جس کے بیچوں بیچ ا یک خوبصورت دریا بل کھاتا ہوا گزر رہا ہے اور میدان کے آخر میں سرسبز ڈھلوان اور ڈھلوان کے بعد برف پوش چوٹیاں۔ اس خوبصورت منظر اور میدان کی وسعت کو شہری سیاح منہ کھولے حیرت سے دیکھتا ہے یہ منظر اس کے لیے قدرت کا ایک تحفہ ہے۔ یہ ایک بہترین کیمپ سائٹ بھی ہے۔ یہاں سے سفر اترائی کا ہے، اترائی کے دوران ہی دور کچھ نیلاہٹ نظر آتی ہے یہ دیوسائی کی واحد جھیل شیوسر رہے، ھم اس جھیل کے پاس اتر گئے ۔جھیل کے قریب جاکر عکاسیاں کرتے رھے ۔فروٹ وغیرہ تناول کیا اور خوب خوب انجواے کیا۔یہاں سردی تھی تیز ھواؤں کے جھونکوں نے ھمارا استقبال کیا تو ھم گرم کپڑے پہنے پر مجبور ھوے۔

12677 فٹ بلند یہ جھیل دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں ایک ہے۔ اس جھیل کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی سطح ہمیشہ یکساں رہتی ہے اس مین پانی نا کہیں سے داخل ہوتا ہے نا خارج اس لیے مقامی لوگ اسے اندھی جھیل کہتے ہیں۔ اس جھیل میں ٹراؤٹ اور سنو کارپ مچھلی بڑی تعداد میں پائی جاتی ہے۔ اس کا ساحل ایک کیمپ سائٹ ہے۔ جھیل کا پانی یخ بستہ اور اس قدرشفاف ہے کہ اس کے نیچے موجود رنگ برنگے پتھر اور ٹراؤٹ صاف نظر آتے ہیں اورخوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔ جھیل کا پانی جب کناروں سے ٹکراتا ہے توجلترنگ کی آواز پیدا کرتا ہے۔ اس آواز اور منظر سے سیاح مسحور ہوجاتا ہے اور اس کا دل اس منظر کو چھوڑ کر آگے جانے سے انکار کردیتا ہے مگر وہ سیاح ہی نہیں جو کسی ایک مقام پر ٹہر جائے۔

کالا پانی کا دریا اور ہم

شیوسر جھیل سے کچھ فاصلے پر گاڑی کالا پانی نامی دریا کو عبور کرتی ہے۔ دریا کے تہ میں موجود کالے پتھروں کی وجہ سے یہ دریاکالا پانی کہلاتا ہے۔ یہاں گاڑی میں موجود لوگ دعا کرتے ہیں کہ دریا عبور کرتے ہوئے گاڑی بند نہ ہو جائے ورنہ اس یخ بستہ پانی میں اتر کر جیپ کو دھکا لگانے کے تصور سے ہی خون رگوں میں منجمد ہونا شرو ع ہوجاتا ہے۔ ۔ ہماری اگلی منزل بڑا پانی تھا جو دیوسائی کا سب سے بڑا دریا ہے۔ یہی اس کے نام کی وجہ بھی ہے۔ یہاں دیوسائی کا واحد پل بھی ہے۔ یہ پل لوہے کے تاروں اور لکڑی کے تختوں سے بنا ہوا ہے۔ ہر سال برف باری کے دوران یہ پل ٹوٹ جاتا ہے جسے دوبارہ بنایا جاتا ہے۔ پل عبور کرتے ہی ایک بورڈ نظر آتا ہے ہمالین وائیلڈلائف پراجیکٹ۔۔ دیوسائی نیشنل پارک۔۔ ممنوعہ علاقہ۔

دیوسائی میں کیمپنگ کا سامان

دیوسائی میں کیمپنگ کے حوالے سے یہ بات یاد رکھنی چاھئے کہ یہاں کچھ میسر نہیں ہے مکمل تیاری کے ساتھ جائیں۔ پیک کھانے اور کچا راشن لے کر جائیں، کھانا پکانے کے لیے لکڑی یا چولھا مع ایندھن اور رہنے کے لیے مضبوط واٹر پروف خیمے لے کر جائیں۔ رات کو روشنی کے لیے لالٹین اور ٹارچ مع اضافی بیٹریاں رکھیں۔ یہاں کافی مقدار میں اور کافی صحت مند مچھر بھی پائے جاتے ہیں اس لیے مچھر کو بھگا نے والی کوئی دوا استعمال کریں۔ھمیں اس مشکل کا تلخ تجربہ ھوا ۔

دیوسائی میں موسم کی نیرنگیاں

یہاں کا موسم گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے، ابھی سخت ترین دھوپ چہرے جھلسا رہی ہوگی تو اگلے لمحے بارش یا پھر برف باری بھی ہوسکتی ہے۔ جی ہاں یہاں گرمیوں میں بھی برف باری ہوتی ہے۔ رات بہت سرد ہوتی ہے اس لیے گرم لباس لے کر جائیں۔ رات کو بادل کیمپ میں آجاتے ہیں اور اسے گیلا کرتے ہیں۔ رات کا منظر نہایت حسین ہوتا ہے کیونکہ آسما ن رات کو تاروں کے وجود میں گم ہوتا ہے۔ دن بھر یہاں قریبی گاؤں کے بکروال اپنی بکریاں اور یاک چراتے نظر آتے ہیں۔۔

ھمارا آخری سٹاپ بھی یہی پل اور بڑا پانی تھا، عصر کے آخر میں مغرب سے کچھ پہلے ھم یہاں پہنچے۔ یہاں اتنے رنگ کے اور اتنی تعداد میں پھول ہیں کہ آپ سارا دن ان کو دیکھنے میں گزار سکتے ہیں۔ اگر آپ کو مچھلی کے شکار کا شوق ہے اور آپ کے پاس ڈور کانٹے بھی ہیں تو ٹراؤٹ کے شکار کے یہاں کافی مواقع ہیں۔

غرض دو دن گذارنے کے لیے یہاں کافی مواد موجود ہے۔ یہاں سے آگے سفر جاری رکھیں تو محض آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد شتونگ کیمپ سائٹ آئے گی جو شتونگ نالے کہ ساتھ ہے۔

یہاں یخ بستہ ھواؤں نے ھمارا استقبال کیا۔سخت سردی میں دریا کے پانی سے وضو کیا تو ھاتھ منجمد ھوتے ھوئے محسوس ھوے،بہرحال یہاں ساتھیوں نے کیمپ لگانا شروع کیا آدھے گھنٹے کی محنت کے بعد کیمپ تیار ھوگیا۔تیز ھوا کی وجہ سے کیمپ لگانا مشکل ھورھا تھا۔بڑی مشکل سے خیمہ گاڑدیا تو ھوا بھی رک گئ۔آذان کے ساتھ عصر کی نماز باجماعت ادا کی،خیمہ کے اندر بستر بچھا دیئے تو بیٹھ کر کچھ سکون محسوس ھوا،

آٹھ بندوں کےلئے بڑی مشکل سے جگہ بن سکی،اسمان پر بادل بنے ھوے تھے ۔سب ڈر رھے کہ کہیں بارش نہ ھوجاے۔سب یہی دعا کررھے تھے کہ رات سکون سے گذر جائے.

کیمپنگ اور شکم سیری

خیمہ زن ھونے کے بعد پیٹ کی فکر لگ گئ۔چونکہ کچا راشن اور گیس سلنڈر موجود تھا تو کوئ غم کی بات بھی نہ تھی۔لہذا سب حضرات خدمت میں لگ گئے ۔کوی پیاز، ٹماٹر کاٹنے میں کوئی چائے بنانے میں کوئی چاول گوشت دھونے میں،وغیرہ وغیرہ،میں مصروف ھوگئے۔

یہاں آتے ھی موٹے موٹے مچھروں نے خوب آؤ بھگت کی۔سب ساتھی ان سے تنگ ھورھے تھے

پھر خیمہ کے اندر ھی کھانا پکانا شروع کیا گیا۔کوئ گھنٹہ ڈیڑھ کی محنت سالن اورچاول تیار ہوگئے اب اٹیک کی باری تھی تو دسترخوان بچھانے کے بعد یکبارگی حملہ شروع ھوگیا ۔آدھا گھنٹے کے بعد میدان صاف ھوگیا۔

پکائی کے دوران خوب گپ شپ اور علمی بحث ومباحثے بھی ھوئے خوب گرمجوشی سے دلائل دئیے گئے۔

ادائیگی نماز اور چائے نوشی

کھانا کھانے بعد آذان اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کی ۔اور بستر بچھا کر دراز ھو گئے چونکہ دن بھر کی کٹھن سفر کے بعد تھکے ھوے تھے جلد ھی نیند کے آغوش میں چلے گئے ۔

سولہ جولائی 2023

صبح چار بجے بیدار ہوئے ۔دریا سے وضو کرنے کی ھمت نہیں تھی۔ مولاناعبدالرزاق صاحب نے ھمت کرکے وضو کیا اور باقی ساتھیوں کیلیے پانی گرم کرنے کا انتظام فرمایا۔ اتنے میں سارے ساتھی جاگ گئے،سب نے وضو کیا گرم پانی دیکھ بہت خوش ھوے پھر آذان کے ساتھ فجر کی نماز باجماعت اداکی۔

نماز کے بعد خدمت والے ساتھی چاے بنانے میں مصروف ھوگئے،اور باقی ساتھی وظائف میں لگ گئے،آدھا گھنٹے میں چاے تیار ھوگئ۔سردی کے ماحول میں گرم چاے کی چسکیوں کا اپنا ھی مزہ تھا۔رات کا کچھ بچا چاول بھی تھا وہ بھی ساتھ ساتھ نوش فرمایا ۔

چاے کے بعد روانگی کا مشورہ ھوا۔اور ساتھ ھی خیمہ اکھاڑنے کا عمل شروع ھوگیا۔بسترے پیک کیےگیے،تھوڑی ھی دیر میں سب سامان باندھ کے گاڑی میں پیک کیا اور سوار ہوگئے۔

دیوسائی سے اسکردو کی طرف روانگی

بسم اللّٰہ پڑھ کے سفر کا آغاز ھوگیا۔اب اسکردو کی طرف ھمارا رخ تھا آگے بھی چاروں طرف تا حد نگاہ سبزہ اور میدان تھا ۔اور صبح صبح کا سہانا وقت تھا جوں جوں اسکردو کے قریب ھوتے جارھے تھے کچھ چھوٹے بڑے جانور بھی چرتے نظر آرھے تھے اور جگہ جگہ زمین کے سوراخوں سے نکلنے والے مارموٹ بھی نظر آرھے تھے ۔بہرحال دو گھنٹے کے سفر کے بعد سکردو ٹاپ پر پہنچے۔یہاں گیٹ وے پر ایک ھوٹل بنا ھوا ھے،کافی مسافر لوگ یہاں جمع تھے چائے شائے پی رھے تھے۔ھم بھی کچھ دیر وھاں رکے ،کچھ منظر کشی کی، لطف اندوز ھوئے ،پھر گاڑی میں سوار ھوئے اور سکردو کی طرف روانہ ھوئے.

آگے اترائی تھی ،مسلسل موڑ پر موڑ کاٹتے ھوئےاترتے ھی چلے جارھے تھے،

کچھ ھی دیر میں سکردو کی آخری آبادیاں ،گاوں نظر آنے شروع ھوئے.

سدپارہ ڈیم اور سکردو شہر

ایک گھنٹے کے بعد سد پارہ ڈیم پہنچے،یہاں کافی بڑا خوب صورت ڈیم بناھواھے،یہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ھے،لیکن ھمارے ساتھی اکتائے ھوئے تھے ،یہاں اترنے کیلئے تیار نہیں ھوے،سفر ھمارا جاری رھا،آدھا گھنٹے کے بعد سکردو شہر پہنچ گئے۔سکردو گلگت کے مقابلے میں بڑا وسیع وعریض شہر ھے.

جامعہ اسلامیہ اہل سنت اسکردو میں

یہاں ھم سیدھا پریشان چوک میں واقع اھل سنت کے مرکز جامعہ اسلامیہ پہنچے،یہاں کے مہتمم مولانا سرور صاحب سے پہلے سے بات ہوئی تھی،لیکن وہ اس وقت ایک اور گاؤں میں تبلیغی جوڑ تشریف میں لے گئے تھے،

وھاں کے طلبہ اور اساتذہ سے ملے ،انہوں نے ھمیں سیدھا اپنے مہمان خانے میں لے گئے،ماشاء اللہ یہاں مہمانوں کی ضیافت کی ترتیب مثالی ھے ۔مہمان خانہ میں ھر سہولت موجود ھے،مستقل کچن بنا ھوا ھے،باقاعدہ باورچی موجود ھے۔

تمام ساتھی تھکے ھوے تھے،یہاں پہنچ کر سب نے سفر کا میل کچیل اتارا ۔نہا دھوکر کپڑے تبدیل کئے،اتنے میں ناشتہ بھی تیار ھوگیا۔

سب ساتھیوں نے ناشتہ کرنا شروع کیا ،ناشتے کے دوران،وھاں کے اھل سنت کے امیر بزرگ عالم دین مولانا ابراھیم خلیل صاحب تشریف لاے،ان سے ملاقات ھوئ ۔وہ بڑے خوش ھوئے

. مجھے دیکھ کر فرمانے لگے کہ آپ مولانا سیدعبدالجلال صاحب کے عزیز تو نہیں ھیں،میں کہا جی ھاں، میں ان کا بھتیجا ھوں،فرمانے لگے آپ کی شکل ان سے ملتی ھے،وہ یہاں میرے پاس آتے تھے جب یہاں سکردو کالج میں لکچرر تھے،اورڈائرکٹر سید نبی شاہ کا بھی پوچھا۔

پھر وہ جلدی سے ھم سے رخصت ھوے،انہوں نے ایک وفد کے ساتھ گلگت جانا تھا گلبر صاحب وزیراعلی کومبارکباد دینے کیلئے ، کچھ دیر کے بعد مولانا حسین طارق صاحب تشریف لائے،جو اسلام آباد میں جامعہ غفوریہ کے ناظم تعلیمات ھیں۔بڑے زبردست خطیب ھیں ۔ان کانام بہت سنا ھوا تھا آج پہلی دفعہ ان سے ملاقات ھوئ۔وہ عید کی چھٹیاں گذارنے گاؤں آئے ھوئے تھے.

سکردو گردیاں

ناشتے کے بعد اگلے سفر کی تیاری کی،سکردو کے دوسرے علاقوں میں بھی جانا تھا،تو جلد ھی روانہ ہوگئے،

اللہ تعالیٰ کی شان استور کے مقابلے میں یہ علاقے وسیع وعریض ،لیکن چاروں طرف خشک کالے پہاڑ ،نیچے خالص ریتلے میدان، گاوں کے علاؤہ راستوں میں سبزہ کا نام ونشان نہیں ،البتہ سڑک عمدہ اور پکی،گاڑی فراٹے بھرتی جارھی تھی،اگلی منزل غواڑی میں اھل حدیثوں کا مدرسہ تھا،اس کانام بہت سناھوا تھا،لہذا دیکھنے کا شوق تھا،غواڑی والوں نے غذر میں بہت مسجدیں بنوائی ھیں،یہاں پہلے ان کا آناجانا بہت تھا،لیکن اب سعودی حکومت کی بے رخی کی وجہ سے مسجدوں کام رک گیا ھے.

غواڑی اہل حدیث مرکز میں

سکردو شہر سے تقریبا چالیس کلومیٹر کے سفرکے بعد غواڑی پہنچے تو ظہر کی جماعت ھوچکی تھی،ھم نے بھی پہلے پہل وضو کرکے ظہر کے دو رکعتیں پڑھیں۔پھر یہاں کے پرنسپل مولانا عبدالوحد صاحب سے ملنے ان کے دفتر پہنچے ،

شاندار دفتر میں مولانا سے ملاقات ہوئی ،وہ بڑے تپاک سے ملے۔کچھ دیر گفتگو رھی۔ابھی ابھی وھاں کے ڈی سی اور ایس پی صاحبان ملاقات کرکے رخصت ھوئے تھے محرم الحرام کے حوالے سے۔شیخ صاحب نے ھمیں انہی کی کہانی سنائی اور اھل تشیع کے شرارتوں کی داستان ذکر کی، کہ کیسے یہ لوگ جلوس کے دوران شرارتیں کرتے ھیں۔پھر ٹکراؤ کی نوبت آتی ھے،اور حکومت اھل سنت کو نصیحت کرتی ھے کہ دل بڑا رکھیں،ھم ان کی دھیمی اور میٹھی گفتگو سے لطف اندوز ھوتے رھے۔

پھر ان کے ساتھ مل کر طلبہ کیلئے تیار کیا ھوا کھانا کھایا،

ان حضرات کا یہاں بہت بڑا مدرسہ ھے،اندر کالج بھی ھے ۔مدرسے کا احاطہ بہت وسیع ھے،بڑے بڑے باغات ھیں،تفصیلی دورے کا موقع نہیں تھا سو اجمالی پر ھی اکتفا کرکے وھاں سے رخصت ھوے،شیخ صاحب باغ میں دعوت کی خصوصی پیش کش کی ،لیکن وقت کی قلت کا عذر دامن گیر رھا.

یہ ڈغونی ہے

آگے ھم نے براہ اور ڈغونی جانا تھا ۔یہاں سے آگے تقریبا پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ڈاغونی بڑا گاؤں ھے۔دریا کے اس پار ھے۔ پل پر چند ساتھی پہلے سے منتظر تھے ان سے ملاقات ھوئی اور ان کی رھبری میں ھم گاؤں کی طرف روانہ ھوئے ،

اس گاؤں میں خوبانی کے درخت بکثرت موجود ہیں ابھی صحیح طرح پکے بھی نہیں تھے۔4

مولانا احسان اللہ محسن کا مدرسہ

یہاں بنات کا ایک پرانا مدرسہ ھے ،ھم نے وھاں جانا تھا،گلیوں سے ھوتے ھوئے ھم مدرسے میں پہنچے،سنا ھے یہ مدرسہ بہت پرانا ھے ۔پہلے صرف مکتب تھا،اب کچھ نئ تعمیرات ھوئیں ھیں،مہتمم مولانا احسان اللہ صاحب اپنے رفقاء کار کے ساتھ ھمارے منتظر تھے،سیدھا اپنے دولت خانے میں لے گئے اور لذیذ کھانے سے ھماری تواضع فرمائ۔

ان کے ساتھ مولانا غلام رسول صاحب بھی تھے ۔کھانے کے بعد انہوں نے مدرسہ کا وزٹ کرایا۔یہ مدرسہ یہاں پر اندھیرے میں چراغ ھے۔یہاں کافی بچیاں زیر تعلیم ہیں جو وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا نصاب پڑھ رھی ھیں ،ان دنوں مدرسے میں عیدالاضحیٰ کی تعطیلات تھیں،مدرسہ بہت بہترین انداز میں تعمیر کیا گیا ۔یہاں ایک چھوٹی لائبریری بھی تھی وھاں کتابیں رکھنے کا نرالا انداز تھا اوپر چھت کے قریب کتابوں کی جگہ بنائی گئی تھی ساتھ چھوٹی سی گیلری بھی ۔یہ طرز پہلے کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملا۔

گھروں کی تعمیرات کا نرالا انداز

یہاں اکثر تعمیرات ،مسجد مدرسہ ۔گھر وغیرہ دو منزلہ ھیں اور دوسری منزل لکڑی کی چھت پر بنائی جاتی ھے اور نچلی منزل سردیوں میں استعمال کی جاتی ھے۔جو انگھیٹی کیلئے بہت مناسب رھتی ھے ،ساتھ ایک خوبصورت مسجد بھی مولانا صاحب کی کاوش سے تعمیر ھوئی ھے۔

انجمن اہل سنت سے منسلک مدارس و مکاتب

یہاں مدارس کی ایک اچھی ترتیب ھے،سب مدارس ایک انجمن کے ساتھ جڑے ھوئے ھیں۔تقریبا تیس مدارس و مکاتب کی ایک انجمن ھے ۔سب مدارس اسی ایک انجمن کے تحت کام کرتے ھیں،اس کا صدر دفتر سکردو شہر میں واقع مدرسہ اسلامیہ ھے۔سب چندہ تعاون وغیرہ وھاں اکٹھا ھوتاھے۔مدرسین کو تخواھیں بھی وہیں سے ملتی ھیں۔ایک نظم کے تحت کام ھوتا ھے۔یہ اتفاق و اتحاد کی ایک اعلی مثال ھے۔

براہ میں مولانا غلام رسول سے ملاقات

یہاں سے آگے گاؤں براہ جانا تھا،وھاں کے مدرس مولانا غلام رسول صاحب ھمارے تھے ،یہ گاؤں واحد اھل سنت حنفی کا اکثریتی گاؤں ھے۔ورنہ یہاں اکثریت نور بخشیوں کی ھے۔یہ صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔وھاں پہنچے تو عصر کا وقت ھوچکا تھا ۔عصر کی نماز یہاں کی بڑی مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھی۔مسجد کے ساتھ ھی چند قدم کے فاصلے پر مدرسہ صدیقیہ واقع ھے ،

لوگوں نے بتایا کہ یہ مدرسہ بھی بہت پرانا ھے۔اب یہاں بھی نئی عمارت بن گئ ھے ۔پرانی عمارت کی ایک یادگار بھی باقی ھے۔یہاں بھی چند علماء ھمارے منتظر تھے ۔ان سے ملاقات ھوئ۔مدرسہ کے مہمان خانے میں چاے،توت،اور خوبانی سے تواضع کی گئی.

مفتی شریف اللہ سے ملاقات

بلتستان کی مشہور علمی

شخصیت جو لاھور میں مقیم ھیں حضرت نفیس شاہ صاحب رحمہ اللہ کے خلیفہ مجاز مولانا ابوالحسن شریف اللہ الکوثری جوان دنوں اپنے گاؤں خپلو آئے ھوے تھے ،بھی تشریف لائے ان سے بھی ملاقات ھوئی.

خپلو میں بلتی چائے کی لطف آفرینیاں

پھر ھم نے آگے خپلو جانے کیلئے تیار ھوے، جو صرف دو تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہی واقع ھے ۔ضلع گانچھے کا ھیڈ کوارٹر ھے ،وھاں مولانا رحمت اللہ صاحب سے ملاقات کرنی تھی، مرکزی جامع مسجد خپلو کے خطیب ہیں ،یہ بہت باغ وبہار شخصیت کے مالک ہیں ہر وقت ھنسی خوشی اور مزاح کی باتیں کرتے رھتے ھیں ۔مغرب سے پہلے ان کے گھر پہنچے۔یہاں بھی چائے سے تواضع کی گئی۔یہاں پہلی دفعہ بلتی چائے پینے کوملی ۔جو یہاں کی خاص چائے ہے جس کو کشمیری چائے بھی بولتے ھیں۔

یہاں مولانا سیف اللہ صاحب کے جامعہ فاروقیہ کے ایک پرانے ساتھی،ھم سبق اور ھم تکرار تھے، جن سے فراغت کے بعد اب تک ملاقات نہیں ھوئی تھی ،ملے بہت خوش ھوئے،موصوف وھاں کےمعروضی حالات اور ماحول کے پیش نظر،مائل بہ نور بخشیت ھوچکے ھیں۔حضرت کی ان سے علحیدگی میں کافی گفت شنید ھوئی،ان کے پریشان کن حالات سنے،

بہرحال ان حالات سے نکلنے صورت مقدر ھوجائے ۔کوئی معاشی بہتری آجائے تو امید قوی ھے،کہ پھر اپنی اصلیت کی طرف لوٹیں گے۔

یہاں مولانا رحمت اللہ صاحب کی مسجد میں مغرب کی نماز ادا کی۔بہت ھی خوبصورت مسجد بنی ھوئ ھے۔سننے میں یہ آیا کہ یہ مسجد ان لوگوں نے بنائ تھی جو حال ھی میں ایک باپ اور بیٹا ایک پرانے جہاز کا ملبہ دیکھنے کی غرض سے سمندر میں غائب ھوگئے تھے۔

یہاں تبلیغی جماعت بھی آئی ھوئی تھی،ان سے ملے ،گب شب ھوئی انہوں نے بھی زبردست اکرام کیا۔کچھ دیر وھاں رھنے کے بعد واپس براہ کی راہ لی۔

عشاء کی نماز براہ میں آکے پڑھی،مولانا غلام رسول صاحب ھماری راہنمائی اور معلومات فراھم کرنے کے لیے ھر وقت ساتھ ھی رھے۔اور کوئ چیز ایسی نہیں چھوڑی جس پر گفتگو نہ کی ھو۔مسلسل گفتگو کرتے رھے ،وہ ریکارڈ کی جاتیں تو ایک الگ داستان تیار ھوسکتی تھی ،لیکن نہ ھو سکا،

براہ پہنچے تو عشاء کی نماز تیار تھی۔نماز کے بعد سیدھا مدرسے میں پہنچے اور رات کا کھانا تناول فرمایا۔کل چونکہ جلد واپسی تھی اور بہت تھکاوٹ بھی تھی۔لہذا بستروں پہ دراز ھو گئے۔

بلتستان ڈویژن کے اضلاع

بلتستان میں چار ضلع ھیں،اسکردو،گانچھے،کھرمنگ،اورشگر ھمیں صرف دو ضلعوں گانچھے اور سکردو کو سرسری دیکھنے کا اتفاق ھوا.

بلتستان میں خواتین کی مشقتیں

یہاں ایک بات یہ دیکھنے کو ملی کہ خواتیں بہت مشقت اٹھاتی ھیں۔گھر اور باہر سب کام خواتین ہی کرتی نظر آئیں مثلا گندم کاٹنا،کھیتوں کو پانی دینا۔یہاں تک کہ ایک جگہ تھریشنگ مشین کے کام بھی خواتین سرانجام دے رھی تھیں۔ھمیں بہت تعجب ھوا،

ایک خاص قسم کا بڑا ٹوکرا بید کی شاخوں سے بناھوا وہ مخصوص انداز میں اکثرخواتین کے پیٹھ پر نظر آیا۔جسمیں خوبانی اور کچھ اور چیزیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی ھیں، یہاں تھریشنگ کا کام بھی مین روڈ پر ہی کیا جاتا ھے۔جگہ جگہ مشینیں لگی ھوئیں تھیں۔

صبح سترہ جولائی کا سورج طلوع ھونے سے پہلے ایک قاری صاحب کے دولت خانے میں ناشتے کی دعوت تھی،سو وھاں پہنچ گئے،اور ایک اور ھمدر قاری عبد الرشید صاحب نے بھی دعوت دے رکھی تھی،پہلے کے پاس ناشتہ کیا دوسرے کو بھی مایوس نہیں کیا دودھ اور کسٹرڈ سے ھاتھ صاف کیا۔اب ھم واپسی کیلئے بالکل ریڈی تھے۔

تقریبا دس بجے پھر اسکردو مرکز پہنچے۔مولانا سرور صاحب نے کھانا کھاکے جانے پر اصرار فرمایا،تو سب نے سبزی کا تقاضا کیا،چنانچہ گھنٹہ بھر میں کھانا تیار ھوگیا ۔

کھانا کھاکے استغفار کے ساتھ واپس ھوئے۔

اسکردو سے واپسی

اسکردو سے گلگت تک بہت اچھی سڑک ھے پکی سڑک،حفیظ حکومت کی بنائی ھوئ نئی بہتریں سڑک نے اس سفر کو بہت آسان بنایا ھے۔آٹھ گھنٹے کا سفر چار گھنٹوں میں طے ھوتا ھے.

پڑی بنگلہ میں مولانا عبدالمطلب کے دولت کدے پر

چنانچہ ساڑھے بارہ بجے روانہ ھو چار بجے پڑی میں مولانا عبد المطلب کے فلور مل پہنچے،راستہ بھر تیز گرمی تھی ،سخت گرمی لگی تھی ۔

یہاں پہنچ کر لسی نوش کیا ،چاے واے سے لطف اندوز ھوے،عصر کے وقت گلگت پہنچے.

وزیر اعلیٰ سے ملاقات

نماز پڑھ کر نئے منتخب وزیر اعلیٰ جناب حاجی گلبر صاحب سے ملاقات کی غرض سے سی ایم ھاؤس پہنچے۔سی ایم صاحب ھمارے مفتی صاحب کے دوست ھیں۔ان دنوں آپریشن کے بعد کچھ بیمار سے تھے ۔بیڈ پر ھی براجمان تھے۔ ملاقات کی ،اور جناب کو دعائیں دے کر رخصت ھوئے.

ان دونوں وزارتوں کی جوڑ توڑ جاری تھی۔مختلف وفود آ،جارھے تھے،ملاقاتیوں کا بھی تانتا بندھا ھوا تھا،ھجوم عاشقان وپرستان ،مطلبیاں،جاری تھا۔

ایسے کسی ھاؤس میں ھمیں پہلے دفعہ آنے کا اتفاق ھواتھا۔اندار خسروانہ کچھ اچھا نہیں لگا،یوں لگا کہ عوام اور حکمرانوں کے درمیاں بڑا گیپ ھے،ان دنوں میں بڑی مشکل سے ملاقات ھوتی ھے۔تو اور دنوں میں کیا ھوتا ھوگا.

ڈیموکریسی کا شاخسانہ

بہرحال ڈیموکریسی کا شاخسانہ ھی یہی ھے پہلے عوام سے ووٹ کی بھیک مانگنا ھوتا ھے پھر پلٹ کے دیکھنا بھی نہیں ھوتا ھے،عوام روڈوں پر ھوتے ھیں اور وزراء ھاوسوں میں،

یہاں گلگت جیسے سرزمین بے آئین کا وزیر اعلیٰ ھاؤس ایک بڑے رقبے پر پھیلا ھواھے،بڑا شاھی محل ھے۔کئی رھداریوں،مختلف سیکیورٹی دروازوں سے گذر کر ۔کمرے درکمروں سے ھوتے ھوئے سونے کی چڑیا تک پہنچنا ھوتا ھے تو پنجاب اور سندھ کا وزیراعلی ھاؤس کیا ھوگا،ایسے جگہوں میں رھنے والے مخلوق، عوام کا درد کیا جانیں گے.

برکات سفر

بہرحال اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ھمارا سفر بہت ھی اچھا رھا ،بہت کچھ دیکھنے کو ملا۔طبیعت کو تازگی اور نشاط ملی،قدرتی مناظر سے لطف اندوز ھوئے ،اور یوں ھمارا تین دنوں کا یہ یادگار سفر اختتام پذیر ھوا،مفتی صاحب اور صابر بھائی کی شفقتوں سے مدرسین خواب شرمندہ تعبیر ہوا. اللہ انہیں جزائے خیر دے. آمین

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔
Back to top button