’خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ‘
گردوپیش کی سماجی ترقی اور سائنسی فکرکی وجہ سے روزانہ نت نئے افکار سے پنگا پڑتا رہتاہے۔ہم گلگت بلتستان کے دیہاتوں میں پلے بڑھے ہیں۔ ہماری زندگی کا آغاز دیہاتی زندگی سے ہوا ہے۔ دیہات ایک تصور ہے جو قدیم تہذیب وروایات کا مظہرہے۔ قدیم تہذیبوں اور روایات کو ہمارے دیہاتوں نے اپنے دامن میں چھپا رکھا ہے۔ یہی وہ شعار ہیں جو ہر ایک کی ابتدائی زندگی کی بالیدگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ دیہاتوں کی ان روایات کو دیہاتیوں نے ہی محفوظ رکھا ہے۔ سماجی ترقی اور سائنسی فکر نے اب اِن روایات کو خطرے میں ڈال دیاہے۔ دیہات کے چھوٹے بڑے اپنے قدیم زمانے کو آج کل صرف دنیائے خیال میں ہی یاد رکھ سکے ہیں۔ جب آج کے نوجوان شہر کی زندگی اور جدیدیت کے جدت پسندانہ خیالات کے ساتھ گاؤں جاتے ہیں تو گاؤں کے لوگ ان کو دیکھتے ہی اپنی دنیائے خیال میں چلے جاتے ہیں اور ان کو اپنی روایات کی تذلیل نظر آتی ہے جس پر وہ ان گوشوں کو مذہب اور روایات کی کڑی سے ملانے کی سعی کرتے ہیں۔ بعض اوقات دیہاتی انہی واقعات کو اپنی کمزوری سمجھ کر عمائدین‘ زعماء اور علماء سے فتوے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ثقافت ورسومات کی آڑ میں لوگ آپس میں الجھتے رہتے ہیں۔ اس الجھن کی وجہ سے نئی نسل اور پچھلے نسل میں خلا پیدا ہونے لگاہے۔ ماہریں کا خیال ہے کہ ہر زمانے کے لوگ اپنے دور کے جدیدرویوں کو اپناتے ہیں۔ لیکن یہی رویے لوگوں کیلئے ثقافت اوررواج بن جاتی ہیں۔ پچھلے نسل کے لوگوں کے جذبات اپنے زمانے کے لئے بہت نرم اور نئی دور کے لئے بہت سخت ہوتی ہیں۔ وہ ہمیشہ خیال کی دنیا میں اپنی دنیا کو بہت مہذب اور نئی دنیا کو مشکوک نظر سے دیکھتے ہیں۔
غم یہ نہیں کہ ہم کو زمانہ برا ملا
شکوہ تو یہ کہ ایسے زمانے کو ہم ملے
تبدیلی ہر زمانے کی کوشش کی پیداوار ہے۔ قدیم دور کے لئے لکڑی کے اوزار اور برتن اچھے لگتے تھے اور کچھ عرصہ ان چیزوں کو شہرت ملی۔ اُن ادوار کے دوران جو مذاہب وجود میں آئے اُن مذہب کے مذہبی صحائف میں انہی اوزار کا ذکر آیا ہے۔ اس لئے وہ چیزیں بھی اس وقت کے لئے متبرک بن گئے ۔ یہی وجہ سے کہ اُس زمانے کے علماء اور شدت پسند لوگوں نے مرتے دم تک اپنے زمانے کے چیزوں کو مذہب سے جوڑ دیا اور ان کے لئے لوگوں کے دلوں میں ایک خوف ڈال دی۔ وقت کے ساتھ ساتھ سائنسی ایجادات کی وجہ سے نئی چیزیں بنتے رہے لیکن پچھلے نسل کے لوگوں نے اِن نئے چیزوں کو اچھا شکون نہیں سمجھا۔ یہی وجہ سے کہ روایات کے نام سے اُن کی تحفظ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور انہی وجوہات کی وجہ سے دنیا نے کئی جنگوں کو دیکھا جس میں کروڑوں لوگ مارے گئے۔ یورپ کے کلیساؤں نے عرصے تک اپنے روایات کو محفوظ رکھا لیکن وقت کی دہار کے سامنے زیر ہوگئے۔ہر مذہب کے لوگوں نے یہی عمل دہرایا اور ہزاروں لوگ اس ’برائے نام جنگ میں ‘ اپنی زندگی کھو گئے۔ برتن مٹی ‘ لکڑی‘ پیتل‘ لوہے یا کسی اور دھات کے ہوں برتن برتن ہی ہیں انُ کا انسان کی مذہب اور جذبات سے کیا تعلق؟ جی ہاں ایک تعلق ہے ان کا معیشت کے ساتھ۔ بنانے والے لوگوں کی پسند اور ذوق کے مطابق چیزیں بناکر اپنی دکان چمکاتے ہیں۔ مثلاََ ایک برتن کے اوپر کوئی مذہبی نشان بنا بس وہ متبرک بن گئی یا کسی خطے کی کوئی قومی نشان بنایا وہ اس قوم کی عکاس بن گئی۔یہی مثال عمارتوں کی ہے قدیم لوگ اپنے دور کے عمارتوں کو عظیم ورثہ جبکہ جدیدکو ناپسند کرتے ہیں۔ کپڑے ہویاکوئی اور چیز بس قدیم لوگ اپنے زمانے کی سونے کی چڑیاں سمجھ بیٹھے ہیں۔علامہ اقبال فرماگئے ہیں.
’یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زُناری
نہ ہے زماں نہ مکاں لا الہ الا اللہ
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الہ لا اللہ ‘
ہم قدیم زمانے کے مقلد اور مخالف بھی نہیں ۔ سوال صرف یہ ہے کہ دنیائے خیال کے بجائے دنیائے عمل میں آنے کی ضرورت ہے۔ روایت پسندی اچھی بات ہے لیکن روایت پرست بننا نئی نسل کے لئے بہت بڑا المیہ ہے۔ ہمارے آباؤاجداد نے اپنے زمانے میں ہر نئی چیز کو خوش آمدید کہا ہے اور اور جب ہم آج ایسا کرتے ہیں تو ان کو برا لگنے لگتا ہے۔ موبائل سے لیکرجدیدترین عمارتوں کو لوگ شک کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں حلانکہ۔۔۔
’ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن‘
ہمارا عقیدہ ہے کہ زمین پر ہر چیز اللہ کے حکم سے ہی وجود میں آتی ہے پھر ہم نئے دور کی نئی چیزوں کو اس نظر سے کیوں نہیں دیکھتے ؟ سوال یہ ہے زمانے کی جہاز‘ کار‘ موبائل اور انٹرنٹ’حلال‘ ٹھہریں ہیں لیکن جدیدیت’حرام‘ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے۔ ہماری نئی نسل کو زمانے کے ساتھ چلنے کا حق ہے۔ اگر یہ حق وقت پر نہیں ملی تو نئی نسل اس حق کو چھینے گھروں سے نکل جائیں گے۔ زمانے کی شدت کی یہ سیلاب روکنے میں ہمارے وسائل لگ جائیں گے اور ہم کمزور ہونگے۔ اس لئے قبل از وقت نئی نسل کی تربیت میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چائیے۔ چیزوں کا کوئی قصور نہیں ہمیں چیزوں کی استعمال کے طریقے کو اپنے نسل کو سکھانے کی ضرورت ہے۔ آج والدین کو اپنے بچوں کو انٹرنٹ‘ موبائل‘ کمپوٹر‘ نئے نئے فیشن والی لباس‘ رہائش کے طریقے اور زبان و کلام کی نئی دوڈ میں روکنے کی بجائے ان کی راہنمائی کرنا چائیے۔ ترقی اور کامرانی کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی نسل نو کی تربیت برابری کے ساتھ کریں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی حقوق میں فرق نہ کریں۔ ان کے جائز حقوق ملنی چائیے۔ آج دنیا میں مرد و زن تعلیم وتربیت میں محو ہیں ہم نے ایک طبقے سے جینے کا حق چھین رکھا ہے۔ اپنے لئے خوب مزے اور خواتین کی چاردیوری میں مقید۔ کیا ہمارے نظام میں خواتین اور بچوں کو جینے کا حق نہیں؟ مرد کیوں معاشرے کا ٹھیکہ دار بن بیٹھا ہے؟ اگلی دینا میں عمال کا جواب دہ سب ہیں تو یہاں برابری کیوں نہیں؟ ہم نے اپنی روایت کے نام سے خود کے لئے زمانے کی ہر چیز کو جائز اور دوسروں کے لئے ناجائز قرار دیا ہے۔ ہم خواتین کی تعلیم کے خلاف جبکہ کوئی خاتون بیمار ہو تو خاتوں ڈاکٹر ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ ہم اپنے بیٹوں کو تعلم یافتہ بیویوں کی تلاش کرتے ہیں جبکہ اپنی اولاد کو تعلیم نہیں دیتے۔ ہم سر عام دوسروں پر نظر بد رکھتے ہیں اور خود کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ خود انیسویں صدی میں رہ کر باتیں بیسویں صدی کی کرتے ہیں۔ نہیں جناب! تربیت کی ضرورت ہی اس لئے ہے کہ نئی ایجادات ودریافتوں کی مثبث استعال کو اپنی نسل کو سمجھایا جائے۔ یہی وجہ سے کہ تعلیم و تربیت کی ہر زمانے میں ضرورت رہی ہے۔ علماء اور لیڈر کا کام یہ نہیں کہ وہ ہر چیز سے روکے بلکہ اُن کا کام یہ ہے کہ وہ ہر اس چیز کے طریقہ استعمال کا طریقہ اپنے لوگوں کو سمجھائے۔ لیکن ہمارے ہاں اس کا الٹ ہے ؛ بقول اقبال
شاعر بھی ہیں پیدا‘ عماء بھی‘ حکماء بھی
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ
حق رائے کی بنیاد پر اس کالم میں چند جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔ یہ اس لئے نہیں کہ اقبال بتا گئے ہیں بلکہ معاشرے کی ناانصافی اور ایک طرفہ نظام ہمیں مجبور کرتا ہے۔ ہم نے گھروں میں ہی تین چار طبقے بنا رکھا ہے ملک میں تو طبقوں کی کوئی کمی نہیں تو برابری کیسے ہوگی؟ معاشرے کی کامل ترقی کا راز یہی ہے کہ ہم سب کی تعلیم و تربیت کریں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ہم روایات کے غلام کیوں ہیں؟
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کا نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے