کالمز

مسلہ گلگت بلتستان اور کشمیر

قدرت نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دے اسے اپنا نائب مقرر کردیا تاکہ وہ دنیا میں نظم و ضبط برقرار رکھتے ہوے ایک معزز معاشرے کی بنیاد رکھ سکے۔ یوں انسان اپنی ارتقائی عمل سے گزرتے ہوے ترقی کی منازل طے کرتا گیااور مختلف قوموں اور گروہوں نے اپنے جداگانہ حییثت کو برقرار رکھنے کیلئے ریاستیں تشکیل دی اور قوموں کے درمیان امن امان برقرار رکھنے کیلئے مختلف معاہدے کیے ان میں سے کچھ معاہدے نیک نیتی اور قوموں کی ترقی کے عمل کو منزل کے طرف روانی اور کچھ بدنیتی پرمشتمل اور اپنے سے کم طاقت والے قوموں کی آذادی اور خود مختاری کو شب وخون مارنے اور ان کے مستقبل اور حال کے متوقع اور موجودہ وسائل پر قبضے اور بین الاقوامی قانون اور اصول کو پامال کرتے ہوے ترتیب دئیبلکل۔

ایسی ہی صورت حال کا سامنا گلگت بلتستان کو بھی ہوا ۔ قارئین کی آسانی کیلئے ہم اگر تاریخ کی بات کریں تو 1947سے پہلے پاکستان اور بھارت کو برصغیر کے نام سے پُکارا جاتا تھا اور گلگت بلتستان بھی ریاست جموں کشمیر کا حصہ تھا۔ اس میں کسی بھی قسم کا کوئی ابہام نہیں۔ لیکن تقسیم ہند کے بعد جس طرح بہت سے جعرافیائی تبدلیاں وقوع پذیر ہوئے جس کے نتیجے میں ریاست جموں کشمیر کو وہاں کے راجہ سے بھارت کے ہاتھوں فروخت کردیا مگر اُس وقت کے کشمیری ہاتھ ملتے رہ گئے۔  

my Logoموجودہ آذاد کشمیر کی آذادی کیلئے بھی پاکستانی قبائلوں نے ڈوگروں کے ساتھ جنگ کرکے حاصل کیا اب اگر ہم گلگت بلتستان کی بات کریں تو یہ خطہ تقسیم ہند کے بعد بھی ڈوگروں کے زیرنگران علاقہ تصور کیا جاتا تھالیکن اس عظیم دھرتی کے عظیم فرزند کرنل مرزا حسن خان نے عوامی مدد سے ڈوگرہ حکومت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا اور بہت ہی کم وقت میں گلگت کو ڈوگرہ حکومت سے آذاد کراکے ریاست گلگت تشکیل پایا۔اسی دوران بلتستان کے راجاوں نے بھی کرنل حسن خان سے بلتستان کی آذادی کیلئے اسکاوٹس کی مدد طلب کیا اور انہوں نے قبول کرتے ہوئے ایک گروپ نے بلتستان کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے بلتستان کو بھی ٖڈوگرہ حکومت سے آذاد کرایا اور ریاست گلگت بلتستان مکمل ہوگئی۔

اسی دوران کرنل حسن خان کی درخواست پر پاکستان سے سرادر ابراہیم اس نومولود ریاست کے انتظامی امور میں مددکرنے کیلئے آئے جو کہ کشمیری تھا انہوں نے معاملے کو خراب کرکے پاکستان کے ساتھ الحاق کرایا جس سے کرنل حسن خان دلبرداشتہ ہوگئے اور انہوں نے بعد میں اس بات کا اظہار بھی کیا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ سب کچھ ہونا ہے تو میں کبھی برٹش آرمی سے بغاوت نہیں کرتا۔پاکستان سے غیرمشروط الحاق کے بعد ستم بالائے ستم یہ بھی ہوا کہپاکستانی اور نام نہاد کشمیری حکمرانوں نے ایک سازش کے تحت کشمیر کیلئے اتصواب رائے کی صورت ووٹ بڑھانے کی خاطر گلگت بلتستان کے عوام کی رائے کو بالائے طاق رکھ کر 1949میں معاہدہ کراچی کر کے یہاں کے عوام کو دشت ظلمت اور قید غربت میں مزید ڈھکیل دیااور یہاں کے غیور عوام کی اپنے زوربازو سے حاصل کردہ سرزمین کو اپنے لئے عذاب جان بنادیا ۔ لیکن آج اُس سازش کو عوام جان چکے ہیں اور یہاں کے عوام میں نفرت کی آگ پھیل رہی ہے کیونکہ 1948کی جنگ آذادی کے بعد گلگت بلتستان کا کشمیر تعلق ختم ہو چکا تھا تو کیسے 15 ہزار مربع میل پر پھیلے حکمران 28ہزار مربع میل گلگت بلتستان کے دعوے دار ہوسکتے ہیں اور نہہی آج تک کی تاریخ میں یہاں کوئی سیاسی کردار رہا ہے ۔آج اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہر دور میں کشمیر کے حکمرانوں نے گلگت بلتستان کی حقق تلفی کرکے اور خود فائدہ اُٹھاتے رہے۔یوں جب 2009 میں وفاقی حکومت نے اس خطے کے شناخت کی تعین کیلئے ایک نام نہاد پیکج کیا دیا تو معاہدہ کراچی کے خالقوں میں عجیب سی کھلبلی مچ گئیاور اس پیکج کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے۔

انہی سازشوں کی وجہ سے گلگت بلتستان معاشی علمی اور معاشرتی ترقی میں بہت پیچھے رہ گئے آج اگر ہم معاشرتی ترقی کے عمل کا موازنہ کریں توآذاد کشمیر ہم سے 100فیصد ترقی یافتہ ہے یہاں کے عام آدمی کی نظام زندہ گی گلگت بلتستان کے عوام سے کئی گنا ذیادہ بہتر ہے۔ وہاں عرصہ دراز سے اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم ہے لیکن یہ خطہ آج بھی مخدوش ہے اورترقی کے راہ تک رہے ہیں۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی کشمیری لیڈر نے معاہدہ کراچی سے لیکرآج تک اس محکوم اور مظلوم خطے کے عام کی زندگی میں بہتری لانے کیلئے کسی فورم پر آواز بلند کیا؟کیا کبھی آذاد کشمیر کے کسی رہنما نے سابقہ شمالی علاقہ جات کو جو رقبے اور آبادی کے لحاظ سے آذاد کشمیر سے کئی گُنا ذیادہ ہے،کو کشمیر اسمبلی میں کوئی نشت دینے کی بات کی؟ایسا بلکل نہیں کیا لیکن سلیف ایمپاورمنٹ کی لولی پوپ کے بعدپوری دنیا میں یک زبان ہو کر اس کے خلاف سراپا احتجاج ہوگئے جوکہ منافقت کی ایک عملی دلیل ہے ۔ پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں جب صدر ذرادری آذاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کرنے گیا تو وہاں بھی یہ شکوہ لیکر کر بیٹھ گئے لیکن اُس وقت کے صدرپاکستان نے اس بات کونذانداز کر کے مسکراہت سے نفی میں جواب دیکر بتانے کی کوشش کی کہ انہوں نے اس علاقے کی عوام کے ساتھ کوئی احسان نہیں کیا ۔یوں اسطرح منفی سوچ سے دوریاں مزید دوریاں پیدا ہوگی جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔آج بھی ہم دیکھتے ہیں کشمیری قیادت گلگت بلتستان سے سیاسی محرومیوں کی خاتمے کیلئے حمایت کرنے کے بجائے ہر فورم پر یہی ایشو اُٹھایا جارہاہے کہ گلگت بلتستان کو الگ شناخت اگر مل جاے تو مسلہ کشمیر سے پاکستان کا گرفت کمزور ہو جاے گا وغیرہ ۔اس بات کے جواب میں اس خطے کے عوام سوال کرتے ہیں کہ آپ کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ ایک ایسے معاہدے کے ذریعے جس میں ہماری مرضی شامل کئے بغیر ہماری قسمت کا سودا کیا جائے؟۔یہاں کے عوام نے تو آزاد فضاوں میں سانس لینے کے لئے ڈوگرہ حکومت سے بغیر کسی حکومتی امداد کے جنگ لڑکر سرزمین گلگت بلتستان کوحاصل کیا تھا،اگر ہمارے اُس وقت کے جانثاروں کو یہ خبر ہوتی جیسے میں نے اوپر ذکر کیا کہ ہممستقبل قریب میں ایک اور زنجیر میں جکڑنے والے ہیں تو شائد ہم وہیں خوش ہوتے جیسے آج کرگل اور لداخ اپنی حیثیت اور شناخت کے ساتھ خوش ہے۔گلگت بلتستان کے عوام کو کیا ؟ملا سوائے غربت تنگدستی اور فرقہ واریت کے نام پر قتل کے سوا؟۔

آج یہاں کے باسی سوال کرتے ہیں کہ جس شان کے ساتھ آپ اس دھرتی کے دعوے دار ہے کیا کبھی آپ نے گھر کے اندر داخل ہو کے دیکھا کہ اس گھر کے مکین کس کرب کے ساتھ گزر اوقات کر رہے ہیں جب آج کشمیر کا ہر دوسرا آدمی کشمیر کے تنازعے کا سہارا لیکر پوری دینا میں آباد ہو رہے ہیں لیکن گلگت بلتستان کے عوام پر ہرطرف سے ظلمت کی پہاڑ گرائے جا رہے ہیں تو کیسے دعوی کرتے کہ ہم ایک قوم ہے؟۔ حقیت میں ایسا کچھ نہیں صرف دعوے کرنے سے قوم نہیں بنتا قوم بننے کیلئے احساس کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ کشمیری رہنماوں کے دل میں نہ کبھی تھا اور نہ ہو گا۔ آج تاریخ میں پہلی بار سردار یعقوب نے گلگت بلتستان کا دورہ کرکے بڑے اعلانات کرکے چلے گئے اب دیکھنا یہ ہے کہ کتنا عمل درآمد ہوتا ہے اسطرح میگا اعلانات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں ماضی کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ ایسیاعلانات صرف الیکشن پر اثرانداز ہونے کیلئے کئے جاتے ہیں لہذا عوام کو خوش فہم ہونے کی ضرورت نہیں۔یوں آخر میں موضوع کو سمیٹتے ہوئے بتا دینا چاہتا ہوں کہ گلگت بلتستان کے عوام بحیثیت قوم مسلہ کشمیر کی ایشو پر کشمیری عوام کا ساتھ دیتے ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو یہ قوم کشمیر کی آذادی کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ۔لیکن یہاں کے عوام کبھی بھی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس خطے کو کشمیر کا حصہ سمجھا جائے کیونکہ جیسے میں نے اُوپر ذکر کیا کہ تقسیم ہند کے بعد جس طرح پورے برصغیر کا نقشہ بدل گیا تھابلکل یہی صورت حال اس خطے کا بھی ہے اس کے علاوہ ہماری زبان، ثقافت، رہن سہن، معاشرتی اصول، سب اُن سے جدا اور انمول ہے یہ بات الگ ہے کہ یہاں آج تک جو بھی منتظم آئے وہ یہاں کے آئینی حیثیتکی تعین کرنے میں مخلص نہیں رہے لیکن آج پہلی بار پاکستانی سینٹ اور اسمبلیمیںیہ بات بازگشت کر رہی ہے کہ اس خطے کی آئینی حیثیت کا تعین ہونا چاہئے پاکستان کی سول سوسائٹی اس حوالے سے آواز بلند کررہے ہیں جو کہ کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔ اب بس ہمارے مفاد پرست سیاست دانوں کی غیرت جاگنا باقی ہے جس دن اُن غیرت جاگ جائے اور اس نام نہاد اسمبلی کا بائیکاٹ کریں سمجھ لیں کہ گلگت بلتستان کا مسلہ حل ہوگیا۔ 

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

ایک کمنٹ

  1. یوں معلوم ہوتا ہے کہ صاحبِ مضمون کشمیری پروپیگنڈے سے کافی سے زیادہ متاثر ہے۔ اور یہ بھی کہ ان کی تاریخ کے حوالے سے معلومات واجی ہیں۔

    ٌپہلی بات، حضرت، 1947 سے قبل انگریزوں، سکھوں اور ڈوگروں کے قبضے سے پہلے کی تاریخ سے یا تو آپ آگاہ نہیں ہیں، یا پھر عارفانہ تجاہل کا ارتکاب کرتے ہوے اس سے صرفِ نظر کر رہے ہیں۔ ہزاروں سالوں سے اس نام نہاد گلگت بلتستان میں شامل علاقے آزاد، خودمختار اور بالکل آزاد تھے۔ کشمیریوں کی نسلوں کو بھی نہیں پتا تھا کہ ہمالہ کے اس طرف قراقرم اور ہندوکش کے دامن میں کون سے قبائل آزاد ہیں، اور کونسی ریاستیں کا نظام استادہ ہے۔ یہ کہنا کہ 1947 سے پہلے گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ تھا ایک تاریخی ظلم ہے، اور تاریخ کا قتل بھی۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 1947 سے پہلے بلکہ 2010 سے پہلے "گلگت بلتستان” کی اصطلاح کا کوئی وجودنہیں تھا۔ نہ ہی ایسی کوئی سیاسی اکائی اس علاقے میں اپنا وجود رکھتی تھی۔ وزارت گلگت کا ڈھکوسلہ قابضین اور غاصبین نے اپنی حاکمیت کو طول دینے کے لئے جاری کیا تھا۔ گلگت بلتستان کی متعدد ریاستیں تب بھی خودمختار تھیں اور اپنی حکومتیں چلا رہی تھیں۔ تاریخ کو یوں مسخ نہ کیجئے۔ آپ تاریخ کے نہ تو ماہر ہیں، نا ہی طالب علم۔ اسلئے عرض یہی ہے کہ ان مضامین پر لکھیں جن پر آپ کی دسترس ہو۔ ہر دیگ میں منہ مارنے سے آپ ادھرکے رہیں گے نہ اُدھر کے۔

    دوسری بات، 1947 میں حکومت پاکستان کے نمائندے کے طور پر سردار ابراہیم کشمیر سے نہیں بلکہ سردار عالم (تحصیلدار) بطور پولیٹیکل ایجنٹ موجودہ خیبر پختونخواہ سے آیا تھا۔ اور وہ نسلا کشمیری نہیں بلکہ پٹھان تھا۔

    تیسری بات، کرنل وجاہت کی فیس پر اوٹ پٹانگ باتوں سے متاثر ہو کرتاریخ سیکھنے کی کوشش نہ کریں۔ وہ اپنے والدصاحب کو نپولین اور چرچل ثابت کرنے کے چکر میں لگے ہوے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب گلگت بلتستان چند افسران نے اور سابق ریاستوں کے نام نہاد شہزادوں نے قسم اُٹھائی تھی اس وقت کرنل حسن گلگت میں تھا ہی نہیں۔ یکم نومبر کو جب کرنل گھنسارا سنگھ کو گرفتار کیا گیا اس وقت بھی کرنل حسن گلگت میں نہیں تھا۔ جو شخص جائے انقلاب پر موجود ہی نہ ہو، اور کارِ بغاوت میں شامل نہیں ہوا ہو، ہر چیز اسکے نام کردینا اور اسی کو ان داتا قرار دینا حد درجے کی حماقت اور خود پسندی، یا پھر حقائق سے لاعلمی، کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

    چوتھی بات، آزاد کشمیر کو ترقی یافتہ کہہ کر ترقی کی توہین نہ کرے۔ اس ضمن میں زرا سی تحقیق مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
    پانچویں بات، اسمبلی کے بائیکاٹ سے مسائل کیسے حل ہونگے؟ کونسا چمتکار ہوجائیگا؟ کیسا انقلاب آئیگا؟ کونسا آسمان شق ہوگا اور اوپرے انواع و اقسام کے انقللابات نازل ہونگے؟ سیاسی پروسیس سے نابلد ہونے کی وجہ سے آپ ادھر ادھر کو بونگیاں مار کر "لکھنے” کا قرض ادا کر رہے ہیں۔

    پامیر ٹائمز کے دوستوں سے التماس ہے کہ اس طرح کے مضامین پوسٹ کرنے سے پہلے ان کو تاریخ اور گرائمر کے ضرور جانچیں، تاکہ معیار کے دعوے کو برقرار رکھا جاسکے۔

    واسلام

Back to top button